نئی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ میں لڑکیوں کو ان کا پہلا حیض اب جلد آنے لگا ہے۔ اس کی ایک وجہ ان کا زہریلی فضا میں سانس لینا ہے۔
کئی دہائیوں سے دنیا بھر کے سائنسدان اس بات کی علامات سے پریشان ہیں کہ لڑکیاں پچھلی نسلوں کے مقابلے میں بہت کم عمر میں بلوغت میں داخل کیوں ہو رہی ہیں۔
لڑکیوں کے پہلے حیض کو بعض سائنسدان بلوغت کی عمر کہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب چھاتی کی نشو و نما بھی شروع ہوتی ہے۔ جوانی کے آغاز کی نشاندہی کرنے والی یہ بنیادی تبدیلیاں آہستہ آہستہ اب جلد ظاہر ہونے لگی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آج امریکی لڑکیوں کو ایک صدی قبل زندہ رہنے والی لڑکیوں کے مقابلے میں چار سال پہلے حیض آنا شروع ہو جاتا ہے۔مئی میں نئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1950 اور 1969 کے درمیان پیدا ہونے والی لڑکیوں کو عام طور پر ساڑھے بارہ سال کی عمر میں حیض آنا شروع ہوتا تھا لیکن 2000 کی دہائی کے اوائل میں پیدا ہونے والی نسل میں یہ اوسطاً 11.9 سال تک کم ہو گیا۔
یہی رجحان دنیا بھر میں بھی دیکھا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے تشویش کے ساتھ بتایا ہے کہ 2008 اور 2020 کے درمیان آٹھ سال کی عمر سے پہلے چھاتی کی نشو و نما یا حیض کی علامات ظاہر کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں 16 گنا اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ کے شہر اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر آڈرے گیسکنز کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بلوغت کے وقت یہ کم ہوتی عمریں سماجی و اقتصادی حیثیت سے کم نمایاں گروہوں اور نسلی اقلیتوں میں اور بھی زیادہ واضح ہیں۔ اس کے صحت پر طویل المدتی اثرات ہوں گے۔‘
گیسکنز جیسے محققین بنیادی طور پر اس بات پر فکر مند ہیں کہ بلوغت کا آغاز قبل از وقت ہونے سے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے بانجھ پن کا خطرہ بڑھ سکتا، خاص طور پر اگر ان خواتین کا جلد مینوپاز ہو جاتا ہے۔ یہ ان کی زندگی کو بھی مختصر کرتا ہے۔
قبل از وقت بلوغت کو بار بار چھاتی اور بیضہ دانی کے کینسر، میٹابولک سنڈروم جیسے موٹاپا اور ٹائپ ٹو ذیابیطس، اور دل کی بیماریوں کے زیادہ خطرے سے جوڑا گیا ہے۔
سائنسدان اب بھی یہ سمجھنے ک
ی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے لیکن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں پبلک ہیلتھ کی پروفیسر برینڈا ایسکینازی کا کہنا ہے کہ ایک نظریے سے پتا چلتا ہے کہ اگر جسم کے خلیات زیادہ عرصے تک ایسٹروجن جیسے جنسی ہارمونز کی گردش کی سطح کا سامنا کرتے ہیں تو اس سے ٹیومر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ ہارمونز خلیوں کی نشوونما کو متحرک کرتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ نظریات ہیں کہ زیادہ عرصے تک ہارمونزکا سامنا کرنے سے تولیدی کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
اس کے ممکنہ سماجی نتائج بھی ہیں۔ ایسکینازی بتاتی ہیں کہ جو لڑکیاں جلدی بالغ ہو جاتی ہیں ان میں بھی جلد جنسی طور پر فعال ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’امریکہ میں ایک خوفناک صورت حال ہے جب ہمارے ہاں اسقاط حمل غیر قانونی ہونے اور مانع حمل دستیاب نہ ہونے کا رجحان ہے۔ یہ کم عمری میں زیادہ ان چاہے حمل کا باعث بنے گا، لہٰذا ان عوامل کا ملاپ بہت خوفناک ہے۔
لیکن بچوں کی نشوونما میں یہ تیزی کیوں ہو رہی ہے؟
موٹاپے سے لے کر فضائی آلودگی تک
بلوغت کے آغاز کو جسم میں دو وسیع مواصلاتی نیٹ ورکس کے متحرک ہونے سے جوڑا جاتا ہے۔ انھیں ہائپوتھیلمک-پیٹوٹری-ایڈرینل (ایچ پی اے) اور ہائپوتھیلمک-پیٹوٹری-گونڈال (ایچ پی جی) ایکسز کہا جاتا ہے۔
وہ دماغ کے ایک حصے ہائپوتھالامس کو مختلف ہارمون خارج کرنے والے گلینڈز کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ہائپوتھالامس بھوک سے لے کر درجہ حرارت پر قابو پانے تک مختلف ضروری جسمانی افعال کو منظّم کرتا ہے۔
گیسکنز کا کہنا ہے کہ 10 سے 20 سال پہلے تک سائنسدانوں کا خیال تھا کہ قبل از وقت بلوغت کی واحد وجہ بچپن کا موٹاپا ہے، جس میں چربی والے خلیات کی وجہ سے پیدا ہونے والے پروٹینز کو ایچ پی اے اور ایچ پی جی ایکسز کو متحرک کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اب لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ اس سے تو سب کچھ واضح نہیں ہوتا اور اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔
پچھلے تین برسوں میں متعدد مطالعات نے ایک اور زیادہ حیرت انگیز وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ ہے فضائی آلودگی۔
اس تحقیق کا زیادہ تر حصہ جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے کیا ہے۔ آئی کیو ایئر انڈیکس کے مطابق سیول، بوسان اور انچیون دنیا کے 100 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔
سیول کی ایوا ویمنز یونیورسٹی سے حال ہی میں شائع ہونے والے ایک جائزے میں مختلف آلودگیوں کے سامنے آنے اور بلوغت کے ابتدائی آغاز کے درمیان بار بار تعلق کی نشاندہی کی گئی ہے۔
کچھ بڑے ذمہ دار سلفر ڈائی
آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائڈ اور اوزون جیسی زہریلی گیسیں ہیں، جو یا تو گاڑیوں کے اخراج یا مینوفیکچرنگ پلانٹس کے ذریعے پیدا ہونے والے فضلے سے ہوا میں خارج ہوتی ہیں۔
2022 میں پولینڈ کے سائنس دانوں کی ایک تحقیق میں 1257 خواتین کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا تھا جس میں 11 سال کی عمر سے قبل نائٹروجن گیسوں اور حیض کے درمیان تعلق پایا گیا تھا۔
شاید اس سے بھی بڑی تشویش فائن پرٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) ہے۔ یہ ایسے ذرّات ہیں جو دیکھنے میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن تعمیراتی مقامات سے لے کر جنگل کی آگ، بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس، گاڑیوں کے انجن اور یہاں تک کہ دھول بھری، کچی سڑکوں سے ہوا میں داخل ہوتے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں گیسکنز اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا کہ امریکی لڑکیوں کو پی ایم کی زیادہ مقدار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گیسکنز کا کہنا ہے کہ ’پی ایم 2.5 کے ذرات بہت آسانی سے خون میں داخل ہو سکتے ہیں۔ آپ انھیں اپنے پھیپھڑوں میں سانس کے ذریعے اندر داخل کر لیتے ہیں اور وہ کچھ بڑے ذرات کی طرح فلٹر نہیں ہوتے ہیں۔ پھر وہ مختلف اعضا تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پی ایم 2.5 کے کچھ ذرات پلیسینٹا، بچہ دانی کے ٹشوز، بیضہ دانی میں جمع ہو رہے ہیں، وہ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔
عمارتوں کے اندر کی ہوا کے نمونوں میں پائے جانے والے ذرات کے مرکب کا استعمال کرتے ہوئے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ان باریک ذرات میں موجود کیمیکلز نشوونما میں شامل مختلف ہارمونز خاص طور پر اینڈروجن اور ایسٹروجن کے ریسیپٹرز کے ساتھ انٹریکٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ ممکنہ طور پر ایک چین ری ایکشن کو متحرک کرسکتا ہے جو بلوغت کے آغاز کا باعث بنتا ہے۔
گیسکنز کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمارا بنیادی مفروضہ تھا کہ وہ لڑکیاں جو پی ایم 2.5 کی زیادہ مقدار کا سامنا کرتی ہیں، وہ ایسے زیادہ کیمیکلز کا بھی سامنا کرتی ہیں جو ایسٹروجن کی نقل کرتے ہیں یا ایچ پی اے ایکسز اور اس کے معمول کے سگنلز کا نظام خراب کرتے ہیں۔ اس سے جسم قبل از وقت بلوغت میں جاتا ہے۔‘
اس کے علاوہ قبل از وقت بلوغت کے لیے بہت سے مختلف عوامل ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔
گیسکنز کا کہنا ہے کہ پی ایم 2.5 اور دیگر آلودگیوں سے متعلق سامنے آنے والے شواہد اس بات کی صرف ایک مثال ہیں کہ کس طرح نقصان دہ ماحولیاتی کیمیکل جسم میں داخل ہوسکتے ہیں، جس سے دور رس ہارمونل تبدیلیوں کو تحریک ملتی ہے۔
ایسکینازی کا کہنا ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا اور اس کے اتار چڑھاؤ سے بچوں کی نشوونما پر پڑنے والے اثر کے درمیان پیچیدہ تعلق کے بارے میں ہم اب بھی بہت کچھ نہیں جانتے ہیں اور یہ مائیکرو پلاسٹک اور یہاں تک کہ آب و ہوا کی تبدیلی جیسے عوامل کا کردار بہت نامعلوم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اب بھی ذرّہ برابر علم ہوا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ گرم آب و ہوا کس طرح ماہواری کو متاثر کر رہی ہے یا یہاں تک کہ سماجی عوامل کے کردار کو بھی، جو لڑکیوں کو جلد بڑے ہونے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔لیکن یہ رجحان بہت حقیقی ہے، اور یہ ماحولیاتی کیمیکلز، موٹاپے اور نفسیاتی مسائل کا ایک کثیر الجہتی امتزاج ہوسکتا ہے جو مل کر بلوغت کی عمر کو کم کر رہے ہیں۔‘