فضائی آلودگی کا بحران سیاسی طنز کے بجائے تعاون کی ضرورت

کسی سیانے نے خوب کہا ہے کہ جب کوئی مسخرہ بادشاہ بنتا ہے، تو وہ نہ صرف ریاست کی حالت کو خراب کرتا ہے بلکہ معاملات کو مذاق کا موضوع بھی بنا دیتا ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کا مریم نواز کے اسموگ سے متعلق خط لکھنے کی تجویز پر طنز کرنا اس بات کا عکاس ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، بلکہ اسے صرف سیاسی مذاق یا الزام تراشی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر وہ اس مسئلے پر مثبت گفتگو کرتے اور پاکستان کے ساتھ اس آلودگی کے خاتمے کیلئےتعاون کی پیشکش کرتے، تو دونوں ملکوں کے درمیان ماحولیاتی بہتری کی سمت میں پیش رفت ہو سکتی تھی۔ آلودگی ایک مشترکہ چیلنج ہے جس پر دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن جب قیادت کے درمیان طنز و مزاح کا عنصر شامل ہو، تو اس مسئلے کا حل مشکل ہو جاتا ہے اور صرف اختلافات اور تنازعات بڑھتے ہیں۔ فضائی آلودگی ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکا ہے، جس کا اثر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے مختلف علاقوں پر بھی مرتب ہو رہا ہے۔ بھارت سے آنے والا دھواں، خاص طور پر پنجاب اور ہریانہ میں فصلوں کی باقیات جلانے کے عمل کی وجہ سے، لاہور اور دیگر پاکستانی شہروں میں فضائی آلودگی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ جب بھارت کے ان علاقوں میں فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں، تو ان سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیسیں ہوا کے ذریعے پاکستان کی طرف بہہ آتی ہیں، جس سے لاہور میں شدید دھند اور فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ دھواں نہ صرف ماحول کی حالت خراب کرتا ہے بلکہ شہریوں کی صحت پر بھی منفی اثرات ڈالتا ہے، جیسے کہ سانس کی بیماریوں، دمہ، اور دل کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس آلودگی کے دوران فضائی معیار خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے، جو کہ لوگوں کی روزمرہ زندگی میں مشکلات پیدا کرتا ہے اور اس کے اثرات زیادہ تر سردیوں کے موسم میں دیکھے جاتے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں جہاں فضائی آلودگی پہلے ہی ایک سنگین مسئلہ ہے، فصلوں کی باقیات جلانے سے اس کا حل مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ خصوصاً سردیوں کے موسم میں جب ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے، اس عمل سے پیدا ہونے والا دھواں اور زہریلی گیسیں شہر کی فضاء کو آلودہ کر دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں دھند کی تہہ بن جاتی ہے، اور فضائی معیار بہت خراب ہو جاتا ہے۔ لاہور پہلے ہی فضائی آلودگی کے لحاظ سے ایک ناپسندیدہ سطح پر ہے، اور فصلوں کی باقیات جلانے سے یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا ہے، جس سے سانس کی بیماریوں، دل کے امراض اور آنکھوں میں جلن جیسے مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس آلودگی کے باعث شہریوں کو شدید صحت کے خطرات لاحق ہوتے ہیں اور قدرتی ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کا مریم نواز کے اسموگ سے متعلق خط لکھنے کی تجویز پر طنز کرنا ایک افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے، جو اس سنگین مسئلے کو مذاق کا موضوع بنا دیتا ہے۔ اسموگ ایک مشترکہ چیلنج ہے جس کا حل الزام تراشی یا طنز سے نہیں بلکہ باہمی تعاون سے نکل سکتا ہے۔ بھگونت مان کا یہ کہنا کہ “مریم نواز بھی انہیں چھٹی لکھیں” نہ صرف بے پرواہی کا اظہار ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماحولیاتی مسائل کے حل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ اگر وہ اس مسئلے کو حقیقت میں سمجھتے تو انہیں پاکستان کے ساتھ اسموگ کے خاتمے کیلئےایک جامع حکمت عملی پر بات کرنے کی ضرورت تھی۔ آلودگی کا حل کسی ایک ملک کے تئیں الزام لگانے سے نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مذاکرات اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے ممکن ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے سے نہ صرف مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان مزید سیاسی اور ماحولیاتی کشیدگی بھی پیدا ہو گی۔ اس مسئلے کے حل کیلئے چند ممکنہ تجاویز ہیں: دونوں ممالک کو فضائی آلودگی کے خاتمے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، اور ماہرین کو ایک مشترکہ فورم پر جمع کر کے اس کی وجوہات اور حل پر بات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ، فضائی معیار کی مسلسل نگرانی اور ڈیٹا کا باہمی تبادلہ بھی ضروری ہے تاکہ فوری اقدامات کیے جا سکیں۔ زرعی فضلہ جلانے پر پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں اور کسانوں کو متبادل طریقے فراہم کیے جائیں تاکہ آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ دونوں ممالک کو سبز توانائی جیسے سولر اور ونڈ پاور کو فروغ دینا چاہیے اور صنعتی فضلہ کے نظم و نسق کیلئے سخت قوانین بنانے چاہئیں۔ اس کے علاوہ، عالمی اداروں سے مدد لی جائے، جیسے کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) یا عالمی بینک، تاکہ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے درمیان کوئی بین الاقوامی معاہدہ طے کیا جا سکے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئےپاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کی عوام کی صحت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ بھگونت مان کا طنز اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے،ان کا یہ رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ بعض اوقات سیاسی رہنما اپنے ملک کے مفاد میں نہ صرف اپنی قوم بلکہ پورے خطے کے مسائل کو مذاق بنا دیتے ہیں۔ اگر وہ اس مسئلے کو حقیقت میں سمجھتے، تو انہیں یہ ادراک ہوتا کہ فضائی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا حل صرف باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے، نہ کہ مذاق یا الزام تراشی سے۔ اگر ہم واقعی اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں سیاست اور طنز سے باہر نکل کر، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس آلودگی کے خاتمے کیلئےعملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کسی ایک ملک کی سرحد تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا اثر پورے خطے پر مرتب ہو رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے رہنماؤں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنی عوام کی فلاح کیلئےباہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ فضائی آلودگی نہ صرف ہمارے ماحول کیلئےبلکہ ہماری صحت کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس مسئلے پر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر، مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ صرف باہمی تعاون، مشترکہ منصوبوں اور عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر ہم نہ صرف اپنے ماحول کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کیلئےبھی ایک غیر صحت مند اور آلودہ دنیا چھوڑ رہے ہیں۔
ایک ملک کی سرحد تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا اثر پورے خطے پر مرتب ہو رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے رہنماؤں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنی عوام کی فلاح کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ فضائی آلودگی نہ صرف ہمارے ماحول کیلئے بلکہ ہماری صحت کیلئے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس مسئلے پر سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر، مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ صرف باہمی تعاون، مشترکہ منصوبوں اور عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔ اس کے بغیر ہم نہ صرف اپنے ماحول کو تباہ کر رہے ہیں بلکہ اپنی نسلوں کیلئےبھی ایک غیر صحت مند اور آلودہ دنیا چھوڑ رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں