لندنی بھائی بنام اڈیالہ بھائی

نائن زیرو، لندن
بھائی اڈیالہ!!
آداب، تسلیمات، آج آپ کی یاد نے بہت ستایا اس لئے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا کہ آپ سے کھل کر دل کی باتیں کروں۔ اڈیالہ بھائی آپ ہوں یا میں لندن بھائی ہم دونوں کے بہت سے دکھ مشترک ہیں۔ آج آپ مقبول ہیں توکبھی میں بھی کراچی اور حیدر آباد میں آپ سے زیادہ مقبول تھا آپ کو تو لوگوں نے صرف ووٹ دیئے میرے لئے لوگ جان لے بھی لیتے تھے اور دے بھی دیا کرتے تھے۔کراچی کے لوگ میری روحانی بلندیوں سے واقف تھےاسلئے مجھے پیر صاحب بھی کہا جاتا تھایہی مرتبہ اور مقام آپ کا بھی ہے آپ کی تو اہلیہ خود پیرنی ہیں، ہم دونوں کا آغاز بھی ایک جیسا ہے اور خدا نہ کرے انجام بھی ایک جیسا ہو۔ مجھے بھی شروع میں مقتدرہ نے گود میں اٹھائے رکھا کیونکہ شہری سندھ میں پیپلز پارٹی کا پتہ صاف کرنا تھا۔ بھائی اڈیالہ آپ بھی مقتدرہ کی ٹکسال کے سکے ہیں مقتدرہ نے پیپلز پارٹی اور نون کو گندا کرنے کے بعد آپ سے ان کیخلاف پراپیگنڈا کروایا تاکہ وہ بدنامی کے گڑھے میں دفن ہو جائیں۔ ہم دونوں کو کسی کی نظر لگ گئی ،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہو۔

عمی بھائی!ہم میں بہت غلط فہمیاں پیدا کی گئیں آپ نے میرے خلاف لندن آکر مقدمات کئے مجھے علم ہے کہ آپ کو سارا مواد طاقتوروں نے دیا تھا اس وقت آپ ان طاقتوروں کا مائوتھ پیس بنے ہوئے تھے اب آپ اور میں دونوں ہی مقتدرہ کے ناپسندیدہ بن چکے ہیں، میرے انگلی کے اشارے پر کراچی بند ہو جایا کرتا تھا اب میں لوگوں کو چیخ چیخ کر ، رو رو کر التماس کرتا ہوں مگر وہ میری بات پر عمل نہیں کرتے ۔پہلے یہ ہزاروں کی تعداد میں گھنٹوں میری تقریریں سنا کرتے تھے اب 100سے زیادہ میرے سامعین نہیں ہوتے، مجھے علم ہے کہ لوگ آپ کی ادائوں پر جان نچھاور کرتے تھے آپ نے پشاوری چپل کیا پہنی اچھے خاصے آرام دہ جوتے چھوڑ کر انصافیوں نے کپتان چپل اپنا لی۔ ابھی میں نے نوٹ کیا کہ آپ کیلئے خون دینےکا دعویٰ کرنے والے اکثر انصافی گھروں تک سے نہیں نکلے ۔مجھے علم ہے کہ کراچی میں میرے ووٹ اب بھی اکثریت میں ہیں لیکن وہ میرے لئے باہر نکلنے کو تیار نہیں، ایسی خاموش اکثریت جائے بھاڑ میں جو حامی تو ہوتی ہے لیکن قربانی نہیں دیتی۔ آ پ کا بھی یہی حال ہے ، آپ کے ووٹر بہت ہیں یہ وہ خاموش اکثریت ہے جو کبھی آپ کیلئے گھروں سے باہر نہیں نکلے گی آپ کی ووٹ پاور تو ہے سٹریٹ پاور نہیں ہے۔بھائی ! گو ہماری کبھی بنی نہیں لیکن قدرت کا حسین اتفاق ہے کہ ہماری ایک اور قدر مشترک ہے آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی لندن میں رہتے ہیںاور وہاں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، میری اکلوتی بیٹی بھی لندن میں ہے اور مجھے باقاعدہ ملنے آتی ہے، میں نے سنا ہے کہ اب آپ کا اپنے بچوں سے رابطہ نہیں ہے اگر آپ کہیں تو میں اپنے کسی خاص بندے کے ذریعے ان بچوں سے آپ کا مستقل رابطہ کرا سکتا ہوں اس حوالےسے جب بھی میری خدمت کی ضرورت ہو آپ اشارہ کریں گے تو یہ کام ہو جائے گا۔

اڈیالہ بھائی! پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا، میں جو کبھی شہری سندھ کا بے تاج بادشاہ تھا آج لندن میں اپنی سیاسی تنہائی کے دن گزار رہا ہوں اور آپ جو کبھی پورے عالم اسلام کے عظیم لیڈر کہلوانا چاہتے تھے آج اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی میں بند ہیں۔ اس عروج اور زوال پر لوگ طنز بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کا دائمی اور سب سے بڑا گناہ اپنے ہی خالق سے لڑائی ہے آپ دونوں کو فوج نے پیدا کیا ، آپ کی پرورش کی، اقتدار دلوایا اور آپ انہی سے لڑ پڑے یہ تو بالکل بے وقوفی تھی۔ مجھے یہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ میں مقبولیت کے تکبر میں آگیا تھا میں صرف ’’میں‘‘ کو اہمیت دیتا رہا اور میرے فیصلے مجھے مقبولیت سے کہیں دور لے گئے میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔

قسمت بھی عجیب چیز ہے ،اس زندگی میں انسان کو کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے یہ فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، مقبول صدیقی سب صرف میرا دم بھرتے تھے اب ہر روز میرے خلاف بیان دیتے ہیں، مجھےسیاسی لاش بنا کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی وفادار نہیں نکلا، کوئی بھی دلدار نہیں ہے سب غدار ہی غدار ہیں۔ عمران بھائی آپ کا المیہ بھی یہی ہے کہ آپ کی ٹیم بھی بظاہر آپ کا دم بھرتی ہے مگر اندر سے اس کی تاریں کہیں اور ملی ہوئی ہیں آپ کو غلط رپورٹیں دی جاتی ہیں آپ کو سچ نہیں بتایا جاتا بلکہ سچ تو آپ سے چھپاپا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشکل وقت آیا تو بھٹو کے ساتھیوں حفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو نے نئی شادیاں رچالیں۔ میرا مشکل وقت آیا تو میرے سارے ساتھی مجھے پاگل قرار دینے لگے حالانکہ پہلے گھٹنوں بیٹھ کر میرے لیکچر سنا کرتے تھے، پہلے میری دانش کو بصیرت کہتے تھے اب کہنے لگ پڑے ہیں کہ اس نے تو ہمیں مروا دیا۔ ڈیئر اڈیالہ بھائی یہی صورتحال آپ کو بھی درپیش ہے لیڈر شپ اب آپ کی دانش اور قوت فیصلہ پر شک کرتی ہے آپ کو اپنے اقتدار کے راستے کی رکاوٹ سمجھتی ہے فی الحال ان سب کو آپ کے ووٹ بینک کی ضرورت ہے اسلئے آپ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں مگر ذہنی طور پر آپ سے دور جا چکے ہیں۔

ڈیئر اڈیالہ بھائی ! میرے اور آپ کے دکھ مشترکہ ہیں ،ہم دونوں کو مقتدرہ کی ناراضی کا سامنا ہے ، میرا تو انہوں نے کچھ نہیں چھوڑا، نہ گھر بار، نہ ساکھ اور نہ ووٹر، اب آپ کے پیچھے ہیں اگر آپ کی مصالحت نہ ہوئی تو پھر تیار رہیں نہ گھر بار رہے گا، نہ شادی رہے گی اور نہ ہی ساکھ اور ووٹر۔ پاکستانی مقتدرہ بہت ہی طاقتور ہے اس پر کوئی روک ٹوک نہیں وہ پنجابی میں کہتےہیں نا!!

طوطیا من موطیا توں ایس گلی نہ جا
ایس گلی دے جٹ بھیڑے لیندے پھائیاں پا

ان سے لڑنے کا ارادہ ترک کردیں اور پہلے کی طرح ان سے ’’اک مِک‘‘ہو جائیں۔ ورنہ آپ کی پارٹی پھرسے توڑنے، آپ پر نئے الزامات لگانے، پختونخوا میں حکومت کا خاتمہ کرنے اور دوسرے اقدامات کی تیاری کی جارہی ہے۔

ڈیئر عمی بھائی!میرا تو کچھ نہیں رہا، نہ سیاست، نہ دولت، نہ شہرت۔ آپ کو مشورہ ہے کہ لڑائی وغیرہ چھوڑدیں، جس لشکر کے ساتھ آپ مل کر لڑنے کا سوچ رہے ہیں اس لشکر کا ایک ایک سپاہی آپ کے دشمنوں سے ملا ہوا ہے وقت آنے پر آپ کو سب کچھ خود ہی معلوم ہو جائے گا۔آخر میں عرض ہے کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو، مذاکرات ہوں نہ ہوں، یہ بات یاد رکھنا کہ آپ کو حکومت بھی مل جائے تو آپ کو مقتدرہ سے معافی ملنا مشکل ہے، پیپلز پارٹی کو معافی لیتے لیتے 30 سال لگ گئے اب بھی اس پر شک کیا جاتا ہے۔ نواز شریف کو معافی تب ملی جب اس کی سیاست ہی معدوم ہوگئی ،آپ کو بھی زندگی دینا پڑے گی پھر معافی ہوگی ۔ بھٹو نے کہا تھا کہ ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ بھولتا نہیں ہے۔

والسلام : زخم خوردہ لندنی بھائی

اپنا تبصرہ لکھیں