کیا آپ کو علم ہے کہ ”کینگرو کورٹس“ کسے کہا جاتا ہے؟ نہیں علم ؟ آپ آسٹریلوی قومی جانور کینگرو کے بارے میں تو یقینا جانتے ہی ہوں گے کہ جب وہ چلتا ہے یا بھاگتا ہے تو چھلانگیں لگاتا چوکڑیاں بھرتا ہے، اُس کی بسا اوقات رفتار 25سے 35کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے، اُس کی پچھلی ٹانگوں کے قریب پیٹ کے ساتھ ایک تھیلی ہوتی ہے جس میں وہ اپنے بچے کی حفاظت کرتا ہے۔ اب کینگرو کو ہماری عدالتیں کہا جاتا ہے اور اُس کی تھیلی میں موجود اُس کے بچے کو حکومت کہا جاتا ہے، کہ وہ ہر صورت میں اپنے بچے کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کے لیے اُسے ہر دریا، ندی، طوفان کا بھی سامنا کرنا پڑے وہ اپنے بچے کو محفوظ رکھتا ہے۔ لہٰذاکینگرو کورٹس ان عدالتوں کو کہا جاتا ہے جو جلد سے جلد فیصلہ سنانے کیلئے انصاف کے اصولوں کوپھلانگ جاتی ہیں۔کینگرو کورٹ کی اصطلاح کیلفورنیا میں گولڈ رش کیس میں1849 میں استعمال ہوئی۔ پاکستان کی ان کورٹس کو کینگرو کورٹس یا اسی قسم کاکوئی بھی دوسرا نام دیاجاسکتا ہے جو کورٹ آف لاءکی تختی اور چھتری تلے انصاف کا خون کرتی رہی ہیں۔فیصلہ میرٹ سے ہٹ کر کسی سے محبت یا تعصب کے باعث کیاجائے تو یہ انصاف کا قتل نہیں تو کیا ہوگا۔بھٹو قتل کیس میں عدلیہ کو قاتل کورٹس اور” کینگروکورٹس“ بھی کہا گیا تھا۔ ملک میں اس طرح کی کورٹس کی ضرورت ہمیشہ ہر دور میں رہی ہے۔ خواہ وہ ایوب خان کا دور ہو، بھٹو کا دور ہو ، ضیاءالحق کا دور ہو یا مشرف کا ”کینگرو کورٹس“ ہمیشہ اس ملک کی ضرورت بنی رہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کینگرو کورٹس مجھ جیسے نقادوں کے ذہن میں آج کل کیوں گردش کر رہی ہیں، وہ اس لیے کہ آج کل فوجی عدالتوں سے سویلینز کے خلاف 9مئی کے کیسوں کے حوالے سے فیصلے آرہے ہیں، جیسے 21دسمبر کو 25شہریوں کو سزائیں سنائی گئیں اور گزشتہ روز 26دسمبر کو بھی 9مئی میں ملوث حسان خان نیازی سمیت60مجرموں کو 2تا10سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں۔حسان نیازی کو10‘ بریگیڈیئر (ر) جاوید اکرم کو6جبکہ عباد فاروق اورگروپ کیپٹن (ر) وقاص احمد کو دو، دو برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ 9مئی 2023کو ایک سیاسی جماعت نے احتجاج کیا، اور وہ کچھ کر دیا جو اُسے نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن اس حوالے سے کسی سطح پر بھی کہیں کوئی شفاف انکوائری دیکھنے میں آئی؟ ہم نے تو ان ڈیڑھ سالوں میں صرف من پسند آئینی ترامیم دیکھیں، فوجی عدالتوں کی سپریم کورٹس سے بحالی دیکھی اور اسیران 9مئی پر نت نئے مقدمات بنتے دیکھے۔ جبکہ دوسری جانب ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جنہوں نے تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اظہار کر کے پریس کانفرنسیں کیں اُن کی جان خلاصی ہوگئی، وہ تمام الزامات سے بری ہوگئے، وہ ایسے ہوگئے جیسے گناہوں سے پاک بچے کی ولادت ہوئی ہو۔ خیر ایسا ہوتا ہے، انسان جان کی امان کے لیے بہت کچھ کر جاتا ہے۔ لیکن عرصہ ڈیڑھ سال ہونے کو آیا ہے کہ ہمارے اُفق سے 9مئی کے سیاہ بادل نہیں چھٹ رہے۔ اور اوپر سے فوجی عدالتوں سے یہ سزائیں عوام میں مزید خوف و ہراس اور نفرت کا باعث بن رہی ہیں۔ حالانکہ سب کو علم ہے کہ ان عدالتوں میں تمام عملہ آرمی سے تعلق رکھتا ہے، اور تاریخ میں بھی ان کورٹس کی اہمیت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔
اور پھر یہی نہیں بلکہ فوجی عدالتوں کی عدم شفافیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہاں جو بھی مقدمہ جائے گا، اسے لازمی سزا دی جائے گی۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ عدالتوں نے تمام شواہد دیکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 105 لوگوں کے مقدمے وہاں گئے تھے۔ ان میں سے کس ایک کو بھی ثبوت نہ ہونے یا شبے کی وجہ سے بری نہیں کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی عدالت میں جو جج بیٹھے ہوتے ہیں، انہوں نے یہ فرض کیا ہوتا ہے کہ جو مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو اسے لازمی سزا دیں۔ اسی سے یہ کارروائی مشتبہ ہو جاتی ہے۔ اسی لیے قانونی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انہیں ماننے پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس صورتحال میں حکومت کی کیا مجبوری تھی کہ وہ سانحہ 9 مئی کے مقدمے لازمی طور سے فوجی عدالتوں میں بھیجنا چاہ رہی تھی۔ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت فوج کو خوش کرنا چاہ رہی تھی۔ اس وقوعہ پر فوج سخت ناراض ہے۔ اس روز تحریک انصاف کے کارکنوں نے متعدد ایسے مقامات پر حملے کیے جو عسکری تنصیبات ہیں، شہدا کی یادگاریں ہیں یا سیکورٹی کے لیے ضروری جگہیں ہیں۔ انہیں حساس مقامات کہا جاتا ہے۔ سیاسی احتجاج میں اگر عسکری اداروں کو ملوث کیا جائے گا تو اس سے فوج کو تکلیف ہوگی۔ اسی لیے فوج نے اس پر بہت سخت رد عمل دیا تھا۔
فوج کے شدید رد عمل کا ایک سبب یہ بتایا جاتا رہا ہے فوج کے اندر سے بہت سے لوگ اس میں ملوث تھے۔ جس پر فوج کو بہت شدید تشویش ہے۔ فوجی اہلکار یا ریٹائر فوجی، سویلین سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر فوجی تنصیبات پر حملے کروانے کے ذمہ دار تھے۔ حالانکہ ان کی وفاداری فوج کے ساتھ ہونی چاہیے تھی۔ فوجی ناراضی کے باوجود سویلین سیاسی حکومت کے لیے یہ غور کرنا ضروری تھا کہ ایک طرف فوج کو مطمئن کرنا ہے تو دوسری طرف ملک کے نظام انصاف کو بھی چلانا ہے۔ تاہم واضح ہو رہا ہے کہ شہباز شریف کی حکومت نے سانحہ نو مئی کے بعد یہ طے کیا کہ یہ اس واقعہ کی تمام سزا تحریک انصاف کو ملنی چاہیے۔ اس روز کے واقعات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف، اس کے قیادت کو سخت سزا دی جائے تاکہ سیاسی میدان صاف ہو جائے اور مد مقابل میدان سے ہٹ جائے۔ لیکن دیکھا جاسکتا ہے کہ گزشتہ فروری میں ہونے والے انتخابات میں حکومت کی خواہش کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا کہ وہ کلین سویپ کر لیتی۔ مسلم لیگ (ن) بہت سے دعوے کرتی آ رہی تھی کہ اپریل 2022 کے عدم اعتماد اور حکومتی تبدیلی کے بعد معیشت بہتر ہوئی ہے۔ جب دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تو تحریک انصاف کی پیدا کردہ ساری معاشی پریشانی ختم کر دیں گے۔
شہباز شریف حکومت تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے میں کسی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی پیدا ہوئی، عدالتی نظام پر اعتماد کمزور ہوا اور حکومت کے علاوہ بالواسطہ طور سے فوج کے ارادوں کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ ان سوالات کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حکومت فوجی عدالتوں کے فیصلوں سے انصاف کے تقاضے پورے ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دنیا چاہے جو بھی کہے، ہم نے بالکل قانون و انصاف کے مطابق فیصلے کرائے ہیں۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ ان فیصلوں کو ملک کا نظام یعنی سول سوسائٹی اور وکلا کی اکثریت بھی جائز طریقہ نہیں مانتی۔ اکثر سیاسی کارکن بھی یہی کہیں گے یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔
تو پھر میرے خیال میں حکومت اورفیصلہ کرنے والوں کو ضد اور انا چھوڑ دینی چاہیے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فوجی عدالتیں ناقابل برداشت ہیں، اور خاص طور پر جوڈیشل کمیشن بنانے تک تو یہ کسی صورت نہیں ہونی چاہییں، اس سے ہمیشہ معاشرے میں نفرت بڑھتی ہے، فاصلے بڑھتے ہیں، عوام اور سکیورٹی اداروں کے درمیان خلیج پیدا ہوتی ہے، عوام اور سکیورٹی اداروں کے درمیان عدم اعتماد بڑھتا ہے، بے یقینی بڑھتی ہے، بداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر ناقابل یقین حد تک نفرت بڑھتی ہے۔ لہٰذااگر فوجی عدالتوں سے فیصلے ضروری ہیں تو اس سے پہلے عوام کو اعتماد لیا جاتا ، اس کے لیے سب سے پہلے آزاد جوڈیشل کمیشن بنایا جاتا ۔ 9مئی کو جہاں جہاں حملے ہوئے وہاں کی فوٹیجز وغیرہ منظر عام پر لائی جائیں۔ لیکن اگر یہ سب کچھ نہیں ہیں تو جب سول کورٹس میں کئی زیر حراست افراد کے ابھی تک چالان پیش نہیں کیے جا سکے تو کیسے ممکن ہے کہ یہاں پر مقدمات چلائے گئے اور اُن پر سزائیں دی گئیں۔ اور پھر ابھی تک جتنے بھی افراد کو سزائیں ہو رہی ہیں، تو کیا ان میں سے کوئی بھی بے قصور نہیں تھا؟ سبھی قصور وار تھے؟
اگر ان میں ابھی تک ابہام ہے تو پھر معذرت کے ساتھ یہ ”فکس کورٹس“ ہیں، ملٹری کورٹس نہیں ہیں۔ یا انہیں معذرت کے ساتھ آپ ”کینگروکورٹس“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جن سے چھٹکارہ ضروری ہے،اگر ہم ان کورٹس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ملٹری کورٹ عموماً ایسی عدالت کو کہا جاتا جس میں ملٹری قوانین یا اصول و ضوابط کے تحت فوجیوں کی ملازمتوں کی سہولیات اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈسپلن کی خلاف ورزی یا بغاوت جیسے جرائم کے ارتکاب پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔نام کچھ بھی دیا جائے، ملٹری کورٹس، کورٹ مارشل یا سپیشل ملٹری ٹرائبیونلز لیکن جب کسی مقدمے میں فوج کے افسران شامل ہوں تو ا±سے عموماً ملٹری کورٹس ہی کہا جاتا ہے۔تاریخی طور پر ملٹری کورٹس آرمی ایکٹ 1952 کے تحت بنائی جاتی رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا کی انگریزوں سے آزادی سے پہلے انڈین آرمی پر انڈین آرمی ایکٹ 1911 ہوتا تھا۔ اس قانون میں پہلے سے موجود دیگر اصول و ضوابط اور ڈسپلن رکھنے اور خلاف ورزیوں پر سزائیں دیے جانے کے قواعد کو ایک جگہ جمع کر کے انھیں آرمی ایکٹ 1911 کا نام دے دیا گیا۔ اس قانون کا اطلاق صرف فوجیوں پر ہوتا تھا، نہ کہ کسی سویلین پر۔لیکن سویلینز پر فوجی بغاوت کا پہلا مقدمہ جب درج ہوا تو اُسے بھی کافی زیادہ ہائیپ ملی تھی۔ اُس وقت بھی نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں فوجی افسران سمیت چار سویلینز پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا تو وہ آرمی ایکٹ کے تحت نہیں تھا بلکہ اس مقدمے کے لیے ’راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ‘ بنایا گیا۔یہ وہی معروف مقدمہ ہے جس میں چار سویلینز یعنی معروف شاعر فیض احمد فیض، بائیں بازو کے دانشور اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما محمد حسین عطا اور بیگم نسیم شاہ نواز پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔راولپنڈی سازش کیس میں پاکستانی فوج کے 11 قوم پرست افسران پر بغاوت کا الزام عائد کرکے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ پھر ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک نیا قانون بنایا گیا تھا جو چار برس کے بعد غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس دوران ملزمان قید میں رہے۔
بہرکیف آرمی کورٹس کبھی بھی کسی بھی دور میں عوام کے لیے پسندیدہ نہیں رہی ہیں، بلکہ ان کورٹس کو مخالفین کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، ہاں آپ اگر اسے دہشت گردی کے کیسز میں استعمال کریں تو یہ ملک کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں، ورنہ شہری تو اسے کینگرو کورٹس ہی کہیں گے، خواہ آپ جو کچھ مرضی کہیں !