’’سہروردی‘‘ کب رہا ہوں گے؟

بدھ وار‘ 5دسمبر کو محقق اخبار نویس منیر احمد منیر کا پیغام آیا کہ آج پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی 61ویں برسی ہے۔ اس کے ساتھ ہی لکھا تھا:11اکتوبر 1957ء کو صدر اسکندر مرزا نے ان سے استعفیٰ طلب کیا (1956ء کے دستور کے مطابق صدرِ مملکت کو اگر یہ ”یقین‘‘ ہو جاتا کہ وزیراعظم کو اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں رہی تو وہ اس سے استعفیٰ طلب کر سکتا تھا۔ سہروردی مرحوم کی حکومت ری پبلکن پارٹی کے ساتھ مل کر بنائی گئی تھی جو اسکندر مرزا کے گھڑے کی مچھلی تھی۔ اس نے وزیراعظم کی حمایت ختم کرنے کا عندیہ دے دیا تھا) تو وہ رونے لگے۔ مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ نواب مظفر علی قزلباش نے حیران ہو کر ان سے کہا: ”آپ تو بڑے مضبوط آدمی مشہور ہیں۔ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے (اس کیلئےآنسو بہانے کی کیا ضرورت ہے؟)‘‘۔ اس پر وہ بولے: ”میں اپنے اقتدار کیلئے نہیں رو رہا‘ کشمیر کیلئےرو رہا ہوں‘ وہ تو (Kashmir is lost forever) ہاتھ سے گیا‘‘۔ اُن کے اس دعوے کی اصلیت کھوجنے پر پتہ چلا کہ وہ جولائی 1957ء میں امریکہ کے دورے پرگئے تھے۔ صدر آئزن ہاور سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڈا بیر (پشاور) میں امریکہ کا مواصلاتی اڈا کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر سہروردی صاحب نے کہا کہ آپ کشمیر کا مسئلہ حل کرا دیں‘ میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ یہ ”سودا‘‘ طے پا جانے کے بعد سہروردی واپس پہنچے تو تین ماہ کے بعد ہی ان کی حکومت ختم کر ڈالی گئی۔ بعدازاں ایوب خانی مارشل لاء نے یہ امریکی خواہش بلا شرط پوری کر دی۔
اس کیساتھ ہی سہروردی مرحوم سے وابستہ کئی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ مشرقی پاکستان کے ایسے مقبول رہنما تھے جن کی مغربی حصے میں بھی پذیرائی تھی۔ انہوں نے عوامی لیگ کی بنیاد رکھی اور 1954ء کے انتخابات میں مشرقی بنگال میں مسلم لیگی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ سہروردی متحدہ بنگال کے وزیراعظم رہے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ بنگال کے سیکرٹری جنرل۔ تحریک پاکستان میں انہوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے منتخب نمائندوں کا کنونشن نئی دہلی میں منعقد ہوا تو اس میں سہروردی مرحوم ہی نے ‘ایک پاکستان‘ کی قرارداد پیش کی تھی کہ مشرقی اور مغربی مسلم اکثریت کے دونوں منطقوں کو ایک ریاست میں ڈھل جانا چاہیے۔ انہیں ایوب خان کے دورِ حکومت میں ”قومی سلامتی‘‘ کے خلاف سرگرمیوں کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تو لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان مشرقی پاکستان کے گورنر تھے‘ انہوں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ یہ فوجی گورنر اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے تاہم انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کی اس طرح خدمت کی تھی کہ وہاں کے مقبول ترین شخص بن گئے تھے۔ اپریل 1984ء کے دوران میں نے ان سے انٹرویو کیا تو سہروردی مرحوم اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھی ان سے گفتگو ہوئی۔ چند سوال جواب ملاحظہ ہوں:
س: آپ کو گورنری سے سبکدوش کیسے کیا گیا؟ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان آپ کی مقبولیت سے خائف ہو گئے تھے؟
ج: مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا۔ میں نے خود استعفیٰ دیا تھا۔ بات یہ تھی کہ مرکزی حکومت نے سہروردی کو پکڑ لیا۔ ذاکر حسین گورنری چھوڑنے کے بعد وزیر داخلہ بن گئے تھے‘ وہ آئے تو انہوں نے ”اینٹی سٹیٹ ایکٹویٹی‘‘ کا الزام لگایا سہروردی پر۔ میں نے چیف سیکرٹری کو فون کیا کہ پولیس اور سول سروس والوں کو لے کر آئے۔ وہ لوگ جب آ گئے تو میں نے ذاکر حسین سے پوچھا کہ سہروردی کا کیا معاملہ ہے؟ ”اینٹی سٹیٹ ایکٹویٹی‘‘ کا نعرہ پھر لگا۔ اس پر میں نے اپنے افسروں سے کہا کہ تم نے مجھے یہ اطلاع کیوں نہیں دی؟ سب نے انکار کیا اور کہا کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں۔ اس پر میں نے ذاکر حسین سے کہا کہ اب بتاؤ کیا کہتے ہو؟ ایوب خان آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے مجھے اعتماد میں لیے بغیر سہروردی کو کیوں گرفتار کیا ہے؟ میں ہوں‘ میری ذمہ داری ہے‘ آپ مجھے چھ دن کے اندر اندر الزامات کا ثبوت فراہم کریں‘ میں سہروردی پرمقدمہ چلاؤں گا۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں رہا کر دیں‘ وگرنہ میں استعفیٰ دے دوں گا۔ چھ دن کے اندر اندر نہ سہروردی کو رہا کیا گیا‘ نہ الزامات کے ثبوت مجھے فراہم کیے گئے۔ پس میں نے استعفیٰ دے دیا اور گھر چلا آیا۔
س: اس کے بعد ایوب خان سے آپ کی کب ملاقات ہوئی؟
ج: میری ان سے آخری ملاقات ڈھاکہ ہی میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں ان سے نہیں ملا۔ نہ ان کے اقتدار کے دوران‘ نہ اقتدار کے بعد۔
س: مشرقی پاکستان کا سانحہ کیوں پیش آیا؟ اس کے اسباب کیا تھے‘ آپ کی نظر میں؟
ج: وہاں کے لوگوں میں اس قدر تلخی بھر دی گئی کہ خدا کی پناہ۔ یہ کارنامہ یہاں بیٹھ کر انجام دیا گیا۔ آخری دنوں میں مجھے شیخ مجیب الرحمن اور تاج الدین جیسے انتہا پسند تک کا پیغام آیا۔ امریکی سفیر کے ذریعے کہ خداکیلئے آدھ گھنٹے‘ دس منٹ کیلئے آ جاؤ۔ جو تم کہو گے ہم کریں گے۔ ہم علیحدہ نہیں ہونا چاہتے‘ میں نے یحییٰ خان سے ملنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ جنرل عبدالحمید سے بھی نہ مل سکا۔ میں نے چٹھی لکھی‘ کوئی جواب نہ آیا۔ میں وہاں گیا‘ کتاب پر لکھ کر آیا کہ براہ مہربانی مجھے جلد ملاقات کا وقت دو لیکن مجھے بتایا گیا کہ وہ فرنٹ پر گئے ہوئے ہیں۔
س: مشرقی پاکستان کو آخر وقت تک بچایا جا سکتا تھا؟
ج: بالکل‘ میں وہاں پہنچ جاتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ الیکشن کے بعد اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کر دیا جاتا تو بھی حالات سدھر جاتے۔ وہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ دیتے جو آپ ان سے تقاضا کر رہے تھے۔ بھٹو جب آیا تو اس سے میں نے کہا کہ مجھے مجیب سے ملنے دو لیکن انکار کر دیا گیا۔ میں نے بھٹو کو خط لکھا‘ اس نے جواب دیا کہ یہ ہمارا معاملہ ہے‘ ہم اس سے نبٹ رہے ہیں۔
س: ایوب خان سے آپ کے اختلافات کیسے پیدا ہوئے؟ آپ ان کے مخالف کیسے ہو گئے؟
ج: میں ایوب خان کا مخالف کہاں ہوا؟
س: انتخاب میں آپ نے مادرِ ملّت کی حمایت جو کی‘ ایوب کے مقابلے میں؟
ج: میرے پاس پانچ پارٹیاں آئی تھیں‘ وہ مجھے صدارتی امیدوار بنانا چاہتی تھیں لیکن میں نے مادرِ ملّت کا نام پیش کیا۔ خواجہ ناظم الدین‘ چودھری محمد علی‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ محمود علی قصوری اور جماعت اسلامی والوں نے مجھ سے رابطہ کیا لیکن میں نے الیکشن لڑنے سے انکار کیا اور سوچ کر انہیں یہ کہا کہ مادرِ ملّت کو امیدوار بنا لو۔ میرے نزدیک مادرِ ملّت کا انتخاب پاکستان کیلئے بہت ضروری تھا۔ پاکستان جمہوریت کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ یہاں ڈنڈے کی حکومت قائم نہیں کی جا سکتی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے بنگالیوں سے پیار کیا تو انہوں نے اس کا جواب کیسے دیا؟ انہیں بندوق کے بل پر زیر کرنے کی کوشش کی گئی تو طاقت کا زعم رکھنے والے منہ کے بل کیسے گرے‘ خود ذلیل ہوئے اور قوم کو بھی زخم دے گئے۔
جنرل اعظم خان کے الفاظ آج میرے کانوں میں گونج رہے ہیں‘ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سہروردی آج بھی قید میں ہیں‘ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ خدا معلوم ”انہیں‘‘ کب رہائی نصیب ہو گی ؎
کب ٹھہرے گا درد اے دِل‘ کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے‘ سنتے تھے سحر ہو گی

اپنا تبصرہ لکھیں