راولپنڈی : سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی جماعت کے حق میں بات کرنے والے صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کے مقدمات سننے والے ججز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران، انہوں نے اپنے الزامات کی تفصیلات فراہم کیں۔
ججز پر دباؤ:
عمران خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے مقدمات سننے والے ججز کو پریشرائز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سرگودھا کے جج کا حوالہ دیا جس نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا کہ کیسے خفیہ اداروں نے ان پر دباؤ ڈالا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اس جج کے گھر کی گیس کاٹ دی گئی تھی اور جو بھی جج انصاف دینے کی کوشش کرتا ہے، اسے پریشرائز کیا جاتا ہے۔
صحافیوں پر حملے:
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ جو صحافی پی ٹی آئی کے حق میں بولتا ہے، اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے رؤف حسن اور علی زمان کے واقعات کا ذکر کیا، جن پر حملے اور تشدد ہوئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس سب میں خفیہ ادارے شامل ہیں۔
چیف جسٹس کو پیغام:
سابق وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی اپیل کی۔ عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس کے سامنے قانونی کی حکمرانی میں مداخلت ہو رہی ہے اور ان کا پارٹی دفتر توڑ دیا گیا ہے۔
بجٹ خسارہ اور قرض:
عمران خان نے بجٹ کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ساڑھے 7 ہزار ارب روپے کا قرض لینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل اندھیرے میں چلا گیا ہے اور اس سال ملک میں سب سے کم سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
مذاکرات کی ضرورت:
عمران خان نے کہا کہ سیاستدان ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے فیصلے اوپر سے کیے جاتے ہیں اور جب تک چیف جسٹس بندیال ہیں، الیکشن نہیں ہوں گے۔ عمران خان نے پارٹی کو گروپنگ ختم کرکے متحد ہونے کا پیغام دیا اور کہا کہ یہ پاکستان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہے۔
دانیال چودھری پر برہمی:
سماعت کے دوران، عمران خان نے ن لیگی ایم این اے بیرسٹر دانیال چوہدری کی موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارے ایم این ایز باہر بیٹھے ہیں، تم کیسے اندر آ گئے؟” عمران خان کے غصے کے بعد دانیال چودھری کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے۔
اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات:
عمران خان نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیے بغیر گفتگو ختم کر دی، جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کے لیے نمائندہ مقرر کرے۔ اس سوال کا جواب دیے بغیر عمران خان وہاں سے چلے گئے۔