صدارتی اعزازات کے بارے میں ہمارے عہد کے مقبول کالم نگار عطاالحق قاسمی صاحب نے نہایت جامعیت کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔سبب اس کا یہ ہے کہ وہ ان معاملات پر برس ہا برس سے گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔لیکن پھر بھی ابھی کچھ باتیں ایسی ہیں جو کہی جا سکتی ہیں۔
ہمارے ایک البیلے شاعر اعزاز احمد آذر نے کہا تھا:
شہر میں تقسیم دستاروں کی تھی جب ہر طرف
یہ کیا میں نے کہ اپنا سر بچا کر لے گیا
آذر صاحب آج اس دنیا میں نہیں۔وہ دنیا سے “بے اعزاز” ہی چلے گئے تھے۔ان کی طرح ہمارے بہت سے بڑے شاعر اور ادیب کوئی صدارتی تمغہ لیے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔وہ اپنے تخلیقی کام میں اتنے محو رہے کہ ایوارڈ لینے کے لیے جو چال بازی اور لابنگ کرنا پڑتی ہے اس کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں گیا۔ بے چاری خاتون خانہ کی طرح حکومت پر مختلف کاموں کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ اسے لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے اور سننے سنانے والے لوگوں کے بارے میں پتا ہی نہیں چلتا کہ کب دنیا میں آئے اور کب چلے گئے؟ اس کے کان کے قریب جا کر زور سے چلانا پڑتا ہے۔اپنا نام بتانا پڑتا ہے۔ہماری مصروف حکومت کو تقریبا” 50 برس گزرنے کے بعد کسی نے بتایا کہ ناصر کاظمی بھی کوئی شاعر تھا چنانچہ اس سال ان کے لیے “نشان امتیاز” کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
پچھلے کچھ برسوں میں صدارتی اعزازات تقسیم کرنے والوں نے اتنی دھاندلیاں کی ہیں کہ اب ان اعزازات کی کوئی وقعت ہی نہیں رہ گئی۔کبھی کسی نازنین کو اس کی شوخ اداوں پر ایوارڈ عطا کر دیا جاتا ہے۔کبھی کسی سیاسی خانوادے کے سپوت کو لائق اعزاز سمجھا جاتا ہے۔کبھی کبھی ایوان صدارت کی غلام گردشوں میں گھومنے والوں کو بلا بلا کر تمغے دے دیے جاتے ہیں۔اب تو بس یہ صدا سننا باقی ہے: “کوئی ایوارڈ سے محروم تو نہیں رہ گیا؟ اگر رہ گیا ہے اپنا نام لکھوا دے”۔ان غلط بخشیوں پر سب سے زیادہ اعتراضات ہمیشہ ادیبوں شاعروں اور کالم نگاروں نے کیے۔ظاہر ہے کہ انھیں لکھنا آتا ہے تو وہی لکھیں گے۔حکومت نے کبھی ان اعتراضات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔وہ ہر سال جس طرح ایوارڈ دیتی ہے اسی طرح مسلسل دیے چلی جا رہی ہے۔اس سال مسلم لیگ کی وفاقی حکومت کے جی میں پتا نہیں کیا بات آئی کہ اس نے چاروں صوبوں کی طرف سے صدارتی اعزازات کے لیے بھیجے جانے والے ادیبوں شاعروں کے نام بیک قلم مسترد کر دیے۔یا یوں کہیے کہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔اشک شوئی کے لیے پنجاب سے ہماری ایک سینئیر فکشن رائٹر محترمہ سلمی’ اعوان کے لیے ستارہء امتیاز اور کراچی کی ایک نئی شاعرہ عنبرین حسیب عنبر کے لیے پرائیڈ آف پرفارمنس کا اعلان کر دیا گیا۔کراچی کے جاوید جبار کو پنجاب کے ادیبوں کےکوٹے سے ایک بڑا اعزاز دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔پہلے ہر سال تقسیم اعزازات کی یہ تقریب ایوان صدر میں ہوا کرتی تھی لیکن اب ہر صوبے کے گورنر کو بھی یہ اعزاز بخش دیا گیا ہے کہ وہ بھی کچھ جھکی ہوئی گردنوں میں سرکاری میڈل ڈال سکتے ہیں۔میں سوچ رہا ہوں کہ اس سال چاروں صوبوں کے گورنر کیا کریں گے۔اس سال تو زیادہ اعزازات دیے ہی نہیں گئے۔جو دو چار اعلانات کیے گئے ہیں وہ اعزاز یافتگان کے گھروں ہی میں بھیج دیے جائیں تو اچھا رہے گا۔
حال ہی میں ہمارے ایک نوجوان کھلاڑی ارشد ندیم نے بہت دور تک نیزہ پھینک کر اولمپکس گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو بارشوں کے موسم میں اس پر روپوں کی بارش ہو گئی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے ارشد ندیم کے اکاونٹ میں جمع ہونے والے ہیں۔مفت میں ملنے والی گاڑیاں الگ ہیں۔انھیں آپ جھونگا سمجھیے۔جھونگے کا مطلب ارشد ندیم جانتا ہے یا مجھ ایسے لوگ جو زندگی کی چھٹی دہائی کے اختتام کی طرف تیزی سے سفر کر رہے ہیں۔
ہمارے صدارتی اعزازات کے ساتھ کچھ ملتا بھی نہیں اور ان کے لیے لوگ لڑتے جھگڑتے بھی رہتے ہیں۔
میں “شبانہ روز” محنت کرنے والے ان تھک وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ایوان صدر میں بیٹھے ہوئے “مرد حر” آصف علی زرداری کے سامنے یہ تجویز رکھنا چاہتا ہوں ان صدارتی تمغوں اور میڈلز کے ساتھ ایک معقول رقم اور دس بیس مرلے کا ایک پلاٹ دینے کا سلسلہ شروع کریں اور ان اعزازات کے لیے صوبائی محکموں کے افسروں کی طرف سے نام زدگیوں کا سلسلہ بھی بند کریں۔ہر صوبے کے ان معتبر لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو پہلے ہی سارے اعزازات حاصل کر چکے ہیں یا ان کے دلوں میں اعزازات حاصل کرنے کی کوئی تمنا نہیں۔ہم نے ماضی بعید اور ماضی قریب میں دیکھا ہے کہ ایوراڈز دینے والی کمیٹیوں کے ارکان پہلے خود ایوارڈ اٹھاتے ہیں اور بچے کھچے ایوارڈ کچھ مستحق لوگوں کو دے دیتے ہیں۔تاکہ ان ایوارڈوں کا بھرم قائم رہے۔مجوزہ کمیٹی اپنے صوبے کے ان لوگوں کا انتخاب کرے جنھیں صدارتی اعزازات دیے جا سکتے ہوں۔ وفاقی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ صوبوں کی طرف سے آنے والے نام مسترد نہیں کریں گے اور اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے حکام اپنے آور اپنے من پسند لوگوں کے نام ان میں شامل نہیں کریں گے۔
مسلم لیگ کی صوبائی اور وفاقی حکومت نے اس بار پنجاب کے ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو مقررہ تعداد میں ایوارڈ نہ دے کے جو زیادتی کی ہے اس کی تلافی اب بھی کی جا سکتی ہے۔کیونکہ ابھی اعزازات کا صرف اعلان ہوا ہے۔یہ 23 مارچ 2025 کو تقسیم کیے جائیں گے۔میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ متعلقہ اداروں کی طرف سے نام زد کیے گئے ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کی فہرست منگوائیں اور ان کے نام بھی اعزاز یافتگان میں شامل کرائیں۔بلکہ میری تجویز یہ ہے کہ دوسرے صوبوں سے بھی مزید نام منگوائیں۔کیونکہ اس بار اعزازات کا اعلان کرنے والوں نے دل سے کام نہیں کیا۔صرف گونگلووں سے مٹی جھاڑی ہے۔