ظفر محمود ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں،انسان دوستی،محنت اور نیک نامی انکی پہچان ہے، ایک طویل عرصے تک سرکاری ضابطوں ،قوانین اور فائلوں میں رہنے کے باوجود ادب اور صحافت سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔وہ پائپ اور سگار پینے پلانے والے ساتھی بیوروکریٹس کے درمیان بھی نہ صرف اپنی زمین اور مٹی کی بات کرتے تھے بلکہ زمینی حقائق سے بھی واقف ہوتے تھے۔چند روز پہلے انہوں نے اپنے ایک کالم میں بیوروکریٹس کے ضمیر کی بات کی ہے، وہ ضمیر اور بے ضمیر ہونے کی باتیں ریٹائرڈ ہونے کے بعد کر رہے ہیں ،دوران سروس کرتے تو زیادہ مزہ آتا ،کیونکہ انہیں اس وقت بھی اکثر بیوروکریٹس کے سیاسی ضمیر کی مکمل خبر ہوتی تھی ،اب انہوں نے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہونے کے باوجود ہی سہی مگر موجودہ بیوروکریٹس کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی بات تو کی ہے۔
آج ہمیں ملک اور معاشرے میں ہر طرف اور ہر جگہ ایک تقسیم نظر آتی ہے، اور یہ تقسیم یا وابستگی ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ، سرکاری افسران اور ملازمین جن پر لازم ہے کہ ہر طرح کی گروہ بندیوں سے بالا تر ہو کر عوام کی خدمت کریں وہ بھی اس تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں اور اب تو ان کے لیے یہ الفاظ وافر استعمال ہونے لگے ہیں کہ فلاں افسر اس سیاست دان کا بندہ ہے یا اس کی وابستگی فلاں سیاسی پارٹی سے ہے اور اس کی سرپرستی فلاں سیاسی لیڈر کر رہا ہے، سوچتا ہوں یہ سلسلہ کوئی سدِ باب کئے بغیر جاری رہا تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ قومی تشخص برقرار رکھا جا سکے گا یا ہم گروہوں اور سیاسی عصبیتوں میں بٹی قوم بن جائیں گے اور یہ سیاسی گروہ بندیاں ہمیں کہاں لے جائیں گی؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہم کبھی ایک قوم بن سکیں گے ایک جان، متحداور متفق قوم؟
یہ کون نہیں جانتا کہ سیاست دان اور کسی علاقے کے با اثر افراد اپنے اپنے علاقوں میں اپنی پسند کے افسر لگواتے ہیں، مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کے کام بلا چوں و چرا ہوتے رہیں اور ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا کوئی نہ ہو، اپنے لگوائے ہوئے افسران کو وہ اپنے علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور اپنے حلقے کے لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، ایک پولیس افسر کو سیاست دان اپنے علاقے میں اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، پٹواری ان کے لیے مال اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں رشوت کا بازار گرم رہتا ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں اس پیسے کا استعمال کر کے خوب دھاندلی کی جا سکے اور چونکہ ایسے افسران کو سیاست دان کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اس لیے کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، دراصل یہیں سے رشوت ،کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے دروازے کھلتے ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ سلسلہ کہاں سے شروع ہوا؟ جب پاکستان بنا تو یقینا ایسا نہیں تھا، وہ ایسا زمانہ تھا جب ہر پاکستانی کے دل میں اس ملک کا احترام پایا جاتا تھا، یہی وہ زمانہ تھا جب وسائل نہ ہونے کے برابر تھے لیکن آگے بڑھنے کا جذبہ، ولولہ، بے تحاشا اور عزمِ صمیم ہماری ہر بات سے جھلکتا بلکہ چھلکتا تھا، کوئی پاکستان کے خلاف کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، پھر کیا ہوا کہ چند دہائیوں میں ساری کایا ہی پلٹ گئی، پْرانی اقدار متروک ہو گئیں اور نئے ڈھنگ اپنا لئے گئے، اجتماعیت پر انفرادیت نے فوقیت حاصل کر لی؟
کیا اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن ہے کہ ہر دور میں سرکاری افسران کو سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ بھٹو نے اصلاحات کے نام پر بڑے پیمانے پر اپنے مخالف سرکاری افسران کو ان کے عہدوں سے نکال کر باقی افسروں کو پیغام دیا تھا کہ وہ ان کی تابع داری کریں، بصورتِ دیگر ان کا انجام بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے اور یہ تابع داری کی گئی، کہا جاتا ہے کہ ایف ایس ایف (فیڈرل سکیورٹی فورس) کی اکثریت بھٹو کی اپنی پارٹی کے لوگوں پر مشتمل تھی تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سرکاری افسران اور ملازمین میں سیاسی تقسیم کو گہرا کرنے کی داغ بیل ڈالی گئی تھی؟ یا پھر یہ سلسلہ اس سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں برادری اوری اینٹڈ افسروں کو ترجیح دینے کا ایسا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے اور اکثر حکمران اس اصول پر تعیناتیاں کرتے ہیں، ضیاء الحق نے 1985ء میں نان پارٹی الیکشن بھی کرائے تھے، یہ فزکس کا سادہ سا اصول ہے کہ ہر عمل کا ایک ردِ عمل بھی ہوتا ہے، جب آپ کسی چیز کو دباتے ہیں تو ردِ عمل میں وہ چیز بھی آپ کو دبا رہی ہوتی ہے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی تقسیم ضیاء الحق دور کے غیر جماعتی انتخابات کے ردِ عمل میں پیدا ہوئی تھی؟
نواز شریف سیاست میں وارد ہوئے تو ان کے لاہورخصوصاً گوال منڈی سے بھرتی کئے گئے نائب تحصیل دار ، اے ایس آئی (پولیس)، ایکسائز انسپکٹر اور دوسرے افسران ہر طرف میاں دے نعرے وجن گے کا راگ الاپتے تھے، آج میاں صاحب کا طوطی مسلم لیگ (ن) کے وفاداروں کی شکل میں گریڈ ایک سے بائیس تک ہر جگہ نظر آتا ہے اور ایسے افسر خال خال نظر آتے ہیں جو قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں ریاست پاکستان کے وفادار ہوں۔
پی ٹی آئی والے اپنے دور میں یہ واویلا کرتے نظر آئے کہ سابق حکمرانوں کی وفادار بیوروکریسی اسے کام نہیں کرنے دے رہی۔ 21 اکتوبر 2018ء کو وزیر اعظم بننے کے محض دو ماہ بعد عمران خان نے انتظامی سطح پر حکومت کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سیاسی بیوروکریسی اور پولیس پر سخت تنقید کی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ کچھ لوگ انتظامی سطح پر حکومت کے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کی پچھلی حکومت میں تقرری کی گئی تھی، انہوں نے جو بات کہی کیا وہ حقیقت تھی ؟یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کونسا افسر کس کی سنتا ہے اور کس بیوروکریٹ کا ضمیر کس کے پاس گروی ہے۔
تو کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو کام سیاست دان انفرادی طور پر اپنے علاقوں میں اپنے پسندیدہ اور فرماں بردار افسر لگا کر کرتے رہے وہی کام سیاسی جماعتیں قومی یعنی سرکاری اداروں میں اپنے افراد پلانٹ کر کے کرتی رہیں تاکہ آنے والی حکومت یا حکومتوں کو مفلوج کیا جا سکے انہیں آگے بڑھنے اور فروغ پانے سے روکا جا سکے؟ اور کیا مسلسل جاری رہنے والے اس اقدام کے نتیجے میں آج ہمارے سرکاری ادارے کھوکھلے نہیں ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں کے جائز کام بھی رشوت اور سفارش کے بغیر ممکن نہیں رہے؟ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے سرکاری اداروں کے اکثر ملازم پارٹی ورکر بن کر اپنا ضمیر بیچ چکے ہیں؟ یہ بڑے اور اہم سوال ہیں جن کے جواب تلاش کرنے سے ہی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔