سیاسی پیشہ ور

کتابوں میں لکھا ہے سیاست خدمت ہے۔ سیاستدان کہتے ہیں ہم خدمت گزار ہیں، خادم ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ پیشہ ور ہیں۔ کتابی حکایتوں، سیاست دانوں کی باتوں اور لوگوں کی شکایتوں میں کتنی حقیقت ہے، آئیے تجزیہ کرلیتے ہیں۔ سیاست اگر خدمت ہے تو عہدہ یا عہدے کیلئےمارے مارے پھرنا لازمی نہیں، اپنی دھن میں آگے بڑھتے رہنا ضروری ہے جبکہ کوئی فرد کسی پیشے سے وابستہ ہو اور وہ پیشہ اس فرد کے لیے فائدے مند ہوتو اُس کی فطری خواہش ہوگی کہ اُس کی اولاد بھی اسی پیشے سے تعلق رکھے تاکہ نسل درنسل زیادہ منافع بخش زندگی گزاری جاسکے۔ ہمارے ہاں سیاست خدمت اور جھوٹ سے ہوتی ہوئی ایک پیشہ بن چکی ہے جس کی گواہی انہی سیاست دانوں کی اولادیں دیتی ہیں۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں کی اولادوں میں سے جنرل ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب اور جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق عملی سیاست میں ہیں۔ سیاست میں ان کا وجود ایک چھوٹے جزیرے کی مانند ہے جس کا زیادہ پھیلائو نہیں۔ ان کے سیاست میں آنے کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ بعد میں آنے والے سیاست دانوں سے ان مارشل لائی خاندانوں کو کسی حد تک تحفظ دلوانے کیلئے سیاست میں جھونکا گیا۔ بینظیر بھٹو بڑے سول حکمرانوں کی اولادوں میں سے پہلی اولاد تھیں جس نے اپنی آبائی سیاست کو آگے بڑھایا کیونکہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں اُس وقت تک سب سے زیادہ سٹریٹ پاور حاصل کرنے والے پہلے سول لیڈر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی یہ سٹریٹ پاور کسی خزانے سے کم نہیں تھی اور اپنے باپ کی دولت پر پہلا حق اولاد کا ہی ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جیسے ہٹایا گیا اور پھانسی چڑھایا گیا اِس سے اُن کے چاہنے والوں اور اہل خانہ میں انتقام کا مادہ موجود تھا۔ اپنے والد کے خون کا بدلہ لینے کا فرض سب سے پہلے اولاد کے ذمے ہوتا ہے۔ سیاست میں انتقام کی قابل قبول شکل دشمن کو انتخابی شکست دینا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کال کوٹھری میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے بہت آگے کچھ دیکھ رہے تھے جہاں انہیں جمہوریت نظر آرہی تھی۔مستقبل میں اُس سیاسی انتقام کو لینے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے بینظیر بھٹو کو منتخب کیا اور کسی حد تک تربیت کی۔ اس طرح بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے پیشے کو ہی اختیار کیا۔ بینظیربھٹو کی موت کے بعد پیشہ ورانہ سیاست حادثاتی طور پر پھر سامنے آگئی۔ وہ اس لیے کہ بینظیر بھٹو سیاست میں سٹریٹ پاور جیسی جائیداد رکھنے والی اُس وقت سب سے بڑی لیڈر تھیں۔ اُن کے بعد ہرقسم کی جائیداد پر پہلا حق ان کے گھر والوں کا تھا۔ اپنے حق سے دستبردار ہوکر جائیداد غیروں کے ہاتھ میں کوئی کیسے جانے دیتا ہے۔ چونکہ بینظیر بھٹو کے بچے ابھی چھوٹے تھے اس لئے اُن کے شوہر آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کی سٹریٹ پاور پراپرٹی کو اکٹھا کیا۔ مقبول ترین لیڈر کی حادثاتی موت کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ووٹروں اور جذباتی ووٹروں کا ووٹ پیپلز پارٹی کو ہی پڑنا تھا۔ ووٹ کے خزانے کا وارث بینظیر بھٹو کے خاندان کو ہی ہونا تھا جس کے سربراہ آصف علی زرداری تھے۔ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی کیپٹن شپ لینے کے بعد یہ ثابت کیا کہ وہ پاکستانی مزاج کی سیاست میں ہرلحاظ سے فِٹ ہیں۔ لہٰذا ذوالفقار علی بھٹو کا خاندان حادثاتی وجوہات کی بناء پر سیاست کو پیشے کے طور پر ہی لیتا آیا جس میں بغیر عہدے کے خدمت کی بجائے اہلِ خانہ اور نئی نسل کو عہدہ جیتنے کے دائو پیچ باقاعدہ سکھائے جاتے رہے۔ اب یہ روایت حادثاتی فریم سے نکل کر باقاعدہ ٹریننگ کورسز کی شکل اختیار کرتی نظر آتی ہے کیونکہ مشاق سیاسی ٹیوٹر بلاول بھٹو کو سیاسی ٹیکنالوجی کی ٹیوشن پڑھا رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو پارٹی کا شریک چیئرمین رکھا اور بینظیر بھٹو کی بڑی اولاد بلاول بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین بنایا۔ بینظیر بھٹو کی موت کے وقت آصف علی زرداری کو معلوم تھا کہ بلاول بھٹو ابھی چھوٹے تھے، زیرتعلیم تھے اور عملی سیاست سے بخوبی آگاہ بھی نہیںتھے اس لیے آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو کو نمائشی چیئرمین بنایا اور خود کو شریک چیئرمین بناکر بینظیر بھٹو کی مقبولیت والی جائیداد کے تمام فوائد حاصل کئے جبکہ مستقبل میں بھی اس جائیداد سے فائدہ اٹھانے کیلئےبلاول بھٹو کو رکھ چھوڑا۔ اب بلاول بھٹو مکمل طور پر عملی سیاست میں آچکے ہیں اور لمبی اڑان کیلئےپرتول رہے ہیں۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کی ایک اور دوراندیشی کو پڑھئے۔ انہیں معلوم ہے کہ پنجاب میں بینظیر بھٹو کے لیے ہمدردیاں ہونے کی ایک وجہ خاتون ہونا بھی تھا۔ پنجاب کا یہ مزاج بھانپتے ہوئے انہوں نے اپنی بیٹی آصفہ کو پنجاب میں مستقبل کی سیاسی لیڈر کے طور پر متعارف کرانے کا ارادہ کیا ہے۔ اِس سے پنجاب کے ناقابلِ شکست سیاسی مرد بھی شکست کھا سکتے ہیں اور بینظیر بھٹو کی ایک اور اولاد پنجاب میں اُن کی سیاسی جائیداد کی مالک بھی بن جائے گی جبکہ بلاول بھٹو سندھ میں زیادہ موثر ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ سندھ کے وڈیرے ایک لڑکی کی بجائے ایک نوجوان مرد کو زیادہ قبول کریں گے۔ اس طرح بھٹو خاندان کا آبائی پیشہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا۔ سیاست کو پیشہ بنانے میں اور جماعتوں نے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مثلاً مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کئی برس سے پنجاب کی سیاست میں موجود ہیں۔ اب اُن کے دوسرے بھائی سلیمان شہباز بھی سیاست میں تازہ تازہ نظر آنے لگے ہیں۔ پنجاب میں خاتون کے لیے ہمدردی کا ووٹ خود حاصل کرنے کیلئےنواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست کے میدان میں اتار دیا جو شائد آصفہ بھٹو کیلئے ایک توڑ کا کام بھی کریں۔ اسی طرح جاوید ہاشمی کی بیٹی میمونہ ہاشمی، خواجہ رفیق کے بیٹے خواجہ سعد رفیق، آپا نثار فاطمہ کے صاحبزادے احسن اقبال، یوسف رضا گیلانی کی بیٹی فضا گیلانی، بیٹے موسیٰ اور قادر گیلانی، مخدوم سجاد قریشی کے بیٹے شاہ محمود قریشی، چوہدری ظہور الہٰی کے خاندان میں چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی پنجاب کے بڑے پیشہ ورانہ سیاست دانوں میں سے چند نام ہیں۔ اے این پی میں ولی خان کے بیٹے اسفند یار ولی خان سمیت خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بیشمار سیاسی خاندان ایسے ہیں جو سیاست کو ایک پیشے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں اور اس کاروبار سے وہ نسل درنسل جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا ہی رہا تو پاکستان کے عام فرد کی باری شاید کبھی نہیں آئے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں