جزائر غرب الہند (ویسٹ انڈیز) کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچ چکی، یہ ٹیم 19سال کے بعد دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے آئی جو 17جنوری سے ملتان سٹیڈیم میں ہوں گے کہ کراچی اور لاہور کے دونوں سٹیڈیم چیمپئنز ٹرافی کی تیاری کے حوالے سے تعمیرنو کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور کرکٹ بورڈ کی منشاء ہے کہ راولپنڈی سٹیڈیم کی تعمیرنو کرلی جائے۔ یوں اب وقت تھوڑا اور مقابلہ سخت والی بات ہوگی کہ 19فروری سے چیمپئنز ٹرافی کا بھی انعقاد ہوگا جس کے بعد مزید سرگرمیاں بھی ہوں گی اور پی ایس ایل کا شو سجے گا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھی جنوبی افریقہ کا ٹور مکمل کرکے وطن واپس آ چکی۔ واپسی بذریعہ دبئی ہوئی، یہاں اسے ویسٹ انڈیز کے خلاف نبرد آزما ہونا ہے، شاہینوں کا دورہ زمبابوے اور جنوبی افریقہ کامیابیوں اور ناکامیوں کی ملی جلی کیفیت کا حامل رہا، جبکہ اسی دورے کے دوران کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی ملی جلی نظر آئی، کہیں ناکام اور کہیں کامیاب ٹھہرے، خصوصی طور پر جنوبی افریقہ کے اس دورے میں کئی خامیاں سامنے آئی ہیں، جن کی طرف اب انتظامیہ کو توجہ دینا ہوگی جنوبی افریقہ میں کرکٹ ٹیم کارکردگی کے حوالے سے بہتربھی رہی کہ ایک روزہ میچوں کی سیریز 3-0 سے جیت کر وائٹ واش کیا، لیکن ٹیسٹ میں بری طرح پٹ گئے کہ پہلے میچ میں جیت کے قریب پہنچ کر دو وکٹوں سے ہار گئے اور دوسرا میچ تو یوں بڑے فرق والا بن گیا جو بلے بازوں کی بھینٹ چڑھا اور دس وکٹوں سے ہار گیا، جہاں تک پہلے ٹیسٹ میچ کا تعلق ہے تو میرے خیال میں ٹیم مینجمنٹ کی بہت بڑی غلطی ہے کہ جنوبی افریقہ کے لئے سپیشلسٹ سپنر کی خدمات حاصل نہ کیں، پہلے ٹیسٹ میں بہت کمی محسوس کی گئی اور ایسا ہی دوسرے میں بھی ہوا، اس کے علاوہ کپتان شان نے بھی دونوں کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ نہیں کیا اور آخری دو وکٹوں کے حوالے سے حکمت عملی بھی تبدیل نہیں کی، ورنہ شان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ آخری بلے بازوں کو آؤٹ کرنے کے لئے آخری اووروں میں باؤلر تبدیل کرکرکے وکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے، دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں بلے باز ناکام ہوئے تو باؤلر بھی جوہر نہ دکھا سکے۔ 641جیسے سکور نے ہوش بھلا دیئے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ میچ ایسا تھا جس میں اچھا سپنر اور شاہین آفریدی کو ہونا چاہیے تھا، مگر وہ تو ایک روزہ سیریز کے بعد واپس آ گئے تھے، شاہین آفریدی کی ضرورت یوں بھی اجاگر ہوئی کہ ٹیم مینجمنٹ نے نسیم شاہ کو ڈراپ کرکے میر حمزہ کو لیا، اس نوجوان میں ٹیلنٹ تو ہے تجربہ نہیں، لیکن یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم میں لیفٹ آرم فاسٹ باؤلر کی ضرورت تھی لیکن اسے ون ڈے سیریز کے بعد واپس بھیج دیا گیا تھا، اگرچہ دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں بہٹرز نے محنت کی اور چار سو سے زائد سکور کرکے فالوآن کے باوجود بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تاہم افسوس یہ ہے کہ عبداللہ شفیق کی قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور اب اسے تو بہرحال آرام کرنا ہوگا۔ اب تو بورڈ کے حلقوں میں سوچا جا رہا ہے کہ عبداللہ شفیق کونہ لیاجائے،اس صورت میں پھر سے شان اور بابر اعظم ہی کو اوپننگ کے فرائض انجام دینا ہوں گے۔
صائم ایوب کی کارکردگی ایسی رہی کہ اسے غیر ملکی سینئر کھلاڑیوں نے بھی مستقبل کا اچھا کھلاڑی قرار دیا، بدقسمتی سے چوٹ لگ جانے کی وجہ سے کھیل سے باہر ہو گیا اور نئے قواعد کے مطابق اسے رنرز کے ساتھ وکٹ پر کھڑا بھی نہیں کیا جا سکتا۔ صائم ایوب خوش قسمت ہے کہ بورڈ چیئرمین نے اس کے حوالے سے اچھا فیصلہ کیا اور اسے جنوبی افریقہ ہی سے علاج کے لئے برطانیہ بھجوا دیا، جہاں اس کے ٹیسٹ اور ایکس رے وغیرہ مکمل ہو چکے، نتائج کی روشنی میں ہی معلوم ہو سکے گا کہ صائم ایوب کو مکمل طور پر فٹ ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ دعا ہے کہ وہ جلد کھیلنے کے قابل ہو، چیئرمین بورڈ نے اچھا فیصلہ کیا کہ لندن بھجوایا، ویسے ابتدائی طبی جانچ پڑتال سے معلوم ہو چکا کہ فریکچر نہیں ہوا، پنجابی زبان کے مطابق گِٹا مروڑیا گئیا اے“ اور یہ جو ہمارے پہلوانوں کے جراح ٹھیک کرلیتے ہیں اسے تو لندن کے سپورٹس آرتھو پیڈک سرجنز کی تحویل میں دے دیا گیا، دعا ہے کہ جلدمکمل فٹ ہو اور اپنی پریکٹس شروع کرے۔
اب سامنے جو منزل ہے وہ چیمپئن ٹرافی کی ہے جو لاہور اور دبئی میں کھیلی جانی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا اپنے موقف پر قائم رہنا بڑی بات ہے تاہم بھارتی ٹیم اور مینجمنٹ بھی مطمئن ہے کہ حکومتی فیصلے کے مطابق پاکستان نہیں آئی اور پاکستان کو ہائی برڈ فارمولا کے مطابق ہی ٹرافی کا انعقاد کرنا پڑا۔ کھیل کے میدانوں میں سیاست کا دخل اس حد تک لانا یہ مودی حکومت ہی کا کارنامہ ہے۔ وہ تو نہ صرف اپنی ٹیم نہیں بھیجتے بلکہ زائرین کی آمد و رفت میں بھی روڑے اٹکاتے ہیں حالانکہ پاکستان فراخدلی سے بھارتی زائرین کی پذیرائی کرتا ہے۔ سکھ حضرات کے لئے مذہبی تقریبات میں شرکت پر کوئی پابندی نہیں، پاکستان کی طرف سے ویزے جاری کئے جاتے ہیں حتیٰ کہ ہندو زائرین کے لئے بھی کوئی روک ٹوک نہیں، حال ہی میں 84ہندوؤں کا پاکستان آنا ہوا اور وہ ان دنوں سندھ کے مختلف مقامات پر اپنی پوجا کرنے گئے ہوئے ہیں، ان یاتریوں کے لئے بھی پابندی کا مسئلہ نہیں تھا، یہ 84افراد ہیں تو اپنی مرضی سے آئے ہیں، وگرنہ ویزے تو اور بھی جاری ہو سکتے تھے، پوری دنیا کہتی ہے کہ کھیلوں میں سیاست کا دخل نہیں ہونا چاہیے لیکن بھارت کی مودی حکومت بہت ہی تنگ نظر ہے۔اس کا اندازہ لگا لیں کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے سالانہ عرس کے لئے صرف 150پاکستانیوں کو ویزے دیئے ہیں۔ سرکاری کوٹہ اگرچہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
کھیلوں کی دنیا میں بھارت کے اس رویے کو اسی نظر سے دیکھاجا رہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے بہت پست ذہنیت کا مظاہرہ کرتاہے۔ اب تو وفود سے تبادلے بھی بند کر دیئے گئے ہیں، ویزے ہی جاری نہیں کئے جاتے۔ توقع ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ٹیم سلیکشن کے حوالے سے میرٹ اور کھلاڑیوں کی صلاحیت کو مدنظر رکھے گا، پرچی کے نظام کو رد کر دے گا کہ ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔