اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کے مطابق جہاں اْس کے مادّی اور جسمانی حوائج کی تکمیل کا اہتمام کیا وہاں بقائے حیات کی خاطر اْسے ایسی ہدایت و رہنمائی سے بھی بہرہ ور فرمایا جس سے وہ اپنی اَخلاقی و رْوحانی زندگی کے تقاضوں سے کماحقہ عہدہ بر ا ہو سکے، رْشد و ہدایت کا وہ نورانی و رْوحانی سفر جس کی اِبتداء بنی نوع انسان کے جد اَمجد حضر ت آدم علیہ السلام کی آفرینش سے ہوئی، یہ سفر مسلسل جاری رہا یکے بعد دیگرے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے بھٹکی ہوئی نسلِ انسانی کو راہِ ہدایت سے ہم کنار کرتا رہا، لیکن تاریخِ انسانی پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا اور ظلم و بربریت کے شکنجوں میں جکڑی اِنسانیت ،شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پسنے لگی، جب تاریخِ انسانی کی طویل ترین رات اپنی ہیبت کی انتہا کو پہنچ گئی تو ظلمتِ شب کے دامن سے ایک ایسی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی جو قیامت تک کے لیے غیر فانی اور سرمدی اْجالوں کی نقیب بن گئی،بلادِ حجاز کی مقدس فضائیں نعرہ توحید کی صداؤں سے گونجنے لگیں، وادی مکہ میں اس ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے چشمِ فلک ابتدائے آفرینش سے منتظر تھی اور روحِ عصر جس کے نظارے کے لیے بے قرار تھی۔امام احمد رضا نے اس پر کیا خوب کہا
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات نے اِس خاک دان دنیا کا مقدر بدل ڈالا، انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں وہ روح پھونک دی جس سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا،محسنِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ اَقدس میں حسن وجمالِ ایزدی کے جملہ مظاہر اپنی تمام تر دل آویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں جلوہ گر ہوئے کہ تمام حسینانِ عالم کے سراپے ماند پڑ گئے۔عاشق مصطفیٰ ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے اس پر بھی خوب کہا
جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام
مرزا غالب نے فارسی میں نعت نبی کہی ہے،اس کے آخری شعر میں انہوں نے مدحت کا حق ادا کر دیا،
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتم
کاںذات پاک مرتبہ دان محمد است
(غالب نبی کریمؐ کی تعریف و توصیف صرف خدا تعالیٰ کی ذات بیان کر سکتی ہے کہ وہی ان کے مرتبہ و مقام سے پوری طرح آگاہ ہے)
میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس صبح اَوّلیں سے اب تک چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی جب اس عظیم ترین ہستی کے پردہ عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو مسلمانانِ عالم میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے،ماہِ ربیع الاول کا ایک مقدس دن اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نویدِ جشن لے کر طلوع ہوتا ہے اور مسلمانوں کا سوادِ اعظم اس روزِ سعید کو بڑھ چڑھ کر مناتا ہے،ہر عاشق اپنے اپنے طور اور قرینے سے عشق و الفت کا اظہار کرتا ہے،کہیں غریبوں میں نیاز تقسیم ہو رہی ہے،کہیں پانی شربت اور دودھ کی سبیل لگی ہے،گلیاں بازار دلہن کی طرح سجائے جاتے ہیں،چراغاں ہوتا ہے،قمقمے روشن کئے جاتے ہیں،جلوس نکلتے ہیں،چوکوں چوراہوں عمارات پر لائٹنگ کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
مذہبی تہواروں اور چنیدہ ہستیوں کا یوم ولادت مناناکوئی نئی بات نہیں ،مسیحی حضرت عیسیٰ کے جنم دن کو باقاعدہ عید کا درجہ دیتے ہیں،جسے ہم پاکستان میں بھی بڑا دن کے طور پر جانتے ہیں یہود بھی حضرت موسیٰ کے دور میں اللہ پاک کی طرف سے انعامات کی یاد میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان ایام کو جشن کے طور پر مناتے ہیں،محسن انسانیت کی آمد تو دراصل عالمین کیلئے رحمت تھی،اللہ پاک نے خود قرآن میں فرمایا’’رسول اللہؐ کی بعثت دراصل دنیا والوں کیلئے رحمت ہے‘‘دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ہم نے آپ کو(نبی کریمؐ)دونوں جہانوںکیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘مقام و مرتبہ یہ کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اور فرشتے نبی کریم پر درود و سلا م بھیجتے ہیں اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی (نبی صلعم) پر درود بھیجو میں قبول کروں گا‘‘آقائے نامدارؐ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین قرینہ تو درود پاک کا ورد ہے،جن پر خود اللہ کریم درود بھیجے اور یہ واحد عبادت ہے جس کے بارے میں عمل سے پہلے ہی یقین دہانی ہے کہ مومنوں تم درود بھیجو میں تسلیم کروں گا،اگر چہ بہت سے عاشق درود پاک کا ورد بھی کرتے ہیں مگر زیادہ تر خوشی کا اظہار کرتے اس اہم کام کو بھول جاتے ہیں جس کا حکم اللہ نے دیا اور جو کام اللہ پاک خود کرتے ہیں۔
میلاد النبی پر مسرت کا اظہار عشق مصطفیٰ کا تقاضا ہے مگر اظہار عشق کے کچھ عملی تقاضے ہیں ،عشق کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ہم نبی پاک صلعم کی تعلیمات کو حرز جان بنا لیں،نماز کو دین کا بنیادی ستون اور مومن و کافر میں فرق قرار دیا اور رحمت اللعالمین نے لازمی قرار دیا مگر ہم نے نماز سے غفلت کو معمول بنا لیا ہے،فرمایا ’’مومن اور کافر میں تین باتوں کا فرق ہے،مومن جب بولتا ہے سچ بولتا ہے،عہد کی پابندی کرتا ہے اور امانت میں خیانت نہیں کرتا‘ مگر کیا ہم نے ان خصائص سے دوری کی دانستہ کوشش نہیں کی؟رشتے داروں ہمسایوں کے حقوق پر رسالت مآب نے بہت زور دیا مگر ہم نے ان حقوق کی ادائیگی سے ہمیشہ پہلو تہی کی،ہمیں قطع تعلقی سے منع فرمایا گیا اور صلہ رحمی کا حکم دیا گیا مگر ہم نے ان دونوں باتوں کو بھی فراموش کر دیا،خوشی کا اظہار اپنی جگہ لیکن اگر ہمارے اعمال پر نگاہ ڈالی جائے تو ہم حقیقی عاشق رسول دکھائی نہیں دیتے اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے کردار و اخلاق کا جائزہ لیں اور اسے تعلیمات محمدیؐ کے مطابق ڈھالنے کا عہد کریں۔
جب میں نے ہوش سنبھالی تو میرے کانوں میں جو الفاظ تواتر سے سنائی دیتے تھے وہ یانبی سلام علیک یا رسول سلام علیک تھے،ذرا بڑے ہوئے تو سیدی مرشدی یا نبی یا نبی اور غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں ،کے نعرے ہر وقت زبان پر ہوتے تھے۔سیدنا کریم صلی اللہ علیہ وصلم کی گونج میں یہ وہ ماحول تھا جو ہمیں ہمارے والد محترم کی وجہ سے میسر آیا۔میرے والد محترم فقیر محمد بھی تھے اور عاشق رسول بھی ، انہیں نبی کریم صلی اللہ کے طفیل بہت کچھ ملا اور وہ ان کے نام پر سب کچھ قربان کر دیتے تھے۔بڑے سے بڑے نعت خوان اور قوال سال میں کئی کئی مرتبہ ہمارے گھرمیلاد کی محافل میں تشریف لاتے تھے۔ان محافل میں شریک وارثان اولیا ، علما ، نعت خوانوں ،قوالوں اور شرکا کی خدمت میری اور میرے بڑے بھائی حسین گورایہ کی ڈیوٹی ہوتی تھی،ہم ان کی خاطر تواضع کے ساتھ ساتھ انکی جوتیاں بھی سیدھی کرتے تھے کیونکہ یہ ہمارے والد محترم نے ہمیں سکھایا تھا۔