سیاست ’’بند گلی‘‘ میں

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی ’’سیاست اور شہادت‘‘ ہماری سیاسی تاریخ کا اہم ترین باب ہے۔ محترمہ نے مارشل لا کے خلاف تاریخی مزاحمت بھی کی اور پھر مفاہمت کا راستہ بھی اپنایا یہاں تک کہ بعض معاملات میں کئی غیر مقبول فیصلے بھی کئے مگر وہ تنگ نظر سیاست جو دلی طور پر عورت کی حکمرانی کو قبول نہیں کرتی اُس کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز اپنے والد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اڈیالہ جیل کی ’’کال کوٹھڑی‘‘ میں پھانسی سے چند گھنٹے پہلےملاقات میں 3 اپریل 1979 ء کو کیا اور اُنکی اپنی سیاست کا انجام یا اختتام اپنی ہی شہادت پر 27دسمبر 2007ء کو ہوا۔ باپ سیاست کو بند کمروں سے باہر عوام میں لے کر آیا اور بیٹی ’’بند گلی‘‘ سے باہر لائی مگر تاریخ کے ان دونوں اہم کرداروں کو راستے سے اسلئے بھی ہٹا دیا گیا کہ نہ اِس ملک میں مقبول رہنما کو برداشت کیا جاتا ہے نہ عوامی سیاست کو۔ جس نے بھی سیاست کو ’’بند گلی‘‘ سے باہر لانے کی کوشش کی اُسے ناکام بنا دیا گیا۔ اسی وجہ سے ہمارے ملک میں کبھی انتخابات آزادانہ ہوئے نہ منصفانہ، ایسے میں کوئی بھی ’’سیاسی مذاکرات‘‘ کتنے کامیاب ہوسکتے ہیں اِس کا اندازہ موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی بنائی ہوئی مذاکراتی ٹیم اور اُنکے بعض رہنمائوں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔یہ بھی ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ جب بھی سیاستدان مذاکرات کا آغاز کرتے ہیں کچھ قوتیں اُن کی ناکامی کیلئے سرگرم ہو جاتی ہیں ان میں خود ان جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہوتے ہیں۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانا غلط نہ ہوگا کہ 1971 ء میں اور 1977ء میں وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے مذاکرات کامیاب نہیں ہونے دیئے اور نتیجے میں سیاست ’’بند گلی‘‘ سے باہر ہی نہ آ سکی یہاں تک کے ملک دو لخت ہو گیا یا پھر مارشل لا لگ گیا۔

آج تو ہم ایک ’’ہائبرڈ ماڈل‘‘ کے تحت سیاست کر رہے ہیں اور حکومت، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اُنکے اتحادیوں پر مشتمل ہے، نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے براہ راست نہ سہی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق جو اپنے نرم رویے کی وجہ سے مشہور ہیں کے ذریعہ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔ اس وقت ہمارے درمیان کوئی نوابزادہ نصراللہ خان یا میر غوث بخش بزنجو تو ہے نہیں پھر بھی بہت بہتر ہوتا اگر ان مذاکرات میں حکومت کی جانب سے خواجہ سعد رفیق، قمر زمان کائرہ، خورشید شاہ اور اپوزیشن کی جانب سے فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور شاہ محمود قریشی موجود ہوتے، جن کو جیل سے لایا جا سکتا تھا۔ مذاکرات کی موجودہ ٹیموں میں بھی کچھ سنجیدہ لوگ موجود ہیں مگر ایسے بھی ہیں جو شاید پیشرفت ہونے کی صورت میں معاملات کو خراب کر سکتے ہیں نام لینے کی ضرورت نہیں۔ تصور کریں کہ 1977ء میں دونوں جانب سے مذاکراتی ٹیمیں کن افراد پر مشتمل تھیں۔ ایک طرف خود اُس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور اُس وقت کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی تو دوسری طرف پروفیسر غفور، مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ جیسے سیاسی اکابر۔ حکومتی ٹیم کو کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت نہیں تھی جبکہ اپوزیشن کی مشکل یہ تھی کہ پاکستان قومی اتحاد 9جماعتوں پر مشتمل تھا۔ اس سب کے باوجود وہ مذاکرات کامیاب ہونے لگے تو ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا اور بہانہ یہ بنایا گیا کہ بھٹو صاحب اچانک غیر ملکی دورے پر چلے گئے حالانکہ وہ اسی عرب دنیا کے پرانے خاص طور پر اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے گئے تھے جنہوں نے پس پردہ بات چیت کروائی تھی۔

آج صورت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ایک ’’بی۔ ٹیم‘‘ کر رہی ہے ورنہ اس وقت ہماری سیاست کے تین مرکزی کردار ہیں عمران خان، میاں نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری اور ایک نام کا اگر میں اور اضافہ کر دوں تو وہ ہیں مولانا فضل الرحمان۔ مذاکرات ہوتے ہی ایک مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئےہیں۔ اگر عمران اور نواز شریف ہی اپنی اپنی ’’سیاسی انا‘‘ کو ایک طرف رکھ کر ملک کو ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘ سے باہر لا کر ایک مضبوط جمہوری نظام کی طرف جانے کی کوشش کریں تو شاید معاملات ایک نئے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ مگر موجودہ سیاسی کشیدگی میں یہ ممکن نظر نہیں آتا۔

تو آخر پھر موجودہ بات چیت کی بنیاد کیا ہو سکتی ہے۔ حکمراں اتحاد خاص طور پر مسلم لیگ (ن) 9 مئی کے پیچھے چھپی نظر آتی ہے جبکہ پی ٹی آئی کا مطالبہ 9مئی پر عدالتی کمیشن کاہے۔ حکومت کہتی ہے 26نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے پانچ جوان شہید ہوئے پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے اُن کے 12کارکن شہید ہوئے اور یہاں بھی اُن کا مطالبہ ہے عدالتی کمیشن کا لیکن مذاکرات کا اصل محور 8 فروری 2024ءکے انتخابات ہیں اور ’’مینڈیٹ‘‘ کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اُسکا مینڈیٹ ’’چوری‘‘ ہوا ہے جو اُسے واپس دیا جائے یعنی موجودہ حکومت کا کوئی قانونی جواز نہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اگر بات مینڈیٹ سے ہی شروع کرنی ہے تو پھر ابتدا 2018 ء سے کرنی ہوگی یعنی دونوں سمجھتے ہیں کہ اپنے اپنے وقت میں اُن کا الیکشن چوری ہوا البتہ ’’کس نے کیا‘‘، اس پر بات دبے الفاظ میں یا پھر آف دی ریکارڈ ہی کی جاتی ہے۔

1977ء میں مذاکرات کا آغاز ہوا تو ہڑتال اور احتجاج روک دیا گیا۔ یہاں بھی پی ٹی آئی کو ابھی ’’سول نافرمانی‘‘ کی کال کو جو ایک انتہائی اقدام ہوگا روک دینا چاہئے کیونکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ24نومبر کی ’’فائنل کال‘‘ سے انہیں خود کتنا نقصان ہوا۔ دوسری طرف حکمران اتحاد کو بھی سیاسی رویہ دکھانا ہوگا جس کی ابتدا اُن سیاسی کارکنوں کی رہائی سے ہو سکتی ہے جن پر سنگین الزامات نہیں ہیں، میں نے پہلے بھی لکھا‎ تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کینسر میں مبتلا ہیں اور عمر کے اُس حصے میں ہیں جہاں اُن کی رہائی سے حکومت اور ریاست کی نیک نامی ہی ہو گی جبکہ الله نہ کرےکسی بُری خبر کی صورت میں حکومت یہ داغ کبھی مٹا نہ پائے گی۔

سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ محترمہ بے نظیر کی سیاست میں انقلاب اور جذبات بھی نظر آتے ہیں 1979ءسے 1986ءتک سکھر جیل سے لے کر کراچی سینٹرل جیل تک، کارکنوں کو وال چاکنگ اور پمفلٹ لکھنے کی تربیت سے لے کر جام ساقی کیس میں فوجی عدالت کے روبرو بائیں بازو کی سیاست کے دفاع تک، لاٹھی چارج بھی برداشت کیااور آنسو گیس بھی۔ دوسرا دور 1988ء سے 2006 ءتک بار بار مینڈیٹ چوری ہوا پھر بات چوری کرنے والوں سے بھی کی اور چوری کرانے والوں سے بھی۔ محترمہ کی شہادت کے بعد سیاست ایک بار پھر ’’بند گلی‘‘ میں چلی گئی ہے اور اب اسے باہر لانا اس لئے بھی زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ دونوں فریق اپنی اپنی سیاسی اسپیس کھو چکے ہیں اور ایک ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کو قبول کر چکے ہیں۔ کیا ملک کے روشن خیال اور جمہوری سوچ رکھنے والے سیاست کا اعتبار واپس لا سکیں گے ۔ اس کی ابتدا دونوں بڑے فریقوں کو اپنی اپنی جماعتوں میں ’’زبان بندی‘‘ سے کرنا ہو گی چاہے بات چیت ابتدائی طور پر زیادہ آگے نہ بڑھ سکے۔ رہ گئی بات تیسری قوت کی تو سیاست میں انٹری، اور حکومتیں بنانے، جماعتیں بنانے اور توڑنے میں ان کی پالیسیوں نے قومی وحدت کو ہی مشکل میں لاکھڑا کیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں