کاش ہی اچھا ہوتا کہ مذاکرات کرنے والے ایک دوسرے کے ساتھ سنجیدہ ہوتے،ملک کے ساتھ سنجیدہ ہوتے، عوام کے ساتھ سنجیدہ ہوتے تو سارے مسئلے ہی ختم ہوجاتے۔ تبھی وطن عزیز بھی کہیں نہ کہیں سے ترقی کر رہا ہوتا، ،، کہیں نہ کہیں سے سیاسی، معاشی و معاشرتی استحکام آتا،،، لیکن فی الوقت تو مذاکرات کے ”بے سود اور وقت گزاری والے ادوار ہو رہے ہیں، ،، جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ عوام کو مذکراتی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے،،، ایک فریق کہتا ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کو ساتھ ملایا جائے، جبکہ دوسرا فریق کہتا ہے کہ فی الوقت احتجاج کی سیاست کو دفن کریں اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کریں تاکہ خان کی رہائی کا کوئی ”وسیلہ“ بنایا جا سکے!
حالانکہ تحریک انصاف یہ بھی جانتی ہے کہ 8فروری کے انتخابات کا جتنا مرضی ذکر کر لیا جائے، یا یہ مطالبہ رکھ دیا جائے کہ اس پر شفاف کمیشن بنا دیں تو یہ سب بے سود ہوگا، کیوں کہ حکومت اگر یہ سب کچھ مان گئی تو اس کا مطلب ہے کہ اب تک کے کیے کرائے پر پانی پھیرنا ہو گا۔ جو حکومت بالکل ویسے ہی عسکری اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کے چل رہی ہو جس طرح عمران خان کی سابق حکومت چل رہی تھی، ایسی حکومت کیسے قبل از وقت انتخابات یا نقص زدہ انتخابات کی مرمت پر راضی ہو کر اپنے سیاسی و اقتداری بلیک وارنٹ پر دستخط کر سکتی ہے۔جب فریقین کے ذہن ’یا ہم، یا تم‘ کی بنیاد پر کام کر رہے ہوں وہاں ذرا سی بھی لچک دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تبھی آپ ان مذاکرات کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں فریقین صرف وقت گزاری کیلئے بیٹھتے ہیں اور اُٹھ جاتے ہیں، کیوں کہ دونوں کو علم ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں ہے، جب تک ”اگلے“ نہ چاہیں! جبکہ ہم پاکستانی عوام کو ان حالات نے غمگین اور دل شکستہ کر دیا ہے، اگر آپ کی طبیعت بوجھل اور کیفیت مایوسی کی طرف مائل ہے تو اعتراف حقیقت کیجیے، ضرور افاقہ ہو گا۔کیوں کہ قصور اس افسوس ناک تماشے کا نہیں جو چوبیس گھنٹے چلتا ہے، اور جس کو دیکھ کر آپ اب کُڑھ رہے ہیں، آپ کے جلنے بھننے اور شگفتگی سے بتدریج دوری کی وجہ یہ احمقانہ خیال ہے کہ اگر ”وہ“ ساتھ نہ دیتے تو موجودہ حکومت نہ کبھی 8فروری کا دھماکہ کرتی ، نہ کبھی من پسند آئینی ترامیم کرتی اور نہ ہی تحریک عدم اعتماد لا سکتی تھی۔ کیوں کہ اب بات ان وطیروں سے کافی آگے نکل چکی ہے! آپ کو یہ ماننا ہو گا کہ جوطوائف الملوکی اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں اس میں کوئی انہونی نہیں۔ یہ دراصل کرنی اور بھرنی کا 77سالہ گھومتا ہوا پہیہ ہے جو سب نے مل کر اپنے ہاتھوں سے خود بنایاہے۔ یقین مانیں جب یہ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہوں گے تو ان کی آنکھوں میں شرمندگی کے سائے ضرور ہوں گے، کیوں کہ انتخابی ہیرا پھیری کے نتائج چھپائے نہیں چھپتے۔ یہ بے سکونی انہیں جب تک حکومت کا آخری سانس ہے تب تک ساتھ رہے گی، بلکہ دہائیوں تاریخ کے پنوں میں 8فروری کے نتیجے میں بننے والی حکومت کا ذکر ملتا رہے گا۔
بہرحال بات ہو رہی تھی مذاکراتی عمل کی تو مصالحتی عمل بھلے میاں بیوی میں ہو، سیاستدانوں کے مابین یا ریاستوں کے درمیان، کامیاب تب ہی ہوتا ہے جب ایک فریق درپیش حالات و واقعات سے تھک جائے یا دونوں فریق شل ہو جائیں اور ضروری لچک دکھاتے ہوئے بحرانی گرداب سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ ناکام ہونے لگیں تو کوئی غیر جانبدار ثالث بیچ میں ڈال لیں اور ڈیڈلاک توڑنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ان اصولیات کی روشنی میں اگر شہباز سرکار اور پی ٹی آئی کی ’مصالحتی بات چیت‘ کے اس ان چاہے عمل کو دیکھا جائے تو بقول عبداللہ پنواڑی صرف ’ٹائم پاسی‘ ہو رہی ہے، حجت تمام ہو رہی تاکہ کہنے کو بات رہ جائے کہ ہم نے تو پوری کوشش کی، اگلا ہی بددماغ اور ہٹ دھرم ہے تو ہم کیا کریں۔پی ٹی آئی کو بھی اچھے سے معلوم ہے کہ عمران خان سمیت جتنے بھی ’سیاسی قیدی‘ ہیں، انھیں کسی گروہ نے اغوا نہیں کیا کہ بات چیت کے نتیجے میں کل شام تک رہا ہو جائیں گے بلکہ ان سب کو سول و فوجی قوانین کے تیزابی آمیزے میں بھگو کے اندر رکھا جا رہا ہے۔
چنانچہ مذاکرات کے نام پر سب کا زور وقت گزاری پر ہے ورنہ تو جو مطالبات پی ٹی آئی ہر دھرنے، ہر ٹویٹ اور ہر پریس کانفرنس میں دھراتی ہے انھیں تحریری صورت میں دوسرے فریق کو دینا اتنا بڑا ایشو نہ بن جاتا کہ ہمیں اس کے لیے خان صاحب سے اجازت لینا ہو گی، اجازت کے لیے جیل میں ملاقات کرنا ہو گی، ملاقات ایسے ماحول میں ہو جو جاسوسی آلات سے پاک ہو۔اگر پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم پر عمران خان تک بلا رکاوٹ مسلسل رسائی کا احسان کر بھی دیا جائے تو بھی کون سا بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، علیمہ خان یا گنڈا پور نے عمران خان کو جیل تڑوا کے فرار کروا لینا ہے۔یہ ضروری تو نہیں کہ حکومت ہر قدم پر یہ ثابت کرنے کا ادنی ترین موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دے کہ دیکھو دیکھو ہم کتنے بااختیار ہیں، ہم کوئی ’فارمی‘ سرکار نہیں۔
جس طرح پی ٹی آئی کا مفاد بس اتنا ہے کہ حکومت کو مسلسل پنجوں کے بل کھڑا رکھے تاکہ وہ سکون سے اپنے ایجنڈے پر کام نہ کر سکے۔ اسی طرح موجودہ حکومت بس یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح اپنی مدت پوری کر لے، بھلے اس کے لیے آئین و قوانین میں کتنا ہی ردوبدل کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسے امید ہے کہ تب تک معیشت و امن و امان کے محاذ پر کوئی ایسا تیر مار لے کہ پی ٹی آئی کے منڈیر پر بیٹھے نیم دل ووٹروں کا دل نرم ہو جائے۔عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مفاد بس اتنا ہے کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام بھلے رہے مگر ایک دائرے سے باہر نہ نکلے تاکہ کلیدی سیاسی و معاشی معاملات اور اداروں پر آہنی گرفت ڈھیلی نہ ہونی پائے بلکہ شکنجہ تھوڑا اور کس جائے تو کیا کہنے۔
بہرحال ”بڑوں“ کو امید ہے کہ جس طرح پچھلے ستتر برس میں پاپولر جماعتوں اور لیڈروں کو راستے سے ہٹانے یا تھکا تھکا کے مارنے کی پالیسی کامیاب رہی اس بار بھی اس پالیسی کو آگے بڑھانے میں بظاہر کوئی بقائی رکاوٹ نہیں۔ سب لائن میں ہیں سوائے ایک منہ زور گھوڑے کے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہارس ٹرینر(سائیس) کا چابک پہلے تھکتا ہے یا گھوڑے کا زور ٹوٹتا ہے۔ سائیس اور گھوڑے کے مذاکرات تب ہی کامیاب ہوتے ہیں جب اسپِ تازی دیگر گھوڑوں کی طرح سدھنے پر آمادہ ہو جائے۔وہ لوگ عظیم سمجھے جاتے ہیں جو طاقتور ہوکر بھی اپنے کمزور حریف کے بارے میں صلہ رحمی سے کام لیں اور وہی لوگ کامیاب ٹھہرتے جو طاقت کی پوزیشن پر بات چیت کرے۔ لیکن حکومت کے بعض وزرا کے بیانات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اب کمزور پوزیشن میں آگئے ہیں۔ انہوں نے احتجاج کے سارے آپشن آزمالئے۔ ایک آپشن سول نافرمانی کا بچا ہے اور اسے وہ نہیں کرسکیں گے۔اس لئے ان وزرا کا لہجہ سخت ہوگیا ہے اور اس میں رعونت آگئی ہے۔یہ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے دور میں ہمارے ساتھ یہ یہ برا کیا۔ ہمیں بے گناہ جیلوں میں ڈالا۔ شہباز شریف ان کو دعوت دیتے رہے کہ میثاق معیشت کرتے ہیں لیکن عمران خان ان سے ہاتھ ملانے کو تیار نہ تھے۔جب اپوزیشن مذاکرات کی بات کرتی تو وزیراعظم عمران خان اور اور ان کے وزرا طعنہ دیتے کہ وہ این آر او مانگ رہے ہیں۔ اس لئے اب عمران خان سے بھی بات نہیں کرنی چاہئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے مذاکرات کے لیے یہ مناسب وقت نہیں۔ لیکن میری ناقص رائے کے مطابق مذاکرات کے لئے سب سے مناسب وقت یہی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماو¿ں کے ساتھ زیادتی ہوگئی تھی اور وہ جیلوں میں ڈالے گئے تھے تو اب تحریک انصاف کے رہنماو¿ں کے ساتھ بھی ایسا ہوگیا ہے۔ ان کے لیڈر نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز نے جیل کاٹی تو عمران خان اور ان کی اہلیہ بھی اس مرحلے سے گزرے۔ حکومتی وزرا کے زعم کی دوسری وجہ یہ ہے کہ معیشت کے کچھ اشاریے بہتر ہوگئے ہیں لیکن معیشت کے کچھ اشاریوں کے بہتر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ملک معاشی طورپر مستحکم ہوگیا ہے بلکہ اب بھی کافی چیلنجز درپیش ہیں۔ بجلی کے بل اب بھی لوگوں کی قوت ادائیگی سے زیادہ ہیں۔ بے روزگاری اب بھی زوروں پر ہے۔ برین ڈرین کا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خود حکمران بھی یہ مانتے ہیں کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا اور ظاہر ہے کہ سیاسی استحکام کے لئے مذاکرات کی ضرورت ہے۔
بہرکیف فی الوقت انتقامی سوچ ترک کرکے آپس میں بات کی جائے۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو مدنظر رکھا جائے۔ بس بہت ہوگیا۔اب ایک فریق بھی کچھ پیچھے ہٹے اور دوسرا فریق بھی۔ صرف مسلم لیگ اور پی ٹی آئی نہیں بلکہ تمام سیاسی اور دینی جماعتیں آپس میں بیٹھیں۔ میثاق معیشت اور میثاق جمہوریت پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ یا تو قومی حکومت پر اتفاق کرلیں اور اگر وہ نہیں ہوسکتا تو ایسے قوانین بنائیں کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی نہ ہوسکے۔ پانچ سال کی بجائے حکومت کچھ اپنی مدت کم کرے اور کچھ اپوزیشن حکومت کو مہلت دے۔ جتنے جلد نئے انتخابات کرائے جائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔کچھ لوگوں کو ایسی باتیں محض خواب لگتی ہیں لیکن ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کیا سال پہلے کوئی سوچ سکتا تھا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ساتھ بیٹھیں گی۔ جن لوگوں نے پاکستان کا متفقہ آئین بنایا وہ بھی کوئی آسمان سے اترے ہوئے نہ تھے بلکہ مختلف خوبیوں اور خامیوں کے حامل اسی طرح کے سیاستدان تھے۔لہٰذاآپ سب سے سیاستدان عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے بجائے صحیح معنوں میں مذاکرات کریں جو سب کے لیے آزمودہ اور fruitfullہوں۔ ورنہ ٹرک کی یہ بتی اپنے ساتھ سب کو لے ڈوبے گی اور پیچھے کچھ نہیں بچے گا!