فیصل آباد کا تھانہ یا مقتل گاہ

میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے بہت مودبانہ ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں،مودبانہ میں نے اس لئے کہا وہ میرے مہربان ہیں،میں نے جب بھی کسی مظلوم کے لئے ان سے گزارش کی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا انہوں نے فوری ایکشن نہ لیا ہو،میں نے اپنے بیشمار کالموں میں ان کے ”سیاسی کردار“ پر بہت تنقید کی،اس پر وہ منہ بسور کر نہیں بیٹھ گئے،نہ اپنا رابطہ توڑا،ان کی اس اعلیٰ ظرفی پر مجھے ہمیشہ آصف زرداری یاد آ جاتے ہیں،پچھلی بار وہ جب صدر پاکستان تھے میں ان دنوں نوائے وقت میں لکھتا تھا،میرا ہر دوسرا کالم ان کی کچھ ناقص پالیسیوں اور مبینہ کرپشن کے خلاف ہوتا تھا،اکثر ان کا فون آجاتا،وہ بڑی محبت سے فرماتے ”آپ نے میرے بارے میں اپنی معلومات کے مطابق شاید درست ہی لکھا ہوگا،ہمیں تو صرف آپ کو اپنا دوست بنانا ہے اور اس کے لئے ہم کوشش کرتے رہیں گے“،کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ایسی قوت برداشت اور ایسا اعلیٰ ظرف ہمارے دیگر سیاستدانوں،حکمرانوں،سول،فوجی و عدالتی حکمرانوں کا بھی اگر ہوتا آج عدم برداشت کے جس بدترین کلچر نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے جو تباہ کن اثرات اور نقصانات م±لک کو ہو رہے ہیں ممکن ہے ہم اس سے محفوظ رہتے،میں اپنے مہربان آئی جی عثمان انور سے پوچھنا چاہتا ہوں”تھانوں کی عمارات کی تزئین و آرائش پر کروڑوں اربوں خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہوا اگر اندر کا بدصورت ماحول ہی تبدیل نہیں ہوا ؟ پنجاب پولیس کی روایتی بدصورتیاں تو پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں،اب اپنی جائز شکایت یا درخواست لے کر تھانے جاتے ہوئے بھی ہزار بار کوئی سوچے گا کہیں یہ نہ ہو وہ تھانے میں بیٹھا ہو حملہ آور آئیں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی مار کر چلے جائیں،فیصل آباد میں مسلح افراد تھانے میں داخل ہوئے اور حوالات میں بند اپنے مخالف تین سگے بھائیوں و دیگر افراد کو مار کر فرارہوگئے،ارے یہ کوئی معمولی واقعہ ہے جس کے اصل اور بڑے ذمہ داران کے خلاف کوئی بڑا ایکشن ابھی تک سامنے نہیں آیا ؟ کیا پنجاب کے حکمران اتنے بے حس ہیں اتنے بڑے سانحے پر چپ سادھے ہوئے ہیں ؟ بظاہر یہ سانحہ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا،اور اس پولیس کی ملی بھگت کے بغیر تو بالکل ہی نہیں ہوسکتا جس کے سربراہ کی شہرت کا مجھ سے زیادہ آئی جی پنجاب کو پتہ ہے،وہ جب لاہور میں تعینات تھا کچھ انچارج انویسٹی گیشنز بتاتے تھے ”صاحب کی منتھلی چار دن لیٹ ہوجائے ان کا پی ایس او کہتا ہے“ابھی تک صاحب کو سلام کرنے کیوں نہیں آئے ؟ “،ایسی ہی باتیں کچھ تھانوں کے انچارج انویسٹی گیشنز ماضی کے ایک اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے بارے میں بھی کرتے ہیں مگر میں اس لئے یقین نہیں کرتا اس ڈی آئی جی کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے اسے بلال صدیق کمیانہ کی بھرپور سرپرستی میسر ہے اور بلال صدیق کمیانہ کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا وہ بدیانت ہے،شکرہے اس وقت انویسٹی گیشن لاہور پولیس میں بطور ڈی آئی جی ذیشان اصغر اور بطور ایس ایس پی محمد نوید ایسے پولیس افسران تعینات ہیں جن کی ایمانداری اور اہلیت پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھی ،جہاں تک فیصل آباد شہر میں تعینات ڈی آئی جی کا تعلق ہے اس کی بددیانتیوں کے بھی بیشمار واقعات لوگوں نے مجھے شواہد کے ساتھ بتائے،میں نے کسی پر یقین اس لئے نہیں کیا کہ جس ڈی آئی جی کے بارے میں ہمارے بھائی سینئر پولیس افسر طارق عباس قریشی اچھی رائے رکھتے ہوں اوپر سے وہ ڈی آئی جی خود کو عامر ذوالفقار جیسے نفیس پولیس افسر کا شاگرد قرار دیتا ہو وہ اس قدر گھٹیا لیول کا بددیانت ہو ہی نہیں سکتا،البتہ جو نااہلی ایک انتہائی اہل و ایماندار پولیس افسر آر پی او ڈاکٹر عابد خان کی ماتحتی میں وہ مسلسل دکھائے چلے جا رہاہے اس پر مجھے حیرت ہوتی ہے،ڈاکٹر عابد خان نے بطور آر پی او فیصل آباد تین چار اضلاع کا نظام دیکھنا ہوتا ہے،ان سے میری گزارش ہے جب تک یہ سی پی او تعینات ہے اپنی زیادہ توجہ فیصل آباد پر دیں ورنہ اپنے ساتھ یہ آپ کی عزت اور ساکھ بھی داو پر لگا دے گا،فیصل آباد میں تھانے میں داخل ہو کر چار افراد کو قتل کرنے کے سانحے پر خصوصی کمیشن بننا چاہئے جس میں کچھ ایسے دیانتدار ریٹائرڈ پولیس افسران کو بھی شامل ہونا چاہئے جنہیں یہ خطرہ نہ ہو انہوں نے اگر میرٹ پر کوئی فیصلہ کیا کوئی ان کی اے سی آر خراب کر دے گا یا آئندہ انہیں کوئی اچھی پوسٹنگ نہیں ملے گی،یہ کمیشن یہ سراغ بھی لگائے کہ اس سانحے سے اپنی کتی طبیعت کے مطابق کسی افسر نے کوئی بھاری مالی فائدہ تو نہیں اٹھایا ؟ کیونکہ یہ سانحہ سر اٹھا اٹھا کر بول رہا ہے مالی فائدہ اٹھائے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا،تھانوں اور ان میں بیٹھی کرپٹ اور نکمی پولیس سے عوام کا اعتماد مکمل طور پر اٹھ رہا ہے ،نمائشی ڈراموں سے اس اعتماد کو بحال کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی،گھٹیا ذہنیت کے حامل پولیس افسران صحافیوں کا منہ بند کرنے کے لئے پہلے کچھ دوستوں سے انہیں سفارشیں اور گزارشیں کراتے ہیں بعد میں کرائم رپورٹروں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں ”میں نے اس کا منہ بند کرا دیاہے“،بندہ پوچھے تم نے کون سا ساری زندگی کے لئے اس کا منہ بند کرا دیاہے ؟،مسلسل منہ بند کرانے کے لئے تم اپنی کارکردگی بہتر کرو،اپنا ایمان زندہ رکھنے کی ہلکی پھلکی کوشش کرو،جس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے تماری اوقات سے بڑھ کر کسی پوسٹنگ سے تمہیں کوئی نوازنے لگے تم یہ کہہ کے معذرت کر لو کہ اس عہدے پر میرا حق نہیں بنتا،مجھ سے بہت سینئر اور محنتی افسران موجود ہیں انہیں آزمایا جائے،اور اگر کوئی تمہیں اپنی ٹوئٹ میں سرعام کرپٹ قرار دے اسے گول کرنے کے بجائے اس پر ایکشن لو،یہاں وزیراعظم کے سفارشی بدلتے دیر نہیں لگتی تم کس کھیت کی مولی ہو ؟ آئی جی صاحب آپ سے گزارش ہے پولیس کو مراعات آپ نے بہت دے دیں،ماتحتوں کا خیال رکھنے کی آخری حد تک آپ چلے گئے،اندھا دھند ترقیاں چاہے کسی خاص مقصد کے لئے ہی دیں ہم آپ کے اس عمل کو بھی سراہتے ہیں،اب کچھ توجہ پولیس کا قبلہ خاص طور پر اپنے پیٹی بند بھائیوں یعنی پی ایس پی کلاس سے تعلق رکھنے والے کچھ بددیانتوں اور نااہلوں کا قبلہ درست کرنے پر بھی دیں،اس کے لئے بسم اللہ فیصل آباد کے تھانے میں ہونے والے سانحے کی صاف شفاف تحقیقات کروا کر کریں،اس کے ذمہ داران کو سزا اگر آپ خود دینے کے مجاز نہیں تو جو دینے کے مجاز ہیں ان سے سفارش کریں،تاکہ تھوڑا بہت بھرم جو پنجاب پولیس کا دیگر صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں ابھی تک بہتر ہے وہ قائم رہ سکے۔

اپنا تبصرہ لکھیں