دینی مدارس سے متعلق بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں احتجاج کیلئےاسلام آباد کا رخ کرنے کی دھمکی پر شہباز شریف کے رابطہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے ایک ٹیلی فون پر کس طریقے سے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کروں یا ہم اپنے ہدف سے پیچھے کیوں ہٹیں؟
خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی دھمکی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اس میں سنجیدہ ہیں، اب 8 دسمبر کو اسرائیل مردہ باد کانفرنس یا ملین مارچ پشاور میں ہونے جا رہا ہے، اس میں ہم اپنا مؤقف پوری قوم کے سامنے پیش کریں گے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکومت کے لوگ بھی ساتھ ساتھ رابطے میں آ رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی ہماری بات چیت جاری ہے، دوسری طرف وفاق المدارس العربیہ یا جو ہماری اتحادی تنظیم مدارس دینہ ہے، ان کے ساتھ بھی ہمارا رابطہ ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑی زیادتی ہے اور ملکی سیاست میں عدم اعتماد کا سبب بنے گا، ہم چاہتے ہیں کہ سیاست میں اعتماد کا ماحول آئے اور ایک معتدل قسم کی سیاست وجود پائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کو نرم رکھنے میں اپنے تمام سرکاری وسائل کو استعمال کرے، اپنی توانائیاں استعمال کرے لیکن ملک میں لوگوں کو شدت کی طرف لے جانے کا وہی سبب بن رہی ہے، وہی قوم کو احتجاج کی طرف لے جانے کا سبب بن رہی ہے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا تھا کہ اگر دینی مدارس کے حوالے سے جو بل ہے، جب انتخابات سے قبل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت بنی تھی، جس میں پیپلزپارٹی شامل اور آصف زرداری اس کے بڑے اسٹیک ہولڈر تھے، اُس وقت اتفاق رائے کے ساتھ یہی ڈرافٹ طے ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پھر کچھ قوتوں نے اس میں غیر ضروری مداخلت کی اور اس پر قانون سازی رک گئی تو ہم نے پھر ان سے بات کی کہ جب سب چیزیں طے ہو رہی ہیں اور 26 ویں ترمیم آ رہی ہے تو ایک مسودہ ہے، جس پر اتفاق رائے ہے، اس کو بھی پاس کیا جائے، اس پر اتفاق رائے ہو گیا اور باقاعدہ مذاکرات میں ساری چیزیں طے ہوئیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ بلاول ہاؤس میں بھی 5 گھنٹے کا اجلاس ہوا، لاہور میں نواز شریف کے ہاں 5 گھنٹے میٹنگ ہوئی، ہم نے پی ٹی آئی کو بھی اعتماد میں لیا، آج کہاں سے اعتراض آ گئے؟
انہوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو اس بل کو بنانے میں، ڈرافٹ تیار کرنے میں باقاعدہ شریک رہا ہے، آج وہ کہتا ہے کہ اس پر اعتراضات ہیں، یہ بدنیتی ہے اور اس حوالے سے ہمارا اپنا مؤقف ہے، ہم پوری قوت کے ساتھ اپنا مؤقف دیں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے یقین دہانی کے حوالے سے فون کال کیے جانے کی بابت سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا کہ وہ ہر دم کہتے رہے ہیں کہ ہم اس پر بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم اس پر معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ گفتگو تو اچھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ اچھے طریقے سے 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل گفتگو ہوئی تھی، اگر اس اعتماد کا آج یہ عالم ہے، میں آج وزیراعظم کے ایک ٹیلی فون پر کس طریقے سے اپنے مؤقف میں لچک پیدا کروں یا ہم اپنے ہدف سے پیچھے کیوں ہٹیں؟
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مزید کہا کہ ہمارے لئےگزشتہ انتخابات دھاندلی کے الیکشن تھے، یہ حکومت بھی قانونی اور آئینی حکومت نہیں ہے، بس زبردستی والی حکومت ہے، اگر کوئی تبدیلی آئے گی تو ہم اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
صوبے میں امن و امان سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے (خیبرپختونخوا) میں تو حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کوئی رٹ نہیں ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیا سوچتے ہیں، میرا خیال ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھنے کو کافی سمجھتے ہیں کہ اسٹیٹس مل گیا ہے، اس سے آگے سوچ ہی نہیں ہے، انتظامی صلاحیت ہے اور نہ ہی نظریاتی صلاحیت ہے، اسی طرح قیام امن کیلئے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ اندازہ لگائیں کہ کیوں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کو اجلاس بلانا پڑا، یہ تو ایگزیکٹیو کی ذمہ داری ہے اور ایگزیکٹیو اس صلاحیت سے محروم ہے جبکہ گورنر اجلاس بلا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کے بھی بس میں نہیں ہے۔
امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس پر مشاورت کر رہے ہیں، ہم صوبے کے اسٹیک ہولڈرز، سیاسی جماعتوں، مذہبی گروہوں کے ساتھ بھی بیٹھ کر بات کرنا چاہیں گے تاکہ ہم کچھ مستقل حل کی طرف جا سکیں۔
پی ٹی آئی پر پابندی اور صوبے میں گورنر راج سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے اور میں اس پر تبصرہ بھی نہیں کر سکتا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہر چند کہ آئین میں ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ جہاں ایمرجنسی کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے لیکن مروضی حالات میں آج گورنر راج بھی مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ آج جمعیت علمائے اسلام (ف) نے دینی مدارس سے متعلق بل کی منظوری کے لیے وفاقی حکومت کو 8 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دے دی تھی، مولانا عبد الغفور حیدری کا نے متنبہ کیا تھا کہ 8 دسمبر تک بل منظور نہ کیا گیا تو اسلام آباد کا رخ کریں گے۔
تاہم، دھمکی سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں پارٹی کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔