پاکستان دنیا کی وہ واحد بدقسمت ری پبلک ہے جہاں سیاسی جدوجہد کے ذریعے معرضِ وجود میں آنے والے ملک کو آئینی بحران نے توڑ ڈالا۔ یہ آئینی بحران کسی اور نے نہیں بلکہ ماورائے آئین حکمرانی کے شوقین کرداروں نے پیدا کیا تھا۔ 14 اگست 1947ء سے لے کر 12 اپریل 1973ء تک عوام کی براہِ راست منتخب کردہ کسی اسمبلی کو آئین بنانے کی اجازت نہ دی گئی۔ اس دوران محرومیاں نفرت میں بدل گئیں اور شکایتیں بغاوت میں تبدیل ہو گئیں‘ لیکن جن طبقات کے منہ کو پاکستان کے وسائل کا خون چوسنے کا چسکا پڑ گیا تھا‘ آئین ہمیشہ اُنہیں اپنا بدترین وِلن نظر آتا رہا۔ 1970ء کے عشرے میں پہلی بار اُمید پیدا ہوئی کہ وَن مین وَن ووٹ کے اصول کے تحت اقتدار عوام کی مرضی سے منتخب ہونے والے نمائندوں کے حوالے ہو جائے گا۔ چنانچہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں عام انتخابات کی انتخابی مہم میں عام ووٹر نے انتہائی پُرجوش طریقے سے حصہ لیا۔ اسے اس الیکشن کے ذریعے اپنی طاقت کا شعور ملا۔ مغربی پاکستان کی بہت کم پارٹیوں نے مشرقی پاکستان میں امیدوار کھڑے کیے جبکہ مشرقی پاکستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے مغربی پاکستان میں امیدوار بھی کھڑے کیے اور جلسے بھی منعقد کیے‘ جن میں سوشلسٹ لیڈر مولانا عبدالحمید بھاشانی‘ شیخ مجیب الرحمن‘ پروفیسر غلام اعظم اور نور الامین شامل تھے۔ یہاں یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ڈھاکہ سرنڈر کرنے کے بعد بھی وہ تجربات تسلسل سے جاری ہیں جن کی وجہ سے آدھے سے زیادہ ملک ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا۔ آئیے اس دردناک تاریخ کے چند شرمناک ابواب پر نظر ڈالیں۔
پاکستان پر سرکاری ملازموں کے قبضے کا پہلا شرمناک باب: قیامِ پاکستان کے ایک سال کے عرصے کے اندر سرکاری ملازموں نے‘ جو فرنگی دور کے بھرتی کردہ تھے‘ عوامی خواہشات کے بجائے محلاتی سازشوں کے ذریعے پاکستان کو چلانا شروع کردیا۔ ان میں سے پہلی مبینہ سازش قائداعظم کی ایمبولینس میں پٹرول ختم ہونے کی کہانی سے شروع ہوئی اور آخری سازش لیاقت علی خان کے قتل پر ختم ہوئی۔ یوں نئے نویلے پاکستان کے پہلے پنج سالہ دور میں غیرمنتخب سرکاری ملازموں نے پاکستان پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا۔ یہیں سے ہماری بربادیوں کی داستان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا جو 1970ء کے عام انتخابات تک‘ 23سال مسلسل چلتا رہا۔ اس دوران تین مارشل لا بھی لگائے گئے۔ یہ مارشل لا نان سویلین مقتدرہ اور عسکری طاقتوں کے درمیان کھلی لڑائی تھے جس میں ملک دولخت ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔
پاکستان پر سرکاری ملازموں کے قبضے کا دوسرا شرمناک باب: یہاں سے آگے یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کا مکروہ کردار شروع ہوتا ہے جس کی تفصیل ہمیشہ قوم سے چھپائی گئی۔ عبوری حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اور فائنل حمود الرحمن کمیشن رپورٹ‘ دونوں میں پوری داستان شہادتوں اور سارے ثبوتوں سمیت لکھی ہوئی کیبنٹ ڈویژن میں موجود ہے‘ جس کے کچھ حصے بھارت سمگل ہو کر پبلک ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے اس بارے میں درجنوں کتابیں لکھیں۔ پاکستان کے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ملک کے دو ٹکڑے ہونے والے سب سے بڑے قومی سانحے پر ہمارے اپنے ہاتھوں سے لکھی تاریخی دستاویز پبلک کرنے سے ہماری سلامتی اور ملکی مفاد کو کون سا نقصان پہنچے گا؟ جن قارئین کو Objective Comparative History سے دلچسپی ہے وہ اس موضوع پر تین بنیادی کتابیں ضرور پڑھیں۔ پہلی کتاب کام نام ہے: The Bangladesh War‘ جسے میجر جنرل فضل مقیم خان نے پاکستان کے نقطۂ نظر سے لکھا۔ دوسری کتاب سرنڈر ایٹ ڈھاکہ‘ میجر جنرل لچھمن سنگھ کی ہے جس میں بھارتی کمپین برائے قیامِ بنگلہ دیش کی تفصیلات ملتی ہیں۔ تیسری کتاب The Liberatioin War of Bangladesh ہے جو رونق جہاں کی تصنیف ہے‘ جس میں بنگالیوں کا نقطۂ نظر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے گرائیں سابق آرمی چیف جنرل ٹِکّا خان کی کتاب The Memoirs of General Tikka بھی سقوطِ ڈھاکہ کا باعث بننے والے مختلف واقعات پر روشنی ڈالتی ہے۔ بی بی سی‘ وِکی پیڈیا اور مختلف سوشل میڈیا سائٹس اس تاریخ کے تقابلی مطالعے کا معقول ذریعہ ہیں۔ تاریخِ پاکستان پر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جب عمران خان نے جنرل یحییٰ خان کے کرتوتوں کا نام لے کر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا تو اس سنجیدہ معاملے پہ بھی (زبانِ عام میں چور تہائی) حکومت نے قیدی نمبر 804 کے خلاف غداری کے مزید پرچے درج کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کر کے میڈیا مہم چلائی۔ صرف میڈیا مہم نہیں‘ ساتھ ساتھ پنجاب اور وفاق کی کابینہ‘ جو انتخاب ہارے ہوئے لشکروں پر مشتمل ہیں‘ کے اجلاس بلا کر ملک دشمنی کی FIR’sکٹوانے کے فیصلے بھی کیے۔
پاکستان پر سرکاری ملازموں کے قبضے کا تیسرا شرمناک باب: یہ باب 1977ء میں جنرل ضیاء کے ساڑھے گیارہ سالہ مارشل لاء سے شروع ہوا۔ اس مارشل لاء نے باقیاتِ مارشل لاء کی باقاعدہ پنیری لگائی۔ اُس دور کے مقتدر سیاستکاروں اور سیاسی جرنیلوں کی اولادیں ارب پتی نہیں بلکہ کھرب پتی بن گئیں۔ قومی وسائل کی لوٹ مار کا یہ سلسلہ ساڑھے نو سال جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں بھی آگے بڑھتا رہا۔ جو بچا تھا وہ لُٹانے کے لیے جنرل باجوہ کی سیاسی ڈاکٹرائن آ گئی۔ انہوں نے ملک کی فیڈریشن کو متفقہ آئین کے بجائے من مرضی کے مطابق چلانے کا چلن رائج کیا۔ وطن کے طول و عرض میں غدار بنانے کی نئی فیکٹریاں لگ گئیں۔ آئین کے ساتھ ساتھ ملک کی نوجوان آبادی کو قبضہ گروپ نے نیا وِلن بنا ڈالا۔ بنیادی انسانی حقوق کہیں گُم ہو گئے۔ گمشدہ افراد جو کبھی صرف دور دراز علاقوں سے اُٹھائے جاتے‘ اب یہ عالم ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اسلام آباد کی ہر گلی سے ہر روز بندہ غائب کیا جارہا ہے۔ ایسے میں دوربین تو کیا خورد بین سے بھی آئینی نظام تلاش کرنا ممکن نہیں رہا۔ جس قدر کھلا ریاستی تشدد اپنے شہریوں پر کیا جا رہا ہے‘ اس سے شہ پا کر آدھی رات کو آئینی نظامِ عدل اور دستوری حقوق لپیٹنے والی ترامیم کے لفافے آگئے۔ حکمرانی حکومتی رِٹ ریاست کی بڑی دیواروں کے پیچھے محصور ہو کر رہ گئی۔ اس تباہ کُن طرزِ حکمرانی سے ایک ہی سوال ابھر کر سامنے آیا ہے‘ کیا متفقہ آئین کے بغیر فیڈریشن چل سکتی ہے؟
آپ جو کچھ بھی کہیں رات ابھی باقی ہے
دن کے بے روک اُجالوں میں کمی باقی ہے
ڈس رہا ہے گُل و لالہ کو خزاں کا موسم
طائروں میں ابھی بے بال و پری باقی ہے
کوئی شوشہ کسی اندازِ نوی سے چھوڑیں
شہر میں فہم و فراست کی کمی باقی ہے
جہد و ایثار غلط‘ ولولۂ شوق فضول
اس قبیلے میں فنِ لابہ گری باقی ہے
آج ہی ایک سٹڈی سامنے آئی جس کے مطابق پاکستان کی معیشت نے 76 سالوں میں 26 بار کریش کیا۔ ہم نے ہر دفعہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لے کر قوم کو بتایا کہ ہم ایشین ٹائیگر بن گئے۔ 77ویں سال میں پھر سات ارب ڈالر کا قرض آئی ایم ایف سے لے لیا۔ کیا اس قرض سے فیڈریشن چلے گی یا متفقہ آئین سے؟