چند روز ہوئے میں امریکہ آیا ہوں۔یہاں جو بھی امریکن پاکستانی ملتا ہے وہ ناراض ہی ملتا ہے‘ بلکہ بہت ہی ناراض! پہلے جب میں امریکہ آتا تھا تو کبھی ان سے اچھی بات چیت ہو جاتی تھی‘ کچھ بہتر ڈائیلاگ ہوسکتا تھا‘ تحمل سے ایک دوسرے کی بات سنی جاسکتی تھی‘کچھ دیر بعد گفتگو کا رخ کسی اور طرف مڑ جاتا اور پاکستانی بڑی خوشی سے آپ کو رخصت کرتے تھے۔ لیکن اس دفعہ میں نے محسوس کیا ہے کہ جو بھی پاکستان سے آتا ہے اور وہ ان کو کہیں مل جائے تو وہ اس اکیلے بندے کو پورے پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور جواب طلبی کرتے ہیں۔
پچھلے سال امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ ان کی تنظیم مجھے امریکہ اپنے سالانہ اجلاس میں بلانے کی خواہش مندہے۔ سفری اخراجات‘ ہوٹل کا قیام اور کچھ نقدی بھی دی جائے گی۔ وہاں پاکستانی ڈاکٹروں کے فنکشن میں پاکستان کے سیاسی معاملات پر بات کرنی تھی۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحبان میری بات سنیں گے یا اپنی سنائیں گے؟ لہٰذا میں امریکہ نہ گیا کہ مجھے علم تھا میری گفتگو سُن کر سب ناراض ہوں گے۔ سب وہی گفتگو سننا چاہتے ہیں جو اُن کے کانوں کو بھلی لگے۔ کبھی تو خود پر غصہ آتا ہے کہ میں وہ گفتگو کیوں نہیں کرتا جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو وہی گولی کھلائو جو انہیں پسند ہے اور مزے کرو۔ میں چونکہ صحافی ہوں لہٰذا ان امریکی دوستوں کا مجھ پر حق بھی زیادہ بنتا ہے اور مجھ سے ناراض بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ پاکستان میں اب کچھ نہیں رہا‘ سب ملک چھوڑ رہے ہیں‘پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستان میں کوئی قانون قاعدہ نہیں‘ جس کی لاٹھی اُسکی بھینس۔ اسٹیبلشمنٹ پورے ملک پرحاوی ہے‘ عمران خان اور ان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک طویل چارج شیٹ ہے جو مجھے بار بار سننی پڑتی ہے۔ میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہتا ہوں حالانکہ میں امریکہ کسی سیاسی ‘ سماجی یا صحافتی دورے پر نہیں آیا تھا اور نہ مجھے ٹاسک دیا گیا تھا کہ آپ نے ان ناراض امریکی پاکستانیوں کو جا کر خوش کرنا ہے یا انکے دل سے ملک سے بڑھتی ہوئی رنجش کو دور کرنا ہے۔ حالانکہ میں اس دفعہ یہ طے کر کے گیاتھا کہ میں نے کوئی بھاشن نہیں دینا‘ نہ ہی کسی کا کیس لڑنا ہے۔ مجھے پاکستان پیارا ہے‘ مجھے اپنی دھرتی سے‘ جیسی بھی ہے‘ محبت ہے۔ میں پاکستان کے علاوہ اور کہیں نہیں رہ سکتالہٰذا پورا ملک ہجرت کر جائے میں تب بھی یہیں رہنا پسند کروں گا۔ ہاں‘ جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں‘ مجھے ان سے گلہ ہے نہ شکایت۔
اگر میرے پاس ہجرت کی محدود چوائس ہے تو اس میں اُن کا کیا قصور جو سات سمندر پار جا بسے ہیں۔ میں اپنے گائوں سے لیہ‘ لیہ سے ملتان اور وہاں سے اسلام آباد آیا۔ بس اپنی اتنی ہی اوقات تھی ہجرت کی۔ لندن گیا تو مشکل سے سال‘ دو سال وہاں رپورٹنگ کی اور واپس پاکستان دوڑ آیا کیونکہ میرا وہاں دل نہیں لگتا تھا۔میرا ماننا ہے کہ انسان اگر ہجرت نہ کرتا تو آج وہ اس جدید ترقی کے ثمرات سے فائدہ نہ اُٹھا رہا ہوتا۔ ہجرت کرنیوالوں نے ہی معاشرے بنائے‘ تخلیقات کیں‘ اور انسانی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ہزاروں میل دور کے طویل سفر کیے‘ ایک اچھے مستقبل کی تلاش میں۔ اگر لوگ پاکستان سے ہجرت کرتے ہیں تاکہ وہ نئی دنیا میں بہتر زندگی تلاش کر سکیں تو اس میں کیا دکھ ہے؟ مغل ہجرت کر کے ہندوستان آئے ‘ چاہے حملہ آور بن کر ہی آئے مگر پھر یہیں ٹک گئے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ کیا پاکستان کے اندر ہر وقت ہجرت جاری نہیں رہتی؟ آج سروے کرائیں تو کتنے فیصد لوگ وہیں رہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے؟ ڈیرہ غازی خان کے کئی علاقوں خصوصا ًتونسہ کی کئی بستیاں اُجڑ گئیں کیونکہ لوگ پڑھ لکھ کر شہروں کا رخ کر گئے اور واپس نہ لوٹے۔ اپنی مثال دوں تو میں نے لیہ سے ہجرت کی اور اب اسلام آباد رہتا ہوں۔ پہلے ملتان میں رہتا تھا۔ تو کیا میں لندن یا نیویارک ہجرت کر جائوں تو اس میں برائی ہو گی؟ یا اس سے لگے گا کہ پاکستان ڈوب رہا ہے لہٰذا میں چھوڑ کر آگیا؟ جب لیہ چھوڑا تھا تو لیہ ڈوب رہا تھا یا اب ڈوب چکا ہے ؟ چلیں مان لیا اسوقت پاکستان کی حالت خراب ہے اور لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں‘ تو کیا جو لاکھوں پاکستانی برسوں پہلے امریکہ آکر بس گئے تھے وہ بھی پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات سے گھبرائے ہوئے تھے ‘یا انہیں لگا تھا کہ انہیں اپنی قسمت کہیں اور آزمانی چاہیے جیسے انسانی تاریخ میں ہوتا آیا ہے؟ جو پاکستانی 1980ء یا 1990ء یا بعد میں بیرونِ ملک سیٹل ہوئے تو بھی ملک تباہ ہو رہا تھا؟
مشرف دور میں تو معیشت بہتر تھی کیونکہ امریکہ ہر سال ڈیڑھ‘ دو ارب ڈالرز کی امداد دے رہا تھا۔ سعودی عرب مفت تیل دے رہا تھا۔ سب کچھ سستا تھا۔ تو کیا اُن دس برسوں میں‘ جب جنرل مشرف حکمران تھے‘ کسی ایک پاکستانی نے پاکستان نہیں چھوڑا؟ یا زرداری‘ گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی یا عمران خان کے دورِ حکومت میں پاکستانی باہر سیٹل نہیں ہوئے؟ انسان کی خوبی کہہ لیں یا خامی‘ وہ اپنے حالات سے کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ اگر انسان مطمئن ہو جائے تو شاید اسکا ارتقائی عمل رک جائے۔ اس لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ انسان ناانصاف اور ناشکرا ہے‘ وہ خدا کی دی گئی نعمتوں پر مطمئن نہیں ہوتا۔
میں نے ویسے ہی امریکی پاکستانیوں سے پوچھ لیا کہ چلیں‘ مان لیا لوگ پاکستان چھوڑ کر جارہے ہیں تو کیا امریکہ کے ارب پتی اور مشہور لوگوں نے ٹرمپ کے الیکشن کے بعد امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا؟ ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹرمپ کے امریکہ میں نہیں رہیں گے‘ وہ اب ہجرت کر کے دوسرے ملکوں میں جارہے ہیں۔ اس پر کسی نے مجھے کہا: پاکستان کو بُرے حالات اور معاشی مسائل کی وجہ سے چھوڑنا اور امریکہ کے امیر لوگوں کاٹرمپ کی وجہ سے چھوڑنے میں بڑا فرق ہے۔ میں نے پوچھا: کیا فرق ہے؟ کہنے لگے: پاکستانی بُرے معاشی حالات کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں اور امریکی ٹرمپ کی سوچ اور پالیسوں سے ناراض ہیں۔میں نے کہا: بات سنیں! یہ ضروری نہیں کہ سب لوگ اپنے اپنے ملک کو ایک ہی وجہ سے چھوڑیں۔ پاکستانیوں کے پاس پیسہ نہیں تو وہ پیسے کی تلاش میں ملک چھوڑ رہے ہیں اور امریکی جن کے پاس بہت پیسہ ہے وہ سکون کی تلاش میں امریکہ چھوڑ رہے ہیں۔پاکستانیوں کو اگر لگتا ہے کہ ان کا پاکستان میں عمران خان کے بغیر کوئی مستقبل نہیں تو یہاں امیرترین امریکیوں کو لگتا ہے کہ ان کا ٹرمپ کے ہوتے ہوئے امریکہ میں کوئی مستقبل نہیں۔مطلب ‘دونوں کو لگتا ہے ان کا اپنے ملک میں کوئی مستقبل نہیں ۔ اب وجوہات چاہے مختلف ہوں لیکن ان وجوہات کا نتیجہ ایک ہی ہے۔اگر غریب پاکستانیوں کو اپنے ملک کا مستقبل نظر نہیں آرہا تو امیر امریکیوں کو بھی اپنے ملک کا مستقبل ٹرمپ کے دور میں تاریک لگ رہا ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں لیکن یہ طے ہے کہ دونوں اپنے اپنے ملک کی سیاسی قیادت اور ملکی حالات کی وجہ سے ہجرت کررہے ہیں۔ اگر پاکستانی غریب ہجرت کررہے ہیں تو تسلی رکھیں‘ امریکی ارب پتی بھی امریکہ چھوڑ رہے ہیں۔ پاکستانی غریب اور امریکی امیر‘ دونوں حالات سے غیرمطمئن ہیں اور دونوں ہجرت کررہے ہیں۔
انسانی ہجرت ہزاروں سال پرانا کام ہے۔ اگر انسان ہجرت نہ کرتا تو معاشرے ترقی نہ کرتے‘ ایک دوسرے سے نہ سیکھتے‘ انسان آج چاند پر کمند نہ ڈالتا۔ انسانی ترقی اور ارتقا میں ہجرت کا بڑا کردار ہے۔ انسان صدیوں سے بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت کرتا آیا ہے۔ اب اس دور میں آپ طعنہ بنانا چاہتے ہیں تو امریکی امیروں اور پاکستانی غریبوں کو طعنہ دیں جو اپنے اپنے ملک چھوڑ رہے ہیں۔انسان کسی حال میں خوش نہیں۔ پاکستانی غریب اپنے وطن سے خوش ہیں اور نہ ہی امیر امریکی امریکہ سے مطمئن ہیں۔