شنید ہے کہ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مشرقِ وسطیٰ کے ناسازگار حالات کے پیشِ نظر امریکہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ چاہتا ہے‘ جو حکومت اور اپوزیشن کے مابین کامیاب مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔تاہم زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی مقتدرہ اور پی ٹی آئی کے مابین محاذ آرائی میں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔یوں لگتا ہے کہ یہ جماعتیں مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان جاری محاذآرائی کا خاتمہ نہیں چاہتیں‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی حکمرانی پر کوئی آنچ نہ آئے اور وہ وفاق اور صوبوں میں حکومت کرتی رہیں۔ دوسری جانب مقتدرہ حکومت کی گورننس سے بھی مطمئن نظر نہیں آتی۔اپریل 2022ء میں بننے والی اتحادی حکومت کے حوالے سے بھی مقتدر حلقوں کی رائے یہی تھی۔ موجودہ حالات میں نظر آ رہا ہے کہ مقتدر ہ اُس وقت تک ہی حکومت کو سہارا دے گی جب تک خان کا خطرہ منڈلا رہا ہے‘ اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے یہ خطرہ ٹل گیا تو حکومت فارغ بھی کی جا سکتی ہے ۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ ان مذاکرات کو کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔
اس سیاسی محاذ آرائی کے درمیان ایک اخبار نے دعویٰ کیا کہ ایک اعلیٰ سطحی حکومتی ٹیم بیک ڈور چینل کے ذریعے عمران خان اور ان کے دستِ راست سے ملاقات کر رہی ہے۔ مذکورہ اخبار کے مطابق خود میاں نواز شریف بھی عمران خان سے ملاقات کر سکتے ہیں جس کے بعد عمران خان کو بنی گالہ یا پشاور منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ یہ دعوے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب عمران خان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں اور شنید ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کوآئندہ ماہ سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اگر عمران خان کو جی ایچ کیو حملہ کیس میں فردِ جرم عائد ہو جانے کے بعد سزا بھی سنائی جاتی ہے یا القادر ٹرسٹ کیس میں سزا ہو تی ہے تو مذاکرات کی کوششیں بے سود جائیں گی اور مفاہمت کا دروازہ پھر سے بند ہو جائے گا۔ان حالات میں صدر آصف علی زرداری کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ وہ مفاہمت کرانے کے ماہر مانے جاتے ہیں‘ لیکن حالیہ کچھ عرصے کے دوران اُن کی طرف سے اختیار کی گئی خاموشی سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں بھی وہ دم خم باقی نہیں رہا کہ حالات پر قابو پا سکیں۔
ادھر سپیکر قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے دروازے کھول دیے ہیں۔پیر کے روز سردار ایاز صادق کی سربراہی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا پہلا راؤنڈ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ مذاکرات میں حکومتی اتحاد کی جانب سے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار‘سینیٹر عرفان صدیقی‘ رانا ثنا اللہ‘سید نوید قمر‘ راجا پرویز اشرف اور فاروق ستار شامل ہوئے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے اسد قیصر‘ حامد رضا اور علامہ راجہ ناصر عباس مذاکراتی کمیٹی کا حصہ تھے۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان کے مطابق اپوزیشن کی کمیٹی نے اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔ البتہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ آئندہ اجلاس میں اپوزیشن کمیٹی تحریری شکل میں اپنے مطالبات اور شرائط پیش کرے گی جن کی روشنی میں بات چیت جاری رہے گی۔بادی النظر میں تحریک انصاف مذاکرات آگے بڑھانے کیلئے اُسی فارمولے پر عمل کرے گی جو مئی 1977ء میں قومی اتحاد نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کیلئے پیش کیا تھا۔ ان مذاکرات میں قومی اتحاد نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ سات مارچ 1977ء کے انتخابات دھاندلی زدہ ہیں لہٰذا ملک میں از سر نو انتخابات کرائے جائیں۔ طویل مذاکرات کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نئے انتخابات کرانے پر آمادہ ہوگئے تھے اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سجاد احمد خان کے مستعفی ہونے کے بعد قومی اتحاد کی خواہش پر دراب پٹیل کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ اس معاہدے پر عملدرآمد ہوتا وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سات روزہ دورے پر روس روانہ ہو گئے اور یہ معاملہ وہیں رُک گیا‘ اور پھر پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے حکومت کی بساط لپیٹ دی اور گیارہ سال انتخابات کے بغیر گزر گئے۔
اب اگر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں مذاکرات آگے بڑھتے ہیں تو پی ٹی آئی 26ویں آئینی ترمیم کی واپسی اور دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن کو مدعا بنانے کے بجائے نئے انتخابات کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ اب دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ دوسرے فریق کی جانب سے اب پوری تیاری کر لی گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے پاس ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ دوسری جانب حکومتی حلقوں کی طرف سے تاثردیا جا رہا ہے کہ مذاکرات اُسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں اور پی ٹی آئی کو تبھی ریلیف مل سکتا ہے جب وہ حکومت گرانے کی کوششوں سے پیچھے ہٹ جائے ۔
مذاکرات کی ان کوششوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف درج مقدمات میں انہیں سزائیں سنانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔فوجی عدالت کی طرف سے پہلے مرحلے میں نو مئی کے 25 ملزمان کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ سزائیں تمام شواہد کی جانچ پڑتال اور مناسب قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد سنائی گئی ہیں۔ سزا پانے والے ملزمان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے ہیں۔سیاسی پروپیگنڈا اور جھوٹ کا شکار بننے والے سیاسی کارکنان کیلئے یہ سزائیں ایک وارننگ کی حیثیت رکھتی ہیں کہ مستقبل میں کسی سیاسی جماعت یا رہنما کے کہنے پر قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا۔ صحیح معنوں میں مکمل انصاف اس وقت ہوگا جب نومئی کے اصل ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین قانون کے مطابق سزا ملے گی۔ قانون کے مطابق سزا پانے والے مجرموں کے پاس اپیل اور دیگر قانونی جارہ جوئی کا حق ہے۔نو مئی کے 25 مجرموں کو سزائیں سنانے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات زیادہ تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں کیونکہ ان 25 افراد کو سزا ہونے کے بعد تحریک انصاف کے سنجیدہ رہنمائوں کو احساس ہوچکا ہے کہ وہ مزاحمت کے بیانیے کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ان حالات کے پیشِ نظر دونوں فریق کسی متفقہ فارمولے پر راضی ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں فریق موجودہ وفاقی کابینہ میں سے ہی کسی ایک وفاقی وزیر کی سربراہی میں ایک ایسی حکومت تشکیل دینے پر راضی ہو جائیں جو ایک طے شدہ مدت کے لیے ملک میں عبوری طور پر کام کرے۔یہ عبوری حکومت اپنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہو سکتی ہے۔
مذاکرات سے ہٹ کر اگر ملک کے معاشی منظر نامے کی بات کی جائے توحکومت اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی خصوصی کوششوں سے ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آرہی ہے جس کا اندازہ علاقائی اور عالمی مالیاتی اداروں کی مالی سال 2025ء کے لیے پاکستان کی معاشی ترقی کی پیش گوئیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔عالمی بینک کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2.3 فیصد سے بڑھ کر 2.8 فیصد ہو جائے گی جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے رواں مالی سال کے اختتام تک معاشی شرح نمو تین فیصد تک پہنچنے کی پیش گوئی کی ہے۔رواں سال کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری‘ ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو جاتا ہے تو پاکستان معاشی لحاظ سے مزید مستحکم ہو سکتا ہے۔