لاکھوں موبائل فونز کے جعلی ’آئی ایم ای آئی نمبر‘ کا فراڈ: فون کے چوری شدہ یا نقلی ہونے کا کیسے معلوم ہوسکتا ہے؟

موبائل فون ٹیکنالوجی کے بارے میں عام معلومات رکھنے والا ہر فرد جانتا ہے کہ دنیا میں ہر ہینڈ سیٹ یعنی موبائل کے لیے ایک الگ نمبر ہوتا ہے جسے ’آئی ایم ای آئی‘ (IMEI) نمبر کہا جاتا ہے۔

فون کے گُم یا چوری ہونے پر سب سے پہلا جو کام کیا جاتا ہے وہ یہ کہ موبائل فون کمپنی کی مدد سے اس فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر درست نمبر مل جائے تو موبائل کی لوکیشن کا پتا لگانے پر چور بھی پکڑا جاتا ہے۔

ہاں یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ چور اُسی صورت میں پکڑا جاتا ہے کہ یا آپ کا گُم شدہ موبائل اُسی صورت میں ملتا ہے کہ اگر اُس کا آئی ایم ای آئی نمبر منفرد ہو۔

آئی ایم ای آئی نمبر ہر ہینڈ سیٹ کے لیے منفرد ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اکثر گُم یا چوری ہونے والے موبائل فونز کے اس نمبر کو کلون یا تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش کے موبائل فون آپریٹر روبی کے چیف کارپوریٹ اینڈ ریگولیٹری آفیسر شاہد عالم نے 13 جون کو ڈھاکہ میں محکمہ ٹیلی کمیونیکیشن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش میں ایک آئی ایم ای آئی نمبر پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد موبائل فون استعمال کیے جا رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ہی شناخت یا آئی ایم ای آئی نمبر کے اتنے سارے فون ایک ساتھ کیسے کام کر رہے ہیں؟

آئی ایم ای آئی نمبر کیا ہے؟
آئی ایم ای آئی ڈاٹ انفو (IMEI.info) نامی ایک ویب سائٹ کے مطابق آئی ایم ای آئی یا انٹرنیشنل موبائل ایکوپمنٹ آئیڈینٹٹی نمبر 15 ہندسوں کا ایک ایسا نمبر ہے جسے موبائل فون کی تیاری کے دوران اس میں پروگرام کیا جاتا ہے۔

تاہم کچھ معاملات میں یہ 17 ہندسے ہوسکتے ہیں۔ یہ نمبر بنیادی طور پر موبائل ہینڈ سیٹ کی شناخت ہوتی ہے۔

اس نمبر کے ذریعے اس بات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ اسے کس فیکٹری میں بنایا گیا ہے اور کس علاقے میں اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ای آئی نمبر میں فون کے لیے منفرد سیریل نمبر اور مکمل نمبر کی تصدیق کے لیے ایک نمبر موجود ہوتا ہے۔

ٹیلی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے ماہر اے کے ایم مرشد نے کہا کہ ’گلوبل سسٹم فار موبائل کمیونیکیشنز یا جی ایس ایم کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ آئی ایم ای آئی کے ساتھ موبائل نمبر ہوگا۔ تاکہ سب کی شناخت ہو سکے۔‘

عام طور پر اگر ہینڈ سیٹ گم ہو جاتا ہے یا چوری ہو جاتا ہے تو اس آئی ایم ای آئی نمبر کے ذریعے ہینڈ سیٹ کی لوکیشن بھی معلوم کرنا ممکن ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ نیا فون خریدتے وقت آئی ایم ای آئی نمبر سے یہ معلوم بھی کیا جا سکتا ہے کہ آیا فون پہلے کبھی استعمال ہوا ہے یا نہیں۔

اگر آپ فون پر #06#* ڈائل کرتے ہیں تو آپ کے فون کا آئی ایم ای آئی نمبر اس کی سکرین پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ اب IMEI.info ویب سائٹ پر جائیں اور نمبر درج کریں اور ’چیک‘ کا بٹن دبائیں۔ مزید معلومات اگلے صفحے پر ظاہر ہوں گی۔

آئی ایم ای آئی فراڈ یا دھوکہ کیسے ہوتا ہے؟
آئی ایم ای آئی نمبر کو تبدیل کرنے کی صورت میں ایک درست نمبر عام طور پر ’کلون‘ کیا جاتا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر پروفیسر بی ایم مین الحسین کا کہنا ہے کہ موبائل فون میں عام طور پر دو طرح کی کلوننگ ہوتی ہے۔ ایک سم کلوننگ ہے، دوسرا آئی ایم ای آئی نمبر کلوننگ۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ فون کی شناخت کاپی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ایک خاص سافٹ ویئر کی مدد درکار ہوتی ہے۔ تاہم عام لوگوں کے لیے یہ کام آسان نہیں ہوتا۔ اس میں بہت سے تکنیکی مراحل شامل ہوتے ہیں۔

ماضی میں ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس (ڈی ایم پی) نے کچھ غیر قانونی فیکٹریوں پر چھاپہ مارا جہاں جعلی ہینڈ سیٹ بنائے جاتے تھے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے سائبر اینڈ سپیشل کرائمز ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد جنید عالم سرکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اگست 2020 میں ’ہمیں ایک جعلی فیکٹری ملی جہاں سام سنگ اور نوکیا فونز کی نقل کر کے ہینڈ سیٹ بنائے جاتے تھے۔‘

اس کے بعد انھوں نے اس طرح کے کئی اور آپریشنز چلانے کی اطلاع دی۔

’مقامی طور پر، ان ’فیکٹریوں‘ میں شاید ایک یا دو کمرے کرائے پر لیے گئے تھے۔ ہینڈ سیٹس کے کچھ حصے بیرون ملک سے خریدے اور اسمبل کیے گئے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ای آئی کی جعل سازی بٹن یا فیچر فونز میں زیادہ عام ہے۔ سمارٹ فونز میں یہ کم عام ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’فون کے شناختی نمبروں کی بڑی تعداد کو ملانے کے اور بھی ممکنہ طریقے ہیں۔‘

پروفیسر معین الحسین کا کہنا ہے کہ ’غیر قانونی طور پر باہر سے آنے والے نامعلوم یا گمنام برانڈز کے ہینڈ سیٹ اس طرح تیار کیے جاسکتے ہیں۔ وہی آئی ایم ای آئی نمبر بطور ڈیفالٹ استعمال ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر یہ پرزے کسی ’غیر ملکی‘ کمپنی سے خریدے گئے ہیں تو انھوں نے ایسا سافٹ ویئر یا ضروری سامان فراہم کیا ہو گا۔

مرشد نے کہا کہ ’ایک بار معلومات مستقل طور پر ریکارڈ ہو جانے کے بعد، اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘

لیکن اگر اسے قابل ترتیب بنایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جعلی ہینڈ سیٹس کی مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔

ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟
آج کے دور میں مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے موبائل فون ٹریکنگ کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔

پروفیسر معین الاسلام نے کہا کہ آپریٹر کمپنی کسی بھی آپریٹر کے ٹاور سے منسلک موبائل فون کا آئی ایم ای آئی جان سکتی ہے۔

لیکن اگر ایک ہی آئی ایم ای آئی نمبر والے کئی ہینڈ سیٹس ہیں تو پھر کسی مخصوص ہینڈ سیٹ کو ٹریس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پولیس افسر جنید عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پھر ہمارے لیے اصل مجرم کی شناخت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں فون ٹریکنگ کی بجائے کسی دوسری حکمت عملی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اسی وجہ سے کچھ مجرم ایسے ہینڈ سیٹ استعمال کرتے ہیں جو کلون کیے گئے ہوں۔‘

تاہم اے کے ایم مرشد کا کہنا ہے کہ ’بڑے پیمانے پر آئی ایم ای آئی فراڈ کی وجہ معاشی بد حالی ہے۔‘

جی ایس ایم ایسوسی ایشن کو ہر آئی ایم ای آئی کی رائلٹی ادا کرنی ہوگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس رائلٹی سے بچنے کے لیے، ایک ملک میں مینوفیکچررز ایک ہی آئی ایم ای آئی نمبر کے ساتھ لاکھوں ہینڈ سیٹ تیار کرتے ہیں۔‘

اس کا حل کیا ہے؟
اگر آئی ایم ای آئی ڈیٹا بیس سے اصل فون کے اسی آئی ایم ای آئی نمبر کے ساتھ کلون کیا جائے تو ہینڈ سیٹ کی معلومات ڈیٹا بیس میں دستیاب ہوگی۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر بی ایم معین الحسین کہتے ہیں کہ ’اس کے نتیجے میں، اوسط صارف کے پاس اسے سمجھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔‘

ان کو روکنے کے لیے وہ دو طرح کے اقدامات تجویز کرتے ہیں۔

پہلا، قانونی کارروائی اور دوسرا، تکنیکی اقدامات۔

ان کا خیال ہے کہ ایک بار جب فون صارف کے ہاتھ میں پہنچ جاتا ہے تو تکنیکی اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ قانونی کارروائی پر اصرار کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ معلوم کرنا ممکن ہے کہ ڈیڑھ لاکھ آئی ایم ای آئی نمبروں کی کلوننگ کے پیچھے کون ہے۔

ڈی ایم پی کے سائبر کرائم ڈویژن کے اے ڈی سی جنید عالم سرکار کا کہنا ہے کہ ’چور چوری شدہ فون فروخت کرنے سے پہلے آئی ایم ای آئی ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔‘

آئی ایم ای آئی کو حذف کرنا یا تبدیل کرنا قانونی جرم ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں