لبرل پارٹی کی جیت اور مضبوط کینیڈا

گزشتہ پیر کے روز کینیڈا میں ہونے والے عام انتخابات میں لبرل پارٹی کی لگا تار چوتھی کامیابی کی اُمید کی جا رہی تھی،وجہ وزیراعظم مارک کارنی قرار دیے جا رہے تھے اور یہ الیکشن میں ثابت ہو گیا، لبرل پارٹی اور مارک کارنی کامیاب ہو گئے،جبکہ کنزرویٹو پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار پیئر پالیؤر اور این ڈی پی کے سربراہ جگمیت سنگھ اپنی نشستیں بھی نہ بچا سکے۔یہ نتائج عوامی ترجیحات میں واضح تبدیلی کے عکاس ہیں، ممکنہ طور پر ووٹرز نے سخت گیر یا غیر مقبول پالیسیوں کو مسترد کیا اور لبرلز کو ہمیشہ کی طرح ایک نسبتاً متوازن اور قابلِ قبول آپشن کے طور پر قبول کیا، دونوں اپوزیشن رہنماؤں کی شکست ان کی قیادت پر سوالیہ نشان ہے، جبکہ لبرل پارٹی کے پاس عوامی اعتماد کو برقرار رکھتے ہوئے مستقبل کے چیلنجز سے موثر طور پر نمٹنے کا بہترین موقع ہے۔انتخابات میں لبرل پارٹی کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا کے خلاف تجارتی پابندیوں اور الحاق کی دھمکیوں کے خلاف قومی یکجہتی کا مظاہرہ تھا،مارک کارنی نے اپنی مہم میں ایک مضبوط کینیڈا کی خودمختاری اور اقتصادی استحکام کو مرکزی موضوع بنایاجسے بھر پور عوامی تائید حاصل ہوئی،عام خیال یہ ہے کہ کنزرویٹو لیڈر ٹرمپ کی کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے اور تجارتی دھمکیوں کا موثر اور مناسب جواب نہ دے سکے،اس کے برعکس امریکہ سے تعلقات کے فروغ کا بیانیہ اپنایا،جسے کینیڈین عوام نے مسترد کر دیا،جو پارٹی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، اسی طرح، این ڈی پی کے جگمیت سنگھ نے الیکشن میں پارٹی کی خراب کارکردگی کے بعدپارٹی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

یہ انتخابات کینیڈا کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہیں،لبرل پارٹی کو بھاری اکثریت نہیں ملی، تاہم اکثریت کے قریب قریب اچھی خاصی سادہ اکثریت حاصل کر سکی ہے جس کے بعد حکومت سازی کے لئے اسے کسی دوسری جماعت کا تعاون درکار ہو گا،بھاری اکثریت کے لئے 343 کے ایوان میں 172 نشستوں کی ضرورت تھی،مگر اس کے حصہ میں 169 نشستیں آئیں، کنزرویٹوز144نشستوں کیساتھ ایک مضبوط اپوزیشن کے طور پر سامنے آئی ہے،کینیڈا کی انتخابی سیاست پچھلے تین الیکشن سے متوقع اور غیر متوقع کے پھیر میں ہے، اسے سمجھنے کے لئے گزشتہ الیکشنز میں عوامی رحجان کا جائزہ لینا ہو گا،2015ء کے الیکشن میں لبرل پارٹی کے جسٹن ٹروڈو بھاری اکثریت سے وزیراعظم بنے،اس الیکشن میں لبرلز کو 184 نشستیں ملیں، 39,5فیصد ووٹرز نے لبرلزپر اعتماد کا اظہار کیا، 2019ء کے الیکشن میں لبرل کو 157 نشستوں کے ساتھ سادہ اکثریت ملی، 33,1 فیصد ووٹرز نے اعتماد کا اظہار کیا مگر کنزرویٹو کو نشستیں اگر چہ 121 ملیں مگر34,3فیصد شہریوں نے اسے ووٹ دیا، یوں عوامی مقبولیت میں کنزرویٹوز کو سبقت ملی، 2021ء کے الیکشن میں بھی 160نشستوں کے ساتھ اکثریت لبرلز کو حاصل ہوئی، مگر 32,6 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا، جبکہ 119نشستوں کے ساتھ کنزرویٹو دوسرے نمبر پر رہی مگر 33,7 فیصد ووٹرز کا اعتماد اسے حاصل رہاجس کے تحت عوامی مقبولیت میں کنزرویٹوز لبرلز سے آگے رہے۔

لبرل پارٹی کی کامیابی کے بعد اپنی فتح کی تقریر میں کارنی نے کینیڈا کی خودمختاری، قومی اتحاد اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا،کارنی نے اپنی تقریر میں کینیڈین عوام کو متحد رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا ”ہمیں متحد اور مضبوط رہنا ہوگا،ہم پالیسیوں سے اختلاف کر سکتے ہیں،ہم آپس میں اختلاف کر سکتے ہیں،آپ اوٹاوا میں آئلرز کی حمایت کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ ایک آزاد ملک ہے،لیکن جب بات کینیڈا کی سلامتی اور خود مختاری کی ہو گی تو ہم سب ایک ہی طرف ہیں، آئیے مضبوطی کا انتخاب کریں ”مضبوط کینیڈا“، امریکہ کے ساتھ روائتی تعلقات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”پرانا تعلق ختم ہو چکا،ہم ایک نئی دنیا میں ہیں جہاں ہمیں اپنی خودمختاری اور مفادات کی حفاظت کے لئے نئی حکمت عملی اپناناہوگی،کارنی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا پر دباؤ اور الحاق کی دھمکیوں پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور کہا ”ٹرمپ ہمیں توڑنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے ثابت کیا کہ ہم متحد اور مضبوط ہیں“انہوں نے اقتصادی ترقی، روزگار کے مواقع، اور قابل اعتماد تجارتی شراکت داروں کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیااور کہا ”ہم ایک ایسا منصوبہ پیش کریں گے جو آپ کی جیب میں زیادہ رقم ڈالے گا، حکومتی اخراجات کم کرنے اور کینیڈا کو توانائی کے شعبے میں سپر پاور بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔

کارنی نے اقلیتی حکومت کے طور پر کام کرنے اور تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر قومی مفاد میں فیصلے کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے انہوں نے کینیڈین عوام کو ایک نئے دور کی امید دلائی، جس میں قومی خود مختاری، اتحاد، اور اقتصادی ترقی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی،پیئر پالیؤر نے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ایک پرجوش تقریر کی، انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت جاری رکھنے اور حکومت کو جوابدہ بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”ہماری مہربانی کو کمزوری نہ سمجھیں، ہم نرم خو ہیں، لیکن فولاد سے بنے ہیں“پالیؤر نے کہا کینیڈا کی خودمختاری اور عوام کے مفادات کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

مارک کارنی ایک خوش بخت انسان ہیں،جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوئے اس سے قبل وہ کبھی کسی منتخب عہدہ پر نہیں رہے،تاہم کینیڈا اور برطانیہ کے مرکزی بینک میں گورنر کی ذمہ داری نبھاتے رہے، ٹرمپ مخالف پیغام سے اپنی انتخابی مہم چلانے والے نے اسی بنیاد پر کامیابی سمیٹی،سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ سے قبل ٹرمپ نے انہیں امریکی ریاست کا گورنر کہا،اور کینیڈا کو اپنی51ویں ریاست بنانے کے عزم کا اعلان کیا،ٹرمپ کے اسی نعرے نے کینیڈین الیکشن مہم میں اہم کردار ادا کیا،ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا”یہ زمین کتنی خوبصورت ہو گی جب بغیر کسی سرحد کے آزادانہ رسائی ہو گی“جواب میں مارک کارنی نے کہا ”یہ کینیڈا ہے اور یہاں کیا ہونا ہے اس کا فیصلہ کینیڈین خود کرتے ہیں“،پئیرپوئیلیور نے ماک کارنی کی تائید کی اور امریکی صدر کو کینیڈین الیکشن سے باہر رہنے کو کہا،سوشل میڈیا پر لکھا ”کینیڈا ہمیشہ قابل فخر،خود مختار اور آزاد رہے گا،امریکہ کی اکاو ن ویں ریاست نہیں ہوگا“۔

کینیڈین الیکشن کی دلچسپ بات ایک پاکستانی نڑاد حافظ رانا اسلم کا الیکشن میں حصہ لینا تھا،لبرل پارٹی کے امیدوار رانا اسلم سرکاری محکمہ میں انجینئر ہیں،انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے دفتر سے صرف 28اپریل کی چھٹی لی،باقی دنوں میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے،ان کا کہنا تھا کہ جیت گیا تو ملازمت سے استعفیٰ دے دوں گا ورنہ کل سے اپنی ڈیوٹی جوائن کر لوں گا، کینیڈین الیکشن میں 50سے زائد پاکستانیوں نے بھی حصہ لیا،15پاکستانی لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار تھے، نیو ڈیموکریٹ نے بھی دس پاکستانیوں کو امیدوار بنایا۔ رانا اسلم کے علاوہ لبرل کے پلیٹ فارم سے جیتنے والے باقی پاکستانی نژاد میں شفقت علی،ضمیر زبیری،یاسر نقوی کے علاوہ دو خواتین اقراء خالد اور سلمیٰ زاہد ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے تین پاکستانی نژاد امیدوار، محمد اسحاق،ندیم اکبر کھٹانہ اور ٹم اقبال کامیاب نہ ہو سکے مگر انہوں نے قابل ذکر ووٹ حاصل کئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں