اللّٰہ بخشے مولانا شاہ احمد نورانی آج بہت یاد آئے۔ شام کے دارالحکومت میں خانہ جنگی کی دستک کی خبریں سنیں تو مولانا نورانی کا قول دماغ میں گونجنے لگا کہ’’ جس ملک میں فوج اور عوام میں تصادم ہو جائے وہ ملک قائم نہیں رہتے۔‘‘ مولانا نورانی اپنی تمام زندگی فوج کی سیاست میں مداخلت کے سخت مخالف رہے ،مقتدرہ نے ان کی جماعت کوتوڑ دیا، سارے سرکردہ رہنما پارٹی چھوڑ گئے، مولانا نورانی نہ کبھی کسی غیر منتخب حکومت میں شامل ہوئے، نہ کبھی کوئی سرکاری عہدہ لیا۔ جنرل ضیاء الحق کے نام نہاد امریکی جہاد کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے، ایم کیو ایم کی فسطائیت کا بھی مشکل ترین دور میں مقابلہ کیا، نہ ایجنسیوں سے کبھی پیسے لئے اور نہ کبھی زندگی بھر بکے۔ اصولوں کی سیاست کی اور بغیر کرپشن کے کسی الزام کے دنیا سے باعزت رخصت ہوئے، عبداللہ شاہ غازی کے پڑوس میںلحد کی جگہ ملی اور آج بھی وہیں محو استراحت ہیں۔
مولانا نورانی کہا کرتے تھے لیبیا، عراق اور شام میں خانہ جنگی ہوئی ،عوام اور فوج آمنےسامنے آگئے تو کچھ باقی نہیں رہے گا، ہم اپنی آنکھوں سے یہ ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ان سب اسلامی ممالک میں آمریت تھی فوج کی مدد سے حکومت چلائی جا رہی تھی۔ لبنان، غزہ اور اب شام کے واقعات کے بعد وطن عزیز کی سلامتی کے بارے میں تفکرات پیدا ہونا لازمی امر ہے ۔اگر لیبیا، عراق اور شام کا قصور اسلامی ملک ہونا ہے تو وہ تو پاکستان بھی ہے، اگر ان کا قصور امریکہ اور اسرائیل مخالف ہونا ہے تو وہ تو ہم بھی ہیں، اگر ان کا قصور مغربی دنیا کے خلاف شدت پسندی کا رجحان ہے تو وہ تو ہم میں بھی ہے، اگر لیبیا پر ایک مسافر بردار طیارے کی تباہی کا الزام تھا تو ہم پر بھی بالواسطہ ہی سہی نائن الیون کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں، اگر شام اور صدام کے عراق پر فلسطینیوں ، حزب اللہ اور حماس کی مدد کا الزام لگایا جاتا ہے توان سے ہمدردی تو ہم بھی پوری رکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے پاس مسلم دنیا کی مضبوط ترین فوج ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان ایٹم بم بھی رکھتا ہے۔ ایسے میں مولانا نورانی کے خدشے کو پیش نظر رکھیں تو پاکستان آگ کے ایک ڈھیر پر بیٹھا ہے اور اس کے عدم استحکام کا راستہ فوج اور عوام کے آمنے سامنے آنے سے ہی ممکن بن سکتا ہے۔
مسلم دنیا میں زوال پذیر ہدف ممالک کے پاکستان سے مشترکات کا ذکر تو ہوا، اب ہمارے حق میں کیا ہے اس کا ذکر بھی ہو جائے۔ پاکستان کی فوج، لیبیا، شام یا عراق کی طرح غیر منظم نہیں بلکہ ڈسپلنڈ ہے، ایٹمی ہتھیار خوف ناک ترین اثاثہ ہیں لیکن عالمی ادارے مطمئن ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ترین ہاتھوں میں ہیں اور ان کی حفاظت اور احتیاط کا معیار بین الاقوامی سطح کا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کئی فوجی اور خود سر آمر بھی برسراقتدار آئے مگرسول اور فوجی دونوں حکومتوں نے کبھی اقوام متحدہ کے چارٹر یا اس کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں کی۔جھوٹ یا سچ، ہم نے ایک پارلیمان اور منتخب حکومت کا حفاظتی غلاف اپنی ریاست پر چڑھا رکھا ہے جس دن ننگی فوجی یا سول آمریت آگئی اس دن پاکستان کا ایٹمی پروگرام فوراً ہدف بن جائے گا۔
دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے جو قومیں سبق سیکھتی ہیں وہی کامیاب ہوتی ہیں۔ اگر لیبیا، عراق اور شام کے عوام حکمران اور فوج متحد ہوتے تو شایدآج ان کا یہ حشر نہ ہوتا۔ پاکستان کو بھی اپنی فالٹ لائنز کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔ خان صاحب کو عالمی مسائل کا شاید اتنا ادراک نہ ہو، ان کو مسلم دنیا کی نازک صورتحال بتانی چاہئے اور سول نافرمانی یا اس طرح کے انتہا پسندانہ اقدامات سے پرہیز کرنے پر قائل کرنا چاہیے۔ دوسری طرف مقتدرہ اور حکومت کوبھی مذاکرات میں نہ صرف پہل کرنی چاہیے بلکہ اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر جیلوں میں بند رہنمائوں کو ریلیف دینا شروع کر دینا چاہیے۔ خان صاحب پاکستان کے بحران کو سمجھتے ہوئے فی الحال مکمل طاقت کی خواہش چھوڑ دیں اور مقتدرہ بھی مرزےجٹ کی طرح گلیوں میں اکیلا پھرنے کی کوشش ترک کردے۔ مصالحت، مفاہمت، لچک، ایک دوسرے کو تسلیم کرنے اور عزت دینے سے دنیا کے مشکل ترین مسائل حل ہو گئے ہیں یہاں تو اقتدار اور طاقت کا چھوٹا سا مسئلہ ہے جو لچک دکھانے سے فوراً حل ہو سکتا ہے۔
غزہ، لبنان، عراق اور شام میں پیش آنے والے واقعات پاکستان کیلئے ایک وارننگ ہیں۔ روس کی طاقت اور ایران کی مدد کے باوجود شام کی حکومت کو غیر منظم باغیوں کے ہاتھوں شکست و ریخت کا سامنا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آج بھی ایک ہی سپر پاور ہے، دوسرا صد ر ٹرمپ کے آنے کے بعد شاید یہ ڈیل طے ہو گئی ہے کہ امریکہ یوکرائن کی حمایت بند کر دے گا اور اسے روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا اور جواباً روس، امریکہ کو مڈل ایسٹ میں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرے گا۔
پاکستان کو اپنے تحفظ اور بچائو کیلئے جہاں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں وہاں بلوچستان کے مسئلے پر بڑھتے ہوئے نقصانات اور خیبر پختونخوا میں جوانوں کی آئے روز شہادتوں کو دیکھتے ہوئے ان اہم ترین ایشوز پر سیاسی، عسکری اور عوامی مشاورت کرکے کسی حل تک پہنچنا چاہیے گومگو اور چونکہ چنانچہ بہت ہو چکی، وقت نازک، معاملہ سنگین اور خطرناک ہے اس لئے ایمرجنسی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
آخر میں عرض ہے کہ فوج کا سیاست سے نہ تعلق ہونا چاہیے نہ اسے آئین کے تحت سیاست میں مداخلت کرنی چاہئے مگر عوام کو فوج کے سامنے کھڑا کرنے سے جیسے مولانا نورانی نے تنبیہاً منع کیا تھااس پرآج بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج جمہوریت کو بگاڑتی رہی ہے لیکن فوج کے بغیر جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی، جب فوج کے بغیر ریاست نہیں ہوتی تو جمہوریت کیسے ہو سکتی ہے۔ امن و امان نہ ہو تو جمہوریت قائم ہی نہیں ہو سکتی، انتشار تو جمہوریت کا دشمن ہے، انتشار کو ختم کرنے اور امن و امان بحال کرانے کیلئے فوج لازم ہے مگر آئینی حدود کے اندر…!