ان دنوں قومی سطح پر ذہنی انتشار کا یہ عالم ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھیں اور کیا چھوڑیں۔ کہاں سے شروع کریں اورکہاں ختم کریں۔ چلیں اپنے گھر سے شروع کرتے ہیں۔ میری رہائش گاہ کے ایک جانب پارک روڈ F-8 اسلام آباد ہے جبکہ دوسری جانب ایک مقتول وزیراعظم کا گھر۔ میں اس گلی کے ویسٹرن سائیڈ میں رہتا ہوں جبکہ بی بی شہید اسی گلی کی ایسٹرن سائیڈ میں رہائش پذیر تھیں۔ سڑک کی دوسری جانب ہماری قابلِ فخر ایئر فورس کا ہیڈ آفس ہے جہاں F16 اڑانے والے شاہین بیٹھتے ہیں۔ میں نے امریکہ کا بیچا ہوا F16 فائٹر جیٹ اندر باہر سے دیکھ رکھا ہے۔ مجھے اعتراف کرنے دیں کہ میں F16 نہیں چلا سکتا۔ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ LLB کے کورس میں F16 چلانے کا طریقہ نہیں پڑھایا جاتا۔ عدالت و وکالت کی دنیا میں یہ آؤٹ آف سلیبس ہے۔ اسلام آباد والے گھر سے میرے آبائی گھر کا فاصلہ 45سے 50منٹ کا ہے۔ کہوٹہ‘ جہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کا دیا ہوا KRL ہے۔ KRLمیری UC میں واقع ہے۔ میں سکول میں تھا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام سُنا اور ان کے کارنامے پڑھنا شروع کیے۔ اس کے باوجود ایٹمی ٹیکنالوجی کے بارے میں مجھے کچھ پتا نہیں۔ بس موٹی موٹی چیزوں کے نام جانتا ہوں جیسے یورینیم اور سینٹری فیوج وغیرہ۔ میری اس لاعلمی کی واحد وجہ یہ ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی LLB کے کورس میں پڑھائی جاتی ہے نہ ہی تحصیل تعلقہ کورٹس‘ ڈسٹرکٹ جوڈیشری‘ پانچ ہائی کورٹس‘ شریعت کورٹ یا سپریم کورٹ کی پریکٹس میں ایٹمی ٹیکنالوجی سکھائی جاتی ہے۔ میری دنیا قانون‘ انصاف‘ پارلیمان اور انسانی حقوق کے گرد گھومتی ہے۔ اس لیے ایٹمی ٹیکنالوجی سائنسدانوں کا میدان ہے‘ وکیلوں اور ججوں کا ہرگز نہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے جب ایک مشہور استادکو افغانستان کا اقتدار ملا‘ جو میرے بھی اچھے ملنے والے تھے۔ استاد نے پاکستان میں موجود اپنے تعلق دار؍ دوستوں کو کابل کے باغِ بالا میں ہونے والی اپنی حلف برداری کی تقریب میں لے جانے کے لیے جہاز بھجوایا۔ آریانہ ایئر لائن کی اس خصوصی فلائٹ میں ہم بگرام ایئر پورٹ پر اترے‘ جہاں سے روس کے چھوڑے ہوئے ٹینک میں بیٹھ کر باغِ بالا کابل پہنچے۔ رات کو ہمارے اصرار پر روٹی پلانٹ‘ یونیورسٹی اور پل چرخی کے علاقے دیکھنے کے لیے پھر ٹینک کی سواری مل گئی۔ پشاور کے پروفیسر مولانا ابراہیم بھی ہمراہ تھے۔ ٹینک سے اتنے قریبی تعلقات کے باوجود بھی آپ یقین کریں میں ٹینک بالکل بھی نہیں چلا سکتا کیونکہ میرے لیگل پروفیشن میں ٹینک چلانے کی تربیت ہر گز نہیں دی جاتی۔ اللہ کی خاص مہربانی سے میرے پانچ بچے MBBS ڈاکٹر ہیں۔ میڈیکل پروفیشن سے اتنا قرب ہونے کے باوجود میں دوسروں کا تو کیا‘ اپنا علاج بھی خود نہیں کر سکتا۔
ابھی میں نے منطق کی حقیقی دنیا سے‘ جو غیرسیاسی آپ بیتیاں بیان کیں‘ اسے فلسفے اور نفسیات کی آسان زبان میںذات کا عرفان یا انٹرا سپیکشن کہہ سکتے ہیں۔ پچھلے تین سال سے اس فلسفے کا یہ آزمودہ نسخہ ہم کہیں گُم کر بیٹھے ہیں۔ بیانات‘ تصاویر اور تقاریر کی حد تک ہمیں ایک سلور بُلٹ کی تلاش ہے جس کے ذریعے سے ہم ایسا نشانہ لگا سکیں کہ امن و امان خود ہی لوٹ آئے۔ گہری کھائی میں گری ہوئی معیشت اُٹھ کر سپرانٹ لگا دے۔ جیتے ہوئے ووٹر ہارے ہوئے ٹولے کو اپنا رہبر تسلیم کر لیں۔ ملک کے ماورائے آئین نظام کو سارے لوگ آئینی مان لیں۔ چیخ چیخ کر نوجوان کہیں کہ دنیا کا انٹرنیٹ زمین پہ چلتا ہے‘ ہمارا انٹرنیٹ ساتویں آسمان پہ اُڑ رہا ہے۔ بجلی‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ مٹی کا تیل دنیا میں سب سے سستا ہم کو بیچا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے انتہائی خفیہ اور پوشیدہ امراض کے مریض پاکستانی ہسپتالوں میں علاج کرانے کے لیے لائنوں میں لگ کر آرہے ہیں۔ انڈسٹری کاگولڈن پہیہ دن رات دوڑے چلا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا پروپیگنڈا شرپسندی ہی نہیں بلکہ دہشت گردی بھی ہے۔ کھیت مزدور‘ منڈی مزدور‘ دیہاڑی دار اور کسان‘ ڈالروں کی بارشِ حمام میں سب ننگے ہیں۔ دنیا بھرمیں پاکستان کے نظامِ حکومت کو بطور ”ماڈل گورننس‘‘ اپنانے کے لیے دُور دیس کے لوگ پاکستانی سرکار کی اجازت کے شدت سے منتظر ہیں جبکہ پاکستان کے اصل قومی مسائل یہ ہیں:
پہلا قومی مسئلہ: پرائمری اور مونٹیسری کے بچوں کی طرح 25 کروڑ لوگ صبح سویرے لائنوں میں کھڑے ہو کر ابو العصر حفیظ جالندھری کے لکھے ترانے کا ایک جملہ لہرا لہرا کر گائیں جو یہ ہے:
پاک سر زمین کا نظام‘ قوتِ اخوتِ عوام
یہاں شاعر کی مراد قوتِ اخوتِ عوام ہی ہے۔ اس پر شک کر نے والا باغی کہلائے گا یا اٹھا لیا جائے گا۔
دوسرا قومی مسئلہ:کُل ملکی آبادی کا 65 یا 67 فیصد حصہ‘ جو نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل ہے‘ ان کو میرٹرو کریسی کی اصل روح سے روشناس کر ایا جائے جس کے لیے ہر شعبے میں ایک ہی محکمے سے سربراہ مقرر ہو۔ جس کو بیس‘ پچیس لاکھ تنخواہ‘ پچھلی پوری پنشن‘ نیا سرکاری گھر‘ نئی سرکاری گاڑی اور نئے زمانے کی نئی مراعات دی جائیں تاکہ وہ میرٹ کی چلتی پھرتی زندہ مثال بن جائے۔ دوسرے قدم کے طور پر وہ سارے جواں عزم اور جواں ہمت لوگ جن کو بدقسمتی سے 60‘ 62 یا 63سال کی عمر میں ریٹائر ہونا پڑ جاتا ہے ان کو فوری ایکسٹینشن دے دی جائے۔ یہ رعایت کم از کم تین سال کے لیے یا عظیم تر قومی مفاد میں تادمِ مرگ بھی ہو سکتی ہے تاکہ 65سال سے جو عظیم الشان منصوبوں کے خواب ان بزرگوں نے سینے میں بچا رکھے ہیں وہ اپنی زندگی میں ان کی تعبیر دیکھ لیں۔
تیسرا قومی مسئلہ: جلسے‘ دھرنے‘ مظاہرے‘ تقاریر روکنا ہے۔ اس مسئلے کو وفاقِ پاکستان نے بخوبی حل کر لیا ہے۔ ہر تقریر کرنے والے MNA‘ MPA اور وکیل کے خلاف بغاوت‘ ملکی سالمیت کے خلاف سازش‘ دہشت گردی اور ہاتھ میں پستول پکڑ کر پولیس پر سیدھی فائرنگ‘ ایک ہی وقوعہِ جلسہ کے پانچ‘ چھ مختلف پرچے مختلف تھانوں میں کاٹ کر سب کو اُٹھا لیا جائے۔ جو خود گرفتاری دینا چاہے اسے بھی ہتھکڑی کے زیور سے سرفراز کریں۔ اس کی ویلفیئر اور صحت کے لیے چار‘ پانچ مشٹنڈے مل کر اسے تھوڑا سا گھسیٹیں اور پھر گردن سے دبک کر گاڑی میں ڈال لیں۔ اس آخری اور اہم ترین قومی مسئلے کے حل کے بعد سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ بین الصوبائی استحکام قائم کرنے والی سلور بُلٹ ہمیں مل گئی۔ مبارکاں! بھاہ جی مبارکاں!
پانچ‘ چھ ہفتے قبل عمر ایوب کا مقدمہ لڑنے کے لیے ATC گوجرانوالہ گیا۔ آگے کافی کیمرہ مین تھے جنہیں دیکھ کر ایک پُرجوش وکیل نے اس قدر قربت کا قدم رنجہ فرمایا کہ میرا دایاں بوٹ اُتر گیا۔ کچھ سینئرز نے اسے روکا مگر اسے کیمرے میں خوشحالی کی سلور بُلٹ نظر آرہی تھی۔ دنیا کیمرے کی آنکھ سے بہت بڑی ہے۔