لڑائی تو خاص خان اور عسکری خان کے آپسی اختلافات سے شروع ہوئی تھی مگر سزا وار عام خان، غریب خان اور بے گناہ خان ٹھہر رہے ہیں۔ عدم استحکام، بے یقینی اور ناامیدی سے تو عامیوں، غریبوں اور بے گناہوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ خاص خان مقبول ہے، یہ عاجز خان درجنوں بار اس کی رہائی، دھاندلی کمیشن کے قیام اور خاص خان کے خلاف بے بنیاد الزامات کے خاتمے کی بات کر چکا ہے مگر ساتھ ہی اس عاجز خان کو دھرنوں، جلوسوں اور پرتشدد سیاست اور کالز سے شدید اختلاف رہا ہے۔ ان بار بار کی غلطیوں سے عامیوں کا خون بہتا ہے اور ریاست عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے۔ ریاستی عدم استحکام سے نہ خاص خان کو فائدہ ہے اور نہ عام خان کو۔ جب کوئی نئی کال دی جاتی ہے تو عسکری خان کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اس غلطی پر کھل کر سامنے آئے یوں غلطی خاص خان کی ہوتی ہے اور سزا عام خان کو ملتی ہے۔
سول نافرمانی کی تحریک کا سوچنا اور کال دینا بھی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اول تو مہاتما گاندھی جیسا لیڈر بھی اس تحریک میں بری طرح ناکام رہا تھا، خاص خان کیسے کامیاب ہو گا؟ پاکستان میں قومی اتحاد کی تحریک چلی، پیپلز پارٹی نے کئی سال احتجاج کیا۔ نون بھی سڑکوں پر رہی۔ نہ بھٹو، نہ مفتی محمود، نہ اصغر خان، نہ بے نظیر بھٹو اور نہ ہی نواز شریف نےکبھی سول نافرمانی کی کال دی۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جبکہ سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں تب بھی سول نافرمانی کی بات نہیں ہوئی۔ قائد اعظم نے کبھی اس حد تک جانے کا نہ سوچا۔ خاص خان پہلے بھی ایک بار یہ کوشش کر چکے لیکن کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ سول نافرمانی کا مطلب ہے حکومت اور ریاست سے عوام کا تعلق ختم کرنا یعنی عوام بجلی، پانی اور گیس کے بل دینے سے انکار کر دیں، پولیس سے امن و امان کے حوالے سے تعاون نہ کریں، ریاست کے تمام اداروں کا بائیکاٹ کر دیں، فرض کریں کہ یہ تحریک کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو کیا ہوگا؟ ریاست اور حکومت کی مشینری تباہ ہو جائے گی اور فرض کریں واقعی ایسا ہو جائے تو کیا ہوتا ہے؟ مارشل لا آ جاتاہے۔ گویا سول نافرمانی کی تحریک ملک میں مارشل لا لگوانے کی مایوس کن کوشش ہے؟
خاص خان ایسا کیوں کر رہا ہے؟ خاص خان کی مقبولیت سے انکار احمقانہ بات ہو گی مگر ان جارحانہ اقدامات کی وجہ سے خان کی قبولیت کا امکان ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس پاپولر جمہوری رہنما خاص خان اور ریاست خان کی آپس کی جنگ امید اور ناامیدی کی جنگ میں ڈھل چکی ہے۔ خاص خان عدم استحکام، جلسے، جلوسوں، احتجاجی کالوں، توڑ پھوڑ اور کشت و خون سے جڑتا جا رہا ہے اور جنرل خان امید، استحکام، معاشی ترقی، امن و امان اور بہتری کے ساتھ وابستہ ہو رہا ہے، پہلے یہی ترتیب الٹ ہوتی تھی جمہوری لوگ اور رہنما معاشی ترقی کی بات کرتے تھے اور ہماری ماضی کی مقتدرہ ان کے راستے میں روڑے اٹکاتی تھی۔ اگر خاص خان کی یہی حکمت عملی جاری رہی تو جمہوریت جاتی رہے گی، مارشل لا لگا تو ظاہر ہے کہ مارشل لا لگانے والے تو ذمہ دار ہوں گے ہی، کیا مارشل لا لگوانے والا خاص خان ذمہ دار نہیں ہو گا؟ اس عاجز خان کو خاص خان سے خصوصی ہمدردی ہے اور اس کی وجہ اس کے ساتھ لگے کروڑوں پاکستانی ہیں جو خلوص دل سے سیاسی طریقے سے پاکستان میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔ خاص خان سے خصوصی ہمدردی کے باوجود عاجز خان کو اس کی سیاسی حکمت عملی سے شدید اختلاف رہا ہے اور افسوس یہ ہے کہ بار بار کی یہ غلطیاں پاکستان پر بھاری پڑ رہی ہیں، سیاسی جماعتیں غیر متعلق ہوتی جا رہی ہیں اور مقتدرہ مزید طاقت ور ہو تی جا رہی ہے۔
ایک قابل احترام ماہر معیشت نے عاجز خان سے رابطہ کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کے تو سارے راستے بند ہیں وہ اور کیا کرے؟ عاجز خان نے عاجزی سے عرض کیا وہ وہی کرے جو قومی اتحاد نے کیا، ایم آر ڈی نے کیا اور ہر مشکل وقت میں سیاسی رہنمائوں نے اتحاد بنا کر کیا؟ محمود اچکزئی کو مینڈیٹ دے کر واپس کیوں لے لیا گیا؟ کیوں ابھی تک ہم خیال سیاسی جماعتوں سے مذاکرات تک نہیں کئے؟ ان غلطیوں کا کوئی جواز نہیں اور یہی غلطیاں مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔
ایک طرف سول نافرمانی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ریاست آئی ایم ایف کی سختیاں اور پابندیاں کمزور ہوتے ہی کنسٹرکشن کا بہت بڑا پیکیج لانے والی ہے جس سے انکے خیال میں منجمد معیشت میں یک لخت تیز ترین اضافہ ہو گا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں اور ایک دو ماہ کے اندر اس کی واپسی ہو جائے گی اور یوں ریاست کا سارے کا سارا فوکس معیشت اور خوشحالی پر ہوگا۔
عاجز خان کو سالہا سال نوابزادہ نصر اللہ خان کے پاس بیٹھنے کا موقع ملتا رہا۔ سب سے کامیاب احتجاجی تحریکوں اور اتحادوں کے وہ بانی مبانی اور محرک تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ سیاست اپنے اتحادی بڑھانے اور مخالف کے اتحادی کم کرنے کا نام ہے، وہ فرمایا کرتے تھے اگر میرے اتحاد میں ریت کا ذرہ بھی شامل ہو نا چاہے تو میں تامل نہیں کرتا کہ ریت بھی حریف کی آنکھوں میں دے مارنے کے کام آ سکتی ہے۔ یہ تجربات اور حقائق کا نچوڑ ہے مگر تحریک انصاف کی سیاست اپنے اتحادیوں پر شک اور اپنے حریفوں کو مضبوط کرنے پر استوار ہو چکی ہے، علی امین گنڈا پور پرشک، بشریٰ بی بی کو طعنے، فواد چودھری کے خلاف مہم، بیرسٹر گوہر علی پر عدم اعتماد، سلمان اکرم راجہ کی رسوائی اور اپنے ہی لیڈروں کے خلاف محاذ آرائی، کیا تحریک انصاف کو مضبوط کر رہی ہے یا کمزور؟ کسی دوسری سیاسی جماعت سے نہ ملنے کو تیار، نہ مذاکرات، نہ کوئی فارمولا؟ اکیلے سیاسی لڑائی نہیں ذاتی لڑائی لڑی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی دو سال کی سیاست صرف اور صرف جنرل خان کو مضبوط کر رہی ہے وہ جمہوریت پسندوں کا مذاق اڑا کر، دوسری پارٹیوں کی تضحیک کر کے اور اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کو گالیاں دے کر وہ ان سب طبقات کو جنرل خان کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگر آپ اپنے دروازے بند رکھیں گے، تنقید پردُشنام طرازی کریں گے، کسی کی عزت نہیں کریں گے بلکہ اچھالیں گے تو ہر کوئی آپ سے دبنے والا نہیں ہے، لوگ کمزور ہوتے ہیں ڈرپوک ہوتے ہیں لیکن جب معاملات حد سے گزر جائیں تو وہ کھڑے بھی ہو جاتے ہیں، وہ آپ کے حامی جنرل سے آپ کے مخالف جنر ل عاصم منیر بھی بن جاتے ہیں اور جمہوریت پسند جج آپ کی طرف سے ریفرنس لانے پر قاضی فائز عیسیٰ بن جاتے ہیں۔ خوامخواہ کی لڑائیاں، اوپر نیچے غلطیاں، آپ کو تو نقصان پہنچا ہی رہی ہیں ریاست خان اور عام خان کو بھی لے دے جا رہی ہیں!!۔