مخصوص نشستوں سے متعلق اہم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ردعمل کا اظہار

اسلام آباد: مخصوص نشستوں سے متعلق اہم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ردعمل کا اظہار کر دیا گیا۔

ذرائع الیکشن کمیشن نے کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی ہے اور اس کا نام بھی سیاسی پارٹیوں کی فہرست میں موجود ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی کا نام الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں ہے۔

ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا، انٹرا پارٹی الیکشن درست نہ ہونے پر بلے کا نشان لیا گیا، الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بلے کا نشان لیا۔

ای سی پی نے مزید کہا کہ جنہیں پی ٹی آئی ایم این ایز قرار دیا گیا انہوں نے کاغذات میں پارٹی وابستگی ظاہر نہیں کی تھی، پارٹی امیدوار ہونے کیلیے ٹکٹ اور ڈکلریشن آر او کو جمع کروانا ضروری ہے، آر اوز کیلیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو پی ٹی آئی امیدوار ڈکلیئر کرتے۔

’پی ٹی آئی الیکشن کمیشن اور نہ پشاور ہائی کورٹ میں پارٹی تھی۔ سپریم کورٹ کیس میں بھی پی ٹی آئی پارٹی نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ جن 41 امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا انہوں نے پارٹی وابستگی ظاہر نہیں کی۔ آزاد قرار دیے گئے ارکان نے کسی پارٹی کا ٹکٹ بھی جمع نہیں کروایا۔‘

الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ آر اوز نے امیدواروں آزاد حیثیت میں الیکشن کی اجازت دی، الیکشن جیتنے کے بعد ایم این ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، ان ارکان کو آزاد امیدوار کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل آئی، سنی اتحاد کونسل کی یہ اپیل مسترد کر دی گئی۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹوں کا فیصلہ آٹھ پانچ سے سنایا جس کا اطلاق قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف تھا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور رہے گی، انتخابی نشان کسی سیاسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا۔

الیکشن کمیشن نے اسی ارکان اسمبلی کی فہرست پیش کی، جس میں سے انتالیس ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کیلئے درخواستیں الیکشن کمیشن کو پندرہ دن میں جمع کرائے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کیا۔ چیف جسٹس نے جسٹس جمال کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا کہ آئین میں نئے الفاظ شامل کرنا ترمیم کے مترادف ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی، آئینی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن کو کسی جماعت کے ارکان کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں