مریم نواز کی بیماری کیا ہے اوراس کا علاج کیا امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے؟

پاکستانی سیاست دانوں کا ملک سے باہر علاج کیلئے جانا کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف سے لے کر فوجی آمر پرویز مشرف سمیت کئی سیاست دان بلکہ جج اور بیوروکریٹس بھی بیرون ملک سے علاج کروا چکے ہیں۔

اب اس فہرست میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز کا نام بھی شامل ہو گیا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ انھیں پیراتھائرائیڈ کا طبی مسئلہ ہے اور اس کا مکمل علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔

مریم نواز کا یہ بیان سانے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین میں نہ صرف اس حوالے سے تجسس پایا جاتا ہے کہ وزیراعلی پنجاب کو لاحق بیماری کیا ہے تو وہیں دوسری جانب بہت سے صارفین مریم نواز کے اس بیان پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی پیراتھائرائیڈ کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔

بی بی سی اردو نے ماہرین کی مدد سے اس بیماری اور اس کے کسی انسان پر اثرات کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ ہم آپ کو یہ بھی بتائیں گے کیا واقعی اس کا علاج دنیا کے صرف دو ہی ممالک میں دستیاب ہے لیکن سب سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ مریم نواز نے اپنی بیماری کے حوالے سے کیا کہا؟

مریم نواز: ’مجھے کینسر نہیں پیراتھائرائیڈ کا مسئلہ ہے‘بدھ کے روز پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے اپنی صحت سے متعلق افواہوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انھیں پیراتھائرائیڈ کا مسئلہ ہے۔

مریم نواز، جو آج کل لندن میں موجود ہیں، نے وہاں پارٹی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی صحت سے متعلق کہا کہ ’میری صحت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ خدانخواستہ مجھے کینسر ہے لیکن مجھے کینسر نہیں۔‘

وزیراعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ ’کہا جا رہا ہے کہ میں نے اپنا علاج پاکستان سے کیوں نہیں کروایا تو میں بتانا چاہتی ہوں کہ میرا علاج پاکستان میں ہی ہوتا ہے لیکن پیراتھائرائیڈ ایسی بیماری ہے جس کا علاج پوری دنیا میں صرف دو ممالک سوئزرلینڈ اور امریکہ میں ہی ہوتا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پیرا تھائرائیڈ کا علاج انگلینڈ میں بھی نہیں ہوتا صرف سوئٹزرلینڈ اور امریکہ میں اس بیماری کا علاج ممکن ہے۔مریم نواز نے یہ بھی بتایا کہ گذشتہ برس جنوری میں سوئٹزرلینڈ میں ان کی سرجری ہوئی تھی، اب بھی وہ علاج کروانے کے بعد دو روز میں پاکستان پہنچ رہی ہیں۔مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ اپنی بیماری سے متعلق بات نہیں کرنا چاہتی تھیں، ان کی ایسی تربیت ہی نہیں کہ وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کریں لیکن مجبوراً انھیں اس پر بات کرنا پڑی۔‘

پیراتھائرائیڈ کیا ہوتے ہیں؟
پیراتھائرائیڈ انسانی جسم میں موجود ایسے غدود ہوتے ہیں جو پی ٹی ایچ یا پیراتھائرائیڈ ہارمون خارج کرتے ہی جس کا کام خون میں کیلشیم کی مقدار کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔

امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا میں شعبہ اینڈوکرائنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر متین ہوتیانہ کے مطابق ’ہماری گردن کے سامنے والے حصے میں ایک گلینڈ ہوتا ہے جسے تھائیرائیڈ گلینڈ کہتے ہیں۔ اس کے پیچھے مٹر کے دانے کے برابر چار پیرا تھائیرائیڈ گلینڈز ہوتے ہیں۔ یہ گلینڈ دو دائیں جانب دو بائیں جانب ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس بیماری کا نام پرائمری ہائپر پیراتھائرائیڈزم ہے۔انھوں نے کہا کہ ’پیراتھائیرائیڈ گلینڈ کا بنیادی کام دراصل کیلشیم کی جسم میں مقدار کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔’جب ان چاروں میں سے کوئی ایک گلینڈ غیر متوازن ہو جاتا ہے تو زیادہ پیراتھائیرائیڈ ہارمون پیدا کرتا ہے اور وہ ہارمون ہماری ہڈیوں میں سے کیلشیم کو نکالتا ہے۔ اس سے خون میں کیلشم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔‘

خیال رہے کہ طبی تحقیق کے مطابق کیلشیم انسانی جسم میں موجود ایک اہم چیز ہے۔ یہ سب سے زیادہ تو ہڈیوں میں پایا جاتا ہے لیکن خون میں بھی اس کی صحیح مقدار میں موجودگی ضروری ہے کیونکہ یہ انسانی اعصاب کے کام کرنے، جسم کو حرکت دینے کے لیے درکار پٹھوں کے کھنچاؤ، خون کے جمنے اور دل کے صحیح طریقے سے کام کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔

پیراتھائرائیڈ غدود میں خرابی کے نتیجے میں ضرورت سے کم یا پھر زیادہ ہارمونز کا اخراج ہوتا ہے جس کا اثر خون میں کیلشیم کی مقدار پر پڑتا ہے۔

پیراتھائرائیڈ کی علامات کیا ہیں؟
پیٹ میں شدید درد ہونا،بہت زیادہ قبض رہنا،گردوں کی تکلیف خاص کر گردوں میں پتھری بن جانا،ہڈیاں اچانک سے کمزور ہو جانا
تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟
ڈاکٹر متین ہوتیانہ کے مطابق ’اس بیماری کے جسم پر اثرات میں ہوتا یہ ہے کہ چونکہ خون میں کیلشیئم کی مقدار بڑھ جاتی ہے تو پیشاب میں بھی کیلشیئم کا اخراج زیادہ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے گردے کی پتھری ہو جاتی ہے۔ دوسرا مسلسل ہڈیوں سے کیلشیئم نکلنے کی وجہ سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں۔

’ہڈیوں کی ایک بیماری ہے آسٹیو پیروسز اس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اگر کیلشیئم کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جائے تو اس کے اثرات دماغ کی صحت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بھی ہو سکتے ہیں۔‘ڈاکٹر متین ہوتیانہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پیراتھائیرائیڈ کی بیماری کا بنیادی علاج سرجری ہے۔ سب سے پہلے بلڈ ٹیسٹ کر کے تشخیص کی جاتی ہے۔

’24 گھنٹے تک مریض کے پیشاب کو جانچ کیلئے رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم گردن کا الٹراساؤنڈ اور سکین کرتے ہیں تاکہ چاروں پیرا تھائیرائیڈ گلینڈ کو چیک کیا جاتا ہے۔ چاروں میں سے جو ایبنارمل ہو اسے سرجری کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے۔‘

تو کیا پیراتھائرائیڈ کا علاج امریکہ اور سوئٹزرلینڈ میں ہی ممکن ہے؟
اب ہم آتے ہیں اس سوال کی جانب جو اس وقت سوشل میڈیا پر خاصا زیربحث ہے اور وہ یہ کہ کیا پیراتھائرائیڈ کا علاج صرف امریکہ اور سوئزرلینڈ میں ہی ممکن ہے اور پاکستان میں اس علاج کی کوئی سہولیات موجود نہیں۔

اس حوالے سے اسلام آباد کے ایک ماہر اینڈوکرینولوجسٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آسانی سے اس کی تشخیص اور علاج بھی ممکن ہے۔انھوں نے بتایا کہ ’علاج کیلئے ادویات اور انجیکشن بھی پاکستان میں دستیاب ہیں اور اگر سرجری کرنی ہو تو وہ بھی پاکستان میں ممکن ہے۔‘

جب بی بی سی نے ان سے یہ سوال کیا کہ آیا اس بیماری کی کوئی ایسی سٹیج بھی ہے، جس کا پاکستان میں علاج ممکن نہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ پیراتھائرائیڈ کی ہر سٹیج کا علاج پاکستان میں ممکن ہے۔

تاہم ڈاکٹر متین ہوتیانہ اس بات سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ اس مرض کی بنیادی سرجری پاکستان میں ممکن ہے لیکن ان کے مطابق ’دنیا کے بڑے ممالک میں ایک نئی سرجری بھی متعارف کروائی گئی ہے جسے minimally invasive surgery (MIS) کہا جاتا ہے اور یہ فی الحال پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر متین ہوتیانہ نے علاج کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کا بنیادی طریقہ علاج سرجری ہے۔ دو طرح کی سرجری ہو سکتی ہے ایک میں گردن کے سامنے کٹ لگا کر چاروں غدود دیکھے جاتے ہیں اس میں خون کا ضیاع بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ تکلیف دہ بھی زیادہ ہوتی ہے۔

’دنیا کے بڑے ممالک میں ایک نئی سرجری متعارف کروائی گئی ہے جسے Minimally invasive surgery (MIS کہتے ہیں۔ اس میں خون بھی کم ضائع ہوتا ہے اور مریض کو تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور مریض کچھ گھنٹوں کے بعد گھر واپس جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ کچھ کیسز میں جب مریض کی سرجری نہ کی جا سکے تو مریض کو سنسی بار کے نام سے موجود ایک دوا دی جاتی ہے جو دنیا بھر میں میسر ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا اس بیماری کا علاج پاکستان میں موجود ہے یا نہیں تو بالکل اوپن سرجری جو روایتی طریقہ علاج ہے وہ تو موجود ہے۔’ہزاروں مریض یہ سرجری کرواتے ہیں لیکن جدید سرجری کی سہولت پاکستان میں ابھی میسر نہیں، یہ صرف امریکہ اور چند بڑے ممالک میں موجود ہے۔‘

اپنا تبصرہ لکھیں