شہرت ایک دو دھاری تلوار ہے، ایک طرف تو یہ عطیہ خداوندی ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے دوسری طرف یہ ایسا نشہ ہے کہ اگر چڑھ جائے تو اس کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ وہ شخص جسے بے انتہا شہرت مل جائے وہ خود کو درست اور اپنے مخالفوں کو غلط سمجھتا ہی نہیں اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کی شہرت کی اصل وجہ اس کا درست ہونا ہے اور یوں اس کا ایمان بن جاتا ہے کہ اس کے مخالف لازمی طور پر غلط ہیں۔ دراصل فہم کے اندر یہی تبدیلی وہ نشہ ہے جس کا شکار بڑے بڑے مشہور لوگ ہو جاتے ہیں حالانکہ شہرت کو اگر سنبھال کر چلا جائے تو مرجع خلائق یعنی عوام کا پسندیدہ، خدا کابھی پسندیدہ ہوتا ہے،لیکن شہرت کا نشہ دماغ کو ایسا چڑھتا ہے کہ غلطیوں پر غلطیاں کرواتا ہے اور بالآخر یہی غلطیاں اس مشہور ترین شخص کو لےڈوبتی ہیں۔
آج جو لوگ شہرت کے بگٹٹ گھوڑےپر سوار ہیں انہیں اپنے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ 1930ء اور 1940ءکی درمیانی دہائی میں ہندوستان میں بالعموم اور پنجاب میںبالخصوص خاکسار تحریک کو عروج حاصل تھا خاکی کپڑے پہنے ، بیلچے اٹھائے مسلمان ہر شہر اور ہر گائوں میں چپ راست کرتے ہوئے پریڈ کرتے تھے۔ خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی (1888ء تا 1963ء) بہت بڑے ریاضی دان تھے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ ڈگری لی اور ہندوستان واپس آ کر مسلم نشاۃ ثانیہ کا مقدس مشن شروع کردیا ۔وہ بہت مقبول تھے سارے مسلمان ان کو ہیرو جانتے تھے انہوں نے تذکرہ نامی کتاب لکھی تو نوبل پرائز کیلئے نامزد ہوگئے غرضیکہ ان کی ذہانت، انکی شہرت اور انکی دن رات محنت میں کسی کو کلام نہ تھا، لاکھوں لوگ ان کے اجتماعات میں شامل ہوتے، ڈسپلن اتنا تھا کہ لیٹ آنے پر علامہ کو بھی کوڑوں کی سزا مل جاتی تھی۔ سب ٹھیک جا رہا تھا کہ انہوں نے 19 مارچ 1940ء کو لاہور میں برطانوی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا، اس غلط فیصلے کے نتیجے میں 32 لوگ خون میں نہا گئے کچھ لوگوںکے نزدیک یہ تعداد سینکڑوںمیں تھی علامہ مشرقی گرفتار ہوگئے۔ بظاہر اس واقعے سے خاکسار تحریک کو اور مضبوط ہونا چاہیے تھا، شہرت میں مزید اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر ہوا اس کے بالکل اُلٹ ، اوریہی واقعہ خاکسار تحریک کے زوال کا نقطہ آغاز بن گیا ۔ اس واقعے کے صرف 3 دن بعد قائد اعظم لاہور آئے خاکسار تحریک کے زخمیوں کی عیادت کی اور پھر منٹو پارک میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائے بغیر ہزاروں افراد کا پرامن اجتماع کیا، قرارداد پاکستان منظور کی اور یوں پاکستان کی بنیاد پڑی۔ مارچ 1940ءکے اسی ایک ہفتے میں تشدد کے ایک واقعے نے خاکسار تحریک کو زوال آشنا کر دیا اور اسی ہفتےکے ایک پرامن اجتماع نے پنجاب میں مسلم لیگ اور جناح کی مقبولیت کی بنیاد رکھ دی۔
فاعتبرو یا اولی الاابصار(آنکھ والو، عبرت حاصل کرو) کے مصداق ضروری نہیںکہ خون بہنے سےانقلاب آئے۔ اقتدار کے شہر کوفہ میں آج کل چائے کی پیالی میں طوفان لانے والوں کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے احتجاج میں مظاہرین کا خون بہہ گیا تو ملک میں انقلاب آ جائےگا ،عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور یوں حکومت ٹھہر نہیں سکے گی۔ مگر بعض اوقات خون بہنے کا الٹ نتیجہ 1940ء کی خاکسار تحریک والا ہوتاہے۔ اسی طرح1919ء میں جلیانوالہ باغ میں سینکڑوں لوگ اندھی گولیوں کا نشانہ بنے (جدید تحقیق کے مطابق ان کی تعداد دو سو سے زائد تھی) یہ برطانوی حکومت کا انتہائی ظالمانہ اقدام تھااور اس سے جو خوف پیداہوا اسکی وجہ سے ہندوستان کو آزاد ہونےکیلئے مزید 28 سال لگ گئے تھے۔ پاپولر لیڈر کا امتحان یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی میں تشدد کو نہ آنے دے وگرنہ تحریک ہائی جیک ہو جاتی ہے۔
بین الاقوامی منظر پر نظر دوڑائیں تو وہاں بھی شہرت کا نشہ بڑے بڑوں کو کھا گیا۔ جرمنی کے ایڈولف ہٹلر (1889 تا 1945ء) کا نام آج کل تو بدنام ہے لیکن ایک زمانے میں جرمنی میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہ فوج میں معمولی کارپورل تھا مگر وطن پرستی اور ورسائی معاہدےکے خلاف چلائی گئی مہم نے اسے زیرو سے ہیرو بنا دیا، عالمی استحصال اور صہیونی عزائم کے خلاف اس کے نعرے اس قدر مقبول تھے کہ وہ جلسے میں تقریر کرتا تو خواتین زار و قطار روتیں اور جوش میں آکر اپنے زیورات تک ہٹلر کی طرف پھینک دیتیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پورے جرمنی میں کوئی ایک آواز بھی ہٹلر کے خلاف نہیں اٹھ سکتی تھی، کیا جرنیل اور کیا پارلیمنٹرین سب اسی کو دیوتا مانتے تھے مگر پھر یہ شہرت اس کے دماغ کو چڑھ گئی اور اس نے دنیا کوفتح کرنے کا منصوبہ بنا لیا ،آخری غلطی روس پر حملہ تھا۔ بدقسمتی کا آغاز ہوا تو شکست پر شکست ہونے لگی روسی فوجیں برلن کے قریب پہنچیں تو ہٹلر ایک بنکر میں پناہ گزین ہوگیا مگر ہیرو کا نشہ وہاں بھی نہیں اُترا بنکر سے بھی جرنیلوں کو الٹےسیدھے احکامات جاری کرتا رہا مگر سب کچھ بکھر چکا تھا۔ ہیرو کی ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ شکست کو نہ قبول کرتا ہے اور نہ اس کا حوصلہ ہوتا ہے کہ مشکلات پر قابو پا کر نارمل رہ سکے، بالآخر اپنی محبوبہ ایوا برائون کے ساتھ خود اور اسے گولی مار کر خود کشی کرلی۔ کہاں گئی وہ شہرت، طاقت اور خود اعتمادی۔ اگر مذاکرات کرلئے ہوتے، جارحیت نہ کی ہوتی، ہر کسی کو اپنا مخالف نہ بنایا ہوتا تو ہٹلر کا انجام یہ نہ ہوتا۔
ایک زمانے میں ہندوستان میں مسولینی (1883ء تا 1945ء) کے بارے میں بھی بڑا رومانس تھا، مسولینی 21 سال تک اٹلی کا وزیر اعظم رہا مسولینی نے بھی قومی جذبات کو ابھارا، ہٹلر کی طرح مسولینی نے بھی پراپیگنڈے سے کام لیا اور ایک مضبوط بیانیہ بنایا، ہٹلر اور مسولینی دونوں میں کرشمہ تھا دونوں بہترین مقرر تھے، دونوں آمرانہ سوچ کے مالک تھے دونوں توسیع پسندانہ حب الوطنی کے قائل تھے۔ مسولینی کا انجام یہ ہوا کہ اسے مشتعل ہجوم نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ مسلم دنیا میں بھی ایسے مقبول اور مشہور لوگوں کا انجام بخیر نہیں ہوا۔
آج کل تضادستان میں ایک بار پھر شہرت اور طاقت کی پنجہ آزمائی جاری ہے ، 15؍ اکتوبر کو یہ میچ پڑے گا یا ٹھنڈا ہو جائے گا اس کا تو ابھی علم نہیں لیکن یہ طے ہے کہ پی ٹی آئی 9 مئی کے بعد سے احتجاج کی جس روش پر چل رہی ہے اس کا تاریخ میں انجام اچھا نہیں ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ تحریک انصاف واقعی عوامی طاقت سے کوئی انقلاب لے آئےلیکن اگر ایسا نہ ہوا، جیساکہ ماضی میں ہوا ہے تو پھر پی ٹی آئی کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ میری ذاتی رائے میں تو پی ٹی آئی سے نرمی کا سلوک ہونا چاہیے، بانی پی ٹی آئی کو رعایتیں ملنی چاہئیں باوجود اس کی جارحانہ پالیسیوں کے، ریاست کو اس کے ساتھ مشفقانہ سلوک کرنا چاہیے مگر ریاست اور طاقت کی سوچ، میری طرح کی نہیں ہوتی۔ طاقت کے بھینسے کو اگر باربار تشدد کا سرخ کپڑا دکھائیں تو وہ بھڑک کر حملہ کرتا ہے، کاش ایسا نہ ہو۔ تاریخ کا لکھا مگر روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے، تحریک انصاف کے پالیسی ساز دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کو کیوں نہیں پڑھتے کیوں طاقت کے بھینسے کو بار بار سرخ کپڑا دکھا رہے ہیں؟ سیاسی جماعتیں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ریاست کا حملہ برداشت کرسکیں، شہرت بڑی چیز ہے مگر طاقت کے مقابلے میں اس کا جیتنا مشکل ہوتا ہے۔