عوامی خودکشیوں سے اشرافی پروٹوکول تک

چند روز پہلے ایک ریجنل پولیس افسر بتا رہے تھے کہ انکی رینج میں پچھلے مہینوں کے دوران سات افراد نے بجلی کے بل دیکھ کر خود کشی کر لی،انکی بات سن کر میں کافی دیر سکتے میں رہا،پولیس کے اس بڑے افسر کے دروازے خواص کے ساتھ عام لوگوں کے لئے بھی کھلے تھے جو میرے لئے حیرت کا موجب تھا ورنہ ہمارے افسر خصوصی طور پر پولیس افسر تو اپنا وقت بالکل ضائع نہیں کرتے،وہ سرکاری دفتر کو بھی اپنے نجی کاموں کے حساب کتاب کے لئے وقف کیے رہتے ہیں اور فارغ بیٹھے ہوئے بھی میٹنگ میں ہوتے ہیں،وہ کیلکولیٹر کو جرائم کے اعداد وشمار جانچنے کی بجائے پاکستانی روپوں کو ڈالر میں کنورٹ کر نے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ہم اپنے ملک کے بڑے محافظ افسروں کے نام تو گنواتے ہیں کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کس کس ملک میں شفٹ ہو گئے ہیں کبھی چھوٹے محافظ افسروں کا بھی ذکر کیا کریں جو حاضر سروس ہوتے ہوئے ہی باہر سیٹ ہو جاتے ہیں۔ایک وقت تھا ہمارے ملک میں بڑے سول افسروں نے حکومت سے چھٹیاں لے کر اپنی افسریوں کے بل بوتے پر سیٹھوں کی نوکریاں کر لیں،چپڑی اور دو دو کے مصداق افسریاں بھی قائم اور لاکھوں کی تنخوائیں اور مراعات پرائیویٹ سیکٹر سے،اللہ عمر خضر عطا کرے پنجاب کے ایک انتہائی نیک نام،محنتی اور اپ رائٹ سابق چیف سیکرٹری ناصر کھوسہ صاحب کو، انہوں نے چارج سنبھالتے ہی ایسے افسروں کو کہ دیا سیٹھ یا سرکار میں سے ایک کی نوکری کا انتخاب کریں۔

اشرافیہ کے اللے تللوں نے اس ملک کی کیا حالت کر دی ہے، ایک ایسا ملک جس کی معیشت قرض کے بوجھ تلے دبی ہو،ہزاروں ارب روپے اندرونی بیرونی قرض کا بوجھ اٹھاتی قومی معیشت زبوں حالی کا شکار ہو،دیوالیہ پن کے خطرہ سے دوچار ہو جسے روز مرہ امور چلانے،سرکاری ملازمین کی تنخوا اور پنشن کی ادائیگی کیلئے بھی قرض حاصل کرنا پڑے،جس کی معیشت، زراعت، صنعت، تجارت،درآمد ات و برآمدات،ٹیکس اصلاحات، عوام کو دئیے جانے ریلیف،بجلی،گیس،پانی کے نرخ پر بھی عالمی مالیاتی ادارہ کی نگرانی ہو اس ملک کے ماہرین خاص طور پر وزارت خزانہ کے حکام کو تیز دھار تلوار پر چلتے،سوئی کے نکے سے گزرتے معیشت کے استحکام کیلئے قدم بہ قدم آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے،مگر بدقسمتی سے بد ترین معاشی حالات کے باوجود ہماری معیشت اور ماہرین،حکمرانوں اور وزارت خزانہ کی“وہی ہے چال بے ڈھنگی،جوپہلے تھی سواب بھی ہے ”اب بھی ملک میں خواص،حکمرانوں،اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات میں رتی بھر فرق نہیں آیا،آزادی سے پہلے انگریز سرکار سے خدمت کے عوض مراعات حاصل کرنے والا طبقہ آج بھی قرض کے بوجھ سے خمیدہ کمر وطن کے خالی کشکول پر نظریں جمائے ہوئے ہے،اس طبقہ کی حد بندی کرنے کے بجائے اس کو وسعت دیدی گئی ہے اب کچھ نئے طبقات بھی مراعات یافتہ طبقہ میں ضم ہو کر ملکی خزانہ پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں،ان طبقات سے ہر پاکستانی بخوبی آگاہ ہے مگر بعض کی نشاندہی کرنے پر جلتے ہیں، تاہم اب مراعات یافتہ طبقات سے نہ صرف قوم بچہ بچی بخوبی آگاہ ہو چکا ہے بلکہ ان کے خونخوار دانتوں سے ملکی خزانہ کا نرخرہ بھی نکالنے کا خواہش مند ہے۔

ماضی میں حاصل کئے گئے قرض کی قسط اور سود ادا کرنے کیلئے بھی نئے قرض لینا پڑ رہے ہیں،موجودہ حکمران اپنے پی ڈی ایم دور میں نگران حکومت کے معاہدہ کے تحت قرض حاصل کرتے اور حکومتی امور چلاتے رہے،الیکشن کے بعدعنان اقتدار سنبھالتے ہی ایک ہنر مند وزیر خزانہ کو امپورٹ کیا گیا جو بڑی مستعدی سے 7ارب ڈالر کا قرض آئی ایم ایف سے لینے میں کامران ہوئے،حکران اور وزیر خزانہ قرض ملنے کو ہی کامیابی قرار دیتے اور ایک دوجے کو مبارکباد دیتے رہے،قرض کی قسط کو معیشت کو گرداب سے نکالنے سے تعبیر کیا جاتا رہا،ابھی اس قرض کی پوری قسطیں قومی معیشت کے رگ و پے میں شامل نہیں ہوئی تھیں کہ8ارب ڈالر کا ایک او ر پروگرام ملنے کو کامیابی گردانا گیا، اسحٰق ڈار اوروزارت خزانہ لازم و ملزوم ہو چکے تھے ایسے میں سابق جج سپریم کورٹ جسٹس خلیل الر حمٰن رمدے کے داماد کی بطور وزیر خزانہ تقرری انہونی تھی، اسحٰق ڈار عوام کو دکھاوے کا ریلیف دینے کیلئے کوئی نہ کوئی پھلجھڑی چھوڑ دیتے تھے،جیسے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے 100یونٹ ماہانہ بجلی صارفین کو بلوں میں تین ماہ کا ریلیف دیا،کیسا لطیفہ تھا کہ تین ماہ کا ریلیف چھ ماہ کی بجلی کھپت سے وابستہ کر دیا گیا،جو صارف مسلسل چھ ماہ سو یونٹ استعمال کرتا رہا ریلیف کا حقداراسے قرار دیا گیا، مطلب ریلیف کا اعلان ہوا،ٹی وی چینل، اخبارات میں خود ستائشی پر مبنی اشتہارات چلے،مگر عملی طور پر ریلیف کسی کو نہ ملا۔

لیکن25کروڑ عوام میں سے 24کروڑ سے کیا گھناؤنا مذاق ہے کہ اس قدر شدید معاشی بحران کے باوجود اشرافیہ،خواص،حکمران طبقہ،ریاستی اداروں کے سابق و حاضر سروس افسر جو سالہا سال سے مراعات حاصل کر رہے ہیں وہ جوں کے توں ہیں مگر اشرافیہ500ارب کی مفت بجلی، 200 ارب کا مفت پٹرول،عالیشان اور وسیع و عریض گھروں کا ماچس کی تیلی سے لیکر بڑے سے بڑا خرچہ قومی خزانے سے حاصل کر رہے ہیں،بیرون ملک علاج کی سرکاری سہولت بھی ان کو حاصل ہے جبکہ سرکاری ہسپتال سے غریب شہری کو پیرا سیٹامول نہیں ملتی،اس پر ستم ہزاروں سرکاری گاڑیوں کا سکواڈ ہے جو شوفر سمیت ہر وقت ان کے در دولت پر حاضر رہتا ہے،گاڑیوں کا پٹرول،آئل،مرمت سب سرکاری خرچ سے ہوتا ہے،خبر ہے کہ پنجاب حکومت وزراء،پارلیمانی سیکرٹریز،معاونین خصوصی، کیلئے کروڑوں روپے کی نئی لگژری گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے چکی ہے،اس کے علاوہ پروٹوکول اور سکیورٹی کیلئے بھی کروڑوں کی گاڑیاں خریدی جائیں گی جس کی منظوری دے دی گئی ہے۔

وہ قوم جس کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ85ہزار روپے کا مقروض ہے،جس کے معاشی،اقتصادی،تجارتی معاملات کو عالمی مالیاتی ادارہ چلا رہا ہو،جس ملک کے غریب شہری کے بچے کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو،تعلیم کا حصول جس کیلئے کاردرد ہو،ہر ماہ بجلی گیس کے بل جسے موت کا پروانہ دکھائی دیں،دو وقت کی روٹی بچوں کو دینے کیلئے جسے اپنی حمیت کو تھپک تھپک کر سلانا پڑے،اس ملک کے خواص اشرافیہ جو ٹیکس بھی نہ دیتے ہوں ان کے مفادات کی حکومت نگران ہی نہ ہو بلکہ

24کروڑ غریبوں کے پیٹ پر لات مار کے پوے کرے اس ملک میں حکمران طبقہ،خواص، اشرافیہ کی عیاشیاں، آسائشات،مراعات رب قہار و جبار کے قہر و جبر کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔مگر ہمارے حکمران صرف اپنے اقتدار کو استحکام دینے اور طوالت کیلئے اشرافی،خواص کا منہ بند رکھنے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرنے میں دن رات مصروف ہیں،مقروض ملک جس کی معیشت اس کے باوجود قرض کی بیساکھی پر کھڑی ہو وہاں اشرافیہ کو پروٹوکول،سکیورٹی،مراعات کے نام پر خزانے کے منہ کھول دینا نہ صرف قوم بلکہ ملک اور آنے والی نسلوں کیساتھ بھی زیادتی ہے،”حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں“۔

اپنا تبصرہ لکھیں