28 جون کو ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سابق صدر محمود احمدی نژاد نے بھی امیدوار بننے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ایک بار پھر سے وہ خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔
محمود احمدی نژاد 2005 میں پہلی بار ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے اور انھوں نے 2013 میں یہ عہدہ چھوڑا تھا۔
2017 میں محمود احمدی نژاد نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کروائے تو امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے والی شوریٰ نگہبان نے انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس الیکشن میں بھی وہ حصہ لے سکیں گے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب جلد ہی مل جائے گا کیونکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حتمی امیدواروں کی فہرست 11 جون کو شائع کی جائے گی۔
لیکن ایران کے رہبر اعلی سمیت مسلسل دو امریکی صدور، ایران کی تمام حزب مخالف گرین موومنٹ، یورپی اتحاد کے زیادہ تر ممالک اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈروں سے لے کر قدامت پسند اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد سے لڑائیاں مول لینے والے محمود احمدی نژاد کون ہیں؟
محنت کش لوہار کے سپوت جو گورنر بنے
وہ تہران کے قریب گامسر میں ایک لوہار کے گھر پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے تہران یونیورسٹی سے ٹریفک اور ٹرانسپورٹ میں ڈاکٹریٹ کیا۔ اسی دور میں انھوں نے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک رسالہ بھی شائع کیا، جو ایک طرح سے سیاست کے میدان میں ان کے بعد کے رویے کی طرف اشارہ کرتا تھا۔
محمود احمدی نژاد اکبر ہاشمی رفسنجانی کی صدارت کے آغاز میں صوبہ اردبیل کے گورنر بن گئے۔ اس سے قبل وہ ایران کے مغربی آذربائیجان صوبے میں سرکاری عہدوں پر تعینات رہ چکے تھے۔
جب ہاشمی رفسنجانی اقتدار کے عروج پر تھے، تو احمدی نژاد نے ان کی تعریف اس طرح کی تھی: ’ہاشمی کا نام اسلامی انقلاب کی تاریخ میں شاندار الفاظ کے ساتھ درج کیا جائے گا۔‘
لیکن یہ تعلق بعد میں سیاسی عداوت میں بدل گیا اور محمود احمدی نژاد نے ہاشمی رفسنجانی پر کافی تنقید کی۔
محمود احمدی نژاد کے لہجے اور الفاظ میں یہ تبدیلی تب سے ان کی شخصیت کے اہم عوامل میں سے ایک بن گئی ہے۔ لیکن جو بات وہ بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ خود اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاستدانوں کے شاگردوں، ساتھیوں میں سے تھے اور اس حکومت میں اقتدار کا حصہ تھے۔
تہران کے میئر
محمود احمدی نژاد کی سیاسی زندگی کا دوسرا مرحلہ 2002 میں تہران میونسپلٹی کی صدارت سے شروع ہوا جب قدامت پسندوں نے جیت کر محمود احمدی نژاد کو تہران کا میئر منتخب کر لیا۔
محمود احمدی نژاد کو جب تہران کا میئر نامزد کیا گیا تو بہت کم لوگ ان کے نام سے واقف تھے۔
محمود احمدی نژاد کی میئر شپ کے دوران بہت سے متنازعہ اقدامات کیے گئے۔ تھیٹر ہاؤس اور مجسمہ سازی کے سکول سمیت ثقافتی مراکز کی ایک بڑی تعداد کو بند کر دیا گیا تھا، اور ثقافتی مراکز میں فلموں کی نمائش اور لیکچرز کو روک دیا گیا تھا، اور ان کی جگہ تلاوت قرآن، نہج البلاغہ، اور کڑھائی کی کلاسیں شروع کی گئیں۔
محمود احمدی نژاد نے شہر میں مغربی طرز کے ’فاسٹ فوڈ‘ ریستوران ختم کر دیے اور بلدیہ کے مرد ملازمین کے لیے لمبے بازوؤں والی قمیضیں پہننے اور داڑھیاں رکھنے کے احکامات جاری کیے۔
احمدی نژاد نے ایک اشتہاری مہم پر بھی پابندی لگا دی تھی جس میں فٹ بال کے برطانوی کھلاڑی ڈیوڈ بیکھم کو دکھایا گیا تھا۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں کسی بھی اشتہاری مہم میں مغرب سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کو نہیں دکھایا جا سکتا تھا۔
محمدو احمدی نژاد سادہ زندگی گزارنے کی وجہ سے مشہور رہے۔ دارالحکومت تہران کے میئر ہونے کے باوجود ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے اور میئر کی سرکاری رہائش گاہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ سرکاری گاڑی بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔
صدارتی امیدوار اور رہبر اعلی سے تنازع
احمدی نژاد کو تہران کے میئر بنے دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ صدارتی انتخابات میں بنیاد پرستوں کے امیدوار بن گئے۔ جب انھوں نے صدارت کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تب بھی وہ ایران کی قومی سیاست میں کوئی جانا مانا نام نہیں تھے۔
لیکن صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں انھوں نے سابق صدر ہاشمی رفسنجانی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لے کر مبصرین کو حیران کر دیا اور یوں دوسرے مرحلے میں وہ ہاشمی رفسنجانی کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ محمود احمدی نژاد کے انتخاب کے ساتھ، ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے ایک ایسا صدر منتخب کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کر لیا جو ان کی پالیسیوں کے ساتھ متفق ہو اور ایگزیکٹو برانچ کی سربراہی کے لیے ایک غیر جانبدار اور محفوظ ایگزیکٹو کا کردار ادا کرے۔
ایران کے رہبر اعلی نے 2008 کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے واقعات سمیت مختلف اوقات میں کھل کر ان کی حمایت کی۔ محمود احمدی نژاد کی صدارت کے دوران ایرانی حکومت اور معاشرے کے تمام شعبوں میں فوج کے اثر و رسوخ اور طاقت میں اضافہ ہوا۔
اس عرصے کے دوران، جس طرح خامنہ ای نے روح اللہ خمینی کے قریبی حلقوں کو طاقت کے مراکز سے دور کیا، اسی طرح محمود احمدی نژاد نے بھی وزراء اور معروف لوگوں کو وزارتوں اور سرکاری اداروں سے ہٹانا شروع کر دیا۔
محمود احمدی نژاد کی دوسری صدارتی مدت کے آغاز سے ہی ان کے اور رہبر اعلی علی خامنہ ای کے درمیان تنازع شروع ہو گیا۔
مغربی دنیا سے جدوجہد کی علامت
احمدی نژاد اپنی صدارت کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی مغرب کے ساتھ جدوجہد کی علامتوں میں سے ایک بن گئے، جب ایران کی جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی متنازع بنی۔
اقوام متحدہ میں قرآن و حدیث کی آیات سے شروع اور ختم ہونے والی ان کی جذباتی اور مذہبی تقاریر کو دنیا بھر میں خصوصا مسلمان ممالک میں پذیرائی ملی۔
اپنی تقاریر میں سابق صدر نے کئی بار ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں اور بیانات کا مذاق اڑایا اور کہا: ’ایران میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ پابندی کیا ہے؟‘ انھوں نے زور دے کر کہا کہ پابندیوں کا ایرانی عوام کی سیاست، معیشت اور زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
لیکن ان کے کئی متنازع بیانات اقتدار چھوڑنے کے بعد وقت کے ساتھ بدل گئے۔ 180 ڈگری کے موڑ کے ساتھ، انھوں نے ایران کے اقتصادی مسائل کے حل کے لیے دنیا کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ کیا، اور امریکی صدور کو بلا جواب خط لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
بظاہر، وہ ایرانی معاشرے کے ایک حصے کی اس خواہش سے آگاہ ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بات چیت میں ملک کے بہت سے بحرانوں پر قابو پانے کا حل دیکھتے ہیں اور وہ عوام کے اس حصے کا دل جیتنا چاہتے ہیں، انتخابات میں ان کا ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے آئندہ صدارتی انتخابات میں امیدوار ببنے کے اعلان کے بعد متعدد سیاست دانوں، ماہرین اور لوگوں نے ان کے ماضی کے بیانات کو یاد دلایا ہے اور موجودہ موقف سے تضاد پر روشنی ڈالی ہے۔
سیاست میں واپسی
صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی محمود احمدی نژاد سیاست نہیں چھوڑ سکے۔
2017 میں ایک ویڈیو پیغام میں ملک کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، پورے نظام پر عوام کا اعتماد صفر کے قریب ہے، عدم اطمینان اپنے عروج پر ہے، غربت پھیلی ہوئی ہے، اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ ملک کے تمام حکام، تینوں طاقتیں۔ سب سے بڑھ کر جناب روحانی۔‘
اس دوران انھوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان بھی کیا جبکہ رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے متنبہ کیا تھا کہ احمدی نژاد کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینا ’ملک کے مفاد میں نہیں‘ تاہم احمدی نژاد نے بعد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رہبر اعلیٰ نے صرف مشورہ دیا تھا۔
امیدواروں کی جانچ پڑتال کرنے والی شوریٰ نگہبان نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی تھی۔
ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا وہ اس بار الیکشن میں حصہ لے سکیں گے؟
اگر محمود احمدی نژاد کو گارڈین کونسل کی طرف سے پھر سے نااہل قرار دیا جاتا ہے، تو شاید پھر بھی وہ ایرانی سیاست کا حصہ رہیں گے۔