فضائی جنگی کامیابی زبردست، مگر کیا فائدہ اگر زمین پر کچھ نہ بدلے؟

پاکستان ایئر فورس کی تاریخ بے مثال حوصلے، جدوجہد اور پیشہ ورانہ مہارت کی گواہ ہے۔ 1947 میں زیرو سے آغاز کرنے والی یہ فورس آج نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی مہارت کا لوہا منوا چکی ہے۔
13 مئی 2025 تک، حالیہ فضائی جھڑپوں میں رپورٹ کے مطابق پاکستان ایئر فورس نے پانچ انڈین جنگی طیارے مار گرائے جبکہ ایک بھی طیارہ خود نہ کھویا اور انڈیا کے فوجی اہداف بغیر کسی رکاوٹ کے سخت بمباری کی — یہ بلاشبہ ایک بڑی “tactical victory” ہے۔
فضائی برتری اکثر دشمن کے رویے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور جدید جنگی نظریات میں “Air Superiority” کو فیصلہ کن عنصر مانا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ برتری سٹرٹیجک برتری (Strategic Superiority) میں نہ بدلے تو اس کا کیا فائدہ؟
مئی 2025 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان امریکہ کی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد بھی کشیدگی ختم نہیں ہوئی۔ انڈیا اب بھی واضح طور پر کشمیر کو محض “پاکستان کے زیرِ قبضہ علاقہ” قرار دے رہا ہے، اور انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدے) کو بحال کرنے سے انکاری ہے۔
ایسے میں پاکستان کی فضائی برتری بظاہر ایک ٹیکٹیکل کامیابی ضرور ہے، لیکن اس کا سٹریٹجک فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب اس سے دشمن کے مؤقف یا کردار (behavior) میں عملی تبدیلی آئے۔
اس وقت پاکستان ایئر فورس نے انڈیا کو روکنے اور اپنی صلاحیت دکھانے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے، عالمی میڈیا اور عسکری تجزیہ کار اس کی مہارت اور مؤثر کارکردگی کو سراہ رہے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر انڈیا اپنے جیوپولیٹیکل مؤقف پر پہلے کی طرح کھڑا ہے، اور امریکہ جیسے طاقتور ثالث بھی محض “مدد کی پیشکش” تک محدود رہیں تو فضائی فتوحات کا اثر محض وقتی اور بصری (optical) رہ جائے گا۔
گزشتہ روز، امریکہ کی ثالثی سے ہونے والی جنگ بندی کے بعد انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کیا۔ تقریر کا لبِ لباب واضح تھا: نہ پالیسی بدلی، نہ مؤقف۔ نہ کشمیر کے حوالے سے کوئی لچک، نہ سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کی بحالی کا اشارہ۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈیا صرف “پاکستان مقبوضہ کشمیر” پر بات کرے گا، اور دہشتگردی اب بھی “پاکستانی سرزمین سے اُبھرتا خطرہ” ہے۔ گویا زمینی حقیقت یا انڈین موقف وہیں کا وہیں ہے۔
لہٰذا 2025 کا سب سے اہم سوال یہ ہے: کیا پاکستان اپنی فضائی طاقت کو سفارتی دباؤ میں ڈھال کر انڈیا کو کشمیر، دہشت گردی اور سندھ طاس جیسے اسٹریٹجک معاملات پر مؤقف بدلنے پر مجبور کر سکتا ہے؟
ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا:
“If I can help, I would love to be a mediator. If I can do anything to help, let me know.”
(اگر میں مدد کر سکتا ہوں تو مجھے خوشی ہوگی۔ اگر کچھ کر سکتا ہوں تو بتائیں۔)
مئی 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر تنازع پر ثالثی کی پیشکش کی۔ وہ روس/یوکرین، اور اسرائیل/حماس میں جس طرح کا تصفیہ کرا رہے ہیں اُس سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے ساتھ مل کر مسئلۂِ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے کام کریں گے۔ ٹرمپ نے اس دیرینہ تنازع کو “ہزار سال پرانا” قرار دیا اور کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔
تاہم انڈین حکومت نے ٹرمپ کے ثالثی کے دعوے کو ڈاؤن پلے کیا۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے واضح کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا فیصلہ امریکہ کی ثالثی کے بغیر ہوا ہے، اور یہ دونوں ممالک کی قیادت کا آزادانہ فیصلہ تھا۔
کیا ٹرمپ تنازعات طے کرانے کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالیں گے؟ ہم جانتے ہیں کہ ٹرمپ ثالثی سے زیادہ “ڈیل میکنگ” کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اگر انڈیا سے کچھ ملا تو وہ مودی کی بات مان لیں گے، کیونکہ کشمیر میں امریکہ کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
البتہ چین کی گہری دلچسپی ہے، اور پاکستان کی کل امید اب چین ہے۔ چین کو مودی کا یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لیے اُس نے مودی سرکار کے اس فیصلے پر پاکستان کی بہت زیادہ مدد دی۔
اس وقت جنگ بندی میں بھی چین کا اہم کردار ہے جو زیادہ زیر بحاث نہیں ہے۔ چین کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور انڈیا کے نیشنل سیکیورٹی مشیر اجیت ڈوول سے رابطے میں رہے ہیں۔
“چین انڈیا اور پاکستان کے ساتھ رابطے میں رہنے اور دونوں ممالک کے درمیان مکمل اور پائیدار جنگ بندی کو یقینی بنانے اور خطے کو پرامن اور مستحکم رکھنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کیلئےتیار ہے۔”
امریکہ کے مفادات کے لحاظ سے انڈیا ایک وسیع مارکیٹ ہے جہاں امریکی کاروباری مفادات کو مکمل رسائی حاصل ہے۔ اور ٹرمپ مزید سہولتیں مانگ لیں گے۔ پاکستان کی محدود مارکیٹ اور معاشی کمزوری اسے کوئی بڑی سودے بازی کی پوزیشن نہیں دیتی۔
اب سوال یہ ہے: کیا پاکستان اپنی فضائی برتری، اپنے “Tactical Advantage” کو “Strategic Pressure” میں تبدیل کر سکتا ہے؟ کیا انڈیا کو کشمیر، دہشتگردی اور سندھ طاس جیسے بڑے معاملات پر پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟
یہ سوال نیا نہیں ہے۔ 1965 کی جنگ میں بھی پاکستان کو کشمیر کے محاذ پر برتری حاصل ہو چکی تھی۔ خبریں تو یہ آ رہی تھیں کہ آپریشن جبرالٹر کشمیر کو جلد آزاد کرا لے گا۔ لیکن بعد میں حالات کچھ اور بنے۔
جب انڈیا نے بین الاقوامی سرحدوں پر حملے کر کے لاہور، سیالکوٹ اور سندھ کے صحرائی علاقوں میں پیش قدمی کی اور پاکستانی علاقوں پر قبضہ کر لیا، پاکستان نے بھی انڈیا کے سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا، لیکن انڈیا نے کشمیر اہم سٹریٹجک علاقے چمب-جن پیر پر قبضہ کیا تھا۔
مگر انجام کیا ہوا؟ تاشقند معاہدہ:
دونوں ممالک نے مقبوضہ علاقے واپس کیے، مگر چمب-جن پیر انڈیا کے پاس رہا۔
کوئی مستقل حل نہ نکلا۔
کشمیر کی صورتِ حال وہیں کی وہیں رہی۔
گویا زمینی یا فضائی برتری اگر کسی ٹھوس جیوپولیٹیکل تبدیلی میں نہ ڈھلے تو وہ محض ایک بصری فتوحات (optical victories) کی کہانی بن جاتی ہے۔
پاکستان کو سوچنا ہوگا کہ آیا صرف جذباتی فتوحات کافی ہیں، یا پھر سٹریٹجک وژن اور جیوپولیٹیکل حکمت عملی ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں