معاشی ترقی: قوم کو اصل”تباہ شدہ“ تصویر دکھائی جائے!

اس وقت معیشت کے حوالے سے کوئی بھی اصل اور بھیانک تصویر نہیں دکھا رہا، سب اچھا کے راگ الاپ رہے ہیں، بلکہ ان باتوں کو سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، ہمارا حکومت میں رہنا ہی اس ملک کیلئےبہتر ہے، ہم نہ ہوتے تو تحریک انصاف نے ملک کا دیوالیہ نکال دینا تھا، ہم نے اقتدار ملک کی خاطر لیا ورنہ ہمیں کوئی شوق نہیں تھامشکل حالات میں حکومت لینے کا۔پھر ”اُڑان پاکستان“جیسے پروگرام شروع کیے جار ہے ہیں،،، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ وفاقی حکومت نے ملکی اور بیرونی قرضے لے کر پچھلے تما ریکارڈ توڑ دیے ہیں، نومبر 2024 تک ان قرضوں کا حجم 70 ہزار 366 ارب روپے رہا جس میں مقامی قرضہ 48 ہزار 585 ارب روپے اور بیرونی قرضے کا حصہ 21 ہزار 780 ارب روپے تھا جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ ایک سال (دسمبر 2023 سے نومبر 2024) کے دوران قرضوں میں 6 ہزار 975 ارب کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ حکومت کو بھاری بھر کم قرضے مسلسل لینے پڑ رہے ہیںاور ان پر انحصار مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ،بجلی اور گیس کے نرخ عوام الناس کے اعصاب پر سوار ہیں۔ ابھی بھی نہیں یقین تو خود اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ دیکھ لیں کہ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر 2024) کے دوران مرکزی حکومت کے قرضوں میں ایک ہزار 452 ارب روپے جبکہ نومبر کے ایک مہینے میں ایک ہزار 252 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
چلیں! یہاں تک بات ختم ہوتی تو شاید ٹھپ جاتی، مگر ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024ءکے دوران مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی بنا پر عام آدمی کی قوتِ خرید میںکمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی سال 2024ءمیں پاکستان میں غربت کی شرح 2023ءکے مقابلے سات فیصد بڑھی ہے۔ اس ایک سال کے دوران ایک کروڑ 30لاکھ مزید پاکستانی خط غربت سے نیچے آ گئے ہیں۔ آئے روز تلاشِ روزگار میں غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے سینکڑوں پاکستانی نوجوان اپنے سنہری خوابوں سمیت دور دیسوں کے سمندروں میں ڈوب رہے ہیں۔ یہ ہولناک خبریں دلوں کو تڑپا رہی ہیں اور ہمیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ ملک میں ہر معیار کے روزگار کے مواقع بہت کم ہو چکے ہیں۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم پاکستان نے ”اُڑان پاکستان“ کے نام سے ایک پرکشش منصوبے کی نقاب کشائی کی ہے۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف نے قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اس منصوبے پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی شرح میں بہت اضافہ ہو گا اور ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ وزیر اعظم صاحب! خدا کانام لیںاور عوام کو صحیح تصویر دکھائیں، اور بتائیں کہ ہمارا ملک دیوالیہ ہونے والا نہیں بلکہ ہوچکا ہے، کیوں کہ یہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے،اور جب سے ہمارے ان حکمرانوں نے اپنے قدم مبارک رکھے ہیں تب سے اس عوام کا اچھے دن دیکھنا ایک خواب بن گیا ہے۔ آپ 2022ءسے دیکھ لیں، جب موجودہ حکمرانوں کی ہی حکومت یعنی پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو اُس ایک سال میں کم و بیش 300فیصد مہنگائی ہوئی اور اوسطاََ سالانہ 45فیصد مہنگائی ہوئی۔ پھر اُسی مہنگائی کو 200فیصد پر لا کر انہوں نے کہا کہ دیکھا! مہنگائی کتنی کم ہو گئی ہے،،،
لہٰذاقوم کو بتایا جائے کہ ہم درحقیقت کہاں کھڑے ہیں، فضول کے شوشے چھوڑنے سے نہ پہلے ہمارا کچھ ہوا ہے ، اور نہ اب کچھ ہوگا۔ بلکہ معذرت کے ساتھ اس وقت اگر کسی کا بھلا ہو رہا ہے تو وہ یا تو خود سیاستدان ہیں یا نوکر شاہی! یعنی نوکر شاہی میں اپنے بندوں کو اہم عہدوں پر فٹ کرنے‘ مخلص فرمانبرداروں کو نوازنے اور پیشہ ور سرکاری افسران کو کونے میں لگایا جا رہا ہے۔تبھی ہم معاشی کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ میں یہ بات عدالتوں یا سکیورٹی اداروں کی نہیں کر رہا بلکہ پورے ملک کا یہی حال ہے۔ خیر ریاسست کی تعمیر وترقی اور اس کا بگاڑ اور زوال اصل میں حکومتوں کی کارکردگی پر منحصر ہوتاہے۔ معاشرہ سب انسانوں، شہریوں، دیہاتیوں اور سب جغرافیائی اکائیوں اور لسانی گروہوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسے بھی ریاست کی طرح حکومتیں سنبھالتی‘ سنوارتی یا تباہ کرتی ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کی حکومتیں چند مخصوص سیاسی خاندانوں اور ان کے سرپرستوں کے ہاتھ میں رہی ہیں، جن کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ہمیں ہمت نہیں۔ یہ وہ ملک نہیں جو ہم نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں دیکھا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور اس کے تین کرداروں‘ سیاسی اور دیگر وغیرہ کا سب کو معلوم ہے‘ مگر ان میں سے ایک کے بارے میں آج بھی بات کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ کیوں؟ ”بت تراش“ بہت مضبوط ہیں‘ اور حکمرانوں کی گدیوں اور اگلی نسل تک منتقلی کے لیے جو ضروری سیاسی اور معاشی بندوبست کیے گئے ہیں‘ ان کی طاقت کا اگر کسی کو اندازہ نہیں تو آٹھ فروری اور اس کے بعد ملک میں حکومت سازی‘ عہدوں کی تقسیم اور عدالتوں اور احتساب کے اداروں کے بارے میں بدلتے قوانین پر نظر ڈال لیں۔
وطن عزیز کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ لیکن افسوس کہ حکومتیں صرف آج نہیں‘ گزشتہ پچپن سالوں سے جن کے ہاتھ میں رہی ہیں‘ انہوں نے وہی کام کیا ہے جو ہم پرائمری سکول کی کتاب میں ایک احمق شیخ چلی کی کہانی میں پڑھتے تھے کہ جو شاخ پر بیٹھ کر اسی درخت کو تنے سے کاٹ رہا تھا۔ یہ اب ایک شاخ کی بات نہیں‘ ڈر ہے کہ پورے درخت کا معاملہ ہے۔ حکومت کا نظام تو پہلے ہی بگڑ چکا تھا‘ جب غلام محمد‘ اسکندر مرزا اور اُس وقت کی عدالت عظمیٰ نے پارلیمان کی تحلیل اور آئین بن جانے کے بعد اس کے نفاذ اور اس کے مطابق انتخابات کرانے میں گٹھ جوڑ کیا تھا۔ اداروں کے درمیان آئینی اختیارات کی تقسیم‘ حدود وقیود اور عوامی نمائندگی کے اصول پامال ہو چکے تھے۔ ہم ہر نئی آنے والی حکومت کی طرف دیکھنے لگے کہ شاید حالات بہتر ہو جائیں لیکن سب نے خوب فنکاریاں دکھائیں۔ سب انقلاب کی باتیں کرتے رہے‘ ہماری اور ملک کی تقدیر بدلنے کے داعی رہے‘ خوش حالی اور ترقی کے خواب دکھاتے رہے‘ جب رخصت ہوئے تو سرکاری فائلوں میں بند کاغذوں اور کچھ لوگوں کے دل میں اس وقت کے جبر اور خوف کی چھپی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔ ہمارے دل میں اب وہ نرمی نہیں رہی کہ لوگوں اور ملک کے دکھوں پر اس طرح آنسو بہائیں‘ جو کچھ تاریک ادوار میں بہائے تھے۔ اب آپ کی طرح ظلم دیکھنے اور برداشت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب تو تختِ لاہور نے نیا فرمان جاری کر دیا ہے کہ بہتر ہے کہ آپ خموش رہیں‘ کوئی ایسی بات نہ کریں جس کا ثبوت آپ کے پاس نہ ہو۔ ہم نے تو کبھی بھی شواہد اکٹھے کیے بغیر کوئی بات کبھی کی ہے نہ لکھی ہے، لیکن مجھ جیسا لکھاری جو اب اُس قدر بھاگ دوڑ نہیں کر سکتا، جو جوانی میں کرتے تھے، جب ایک خبر کیلئے ہمیں کوسوں دور بھی جانا پڑتا تھا تو پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ہم اس وقت چیزوں کو محسوس تو کرسکتے ہیں ناں!ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ 8فروری کے الیکشن میں فارم 45اور فارم 47کا کیا رولا ہے؟ پھر یہ بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ کس طرح بنی ہوئی سڑکوں کو اکھاڑ کر کیوں نئی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں؟ اگر یہ سارا کمیشن کا چکر نہیں تو اور کیا ہے؟
بہرحال ہماری حکومتوں کے دیوالیہ پن کی بنیادی وجہ یہ زبان بندی ہی ہے۔ آزادی کے بعد ریاست کو مضبوط کرنے اور قوم سازی کے نام پر جوکھیل اس ملک میں کھیلا گیا، اس کے ہر سیزن کے اختتام پر جب کھلاڑی میدان سے رخصت ہوئے‘ تو ہمیں فسطائیت اور خفیہ خزانوں کے آثار ملے۔ جب کبھی حکومت تبدیل ہوتی تو اپنے دیہات میں اکثر پرانے لوگ ملنے آتے اور سوال کرتے کہ بتائیں جو نیا بادشاہ آیا ہے‘ وہ انصاف قائم کرے گا‘ چوری ختم ہو گی‘ لوگ امن سے رہیں گے؟ آج کے زمانے میں وہ پرانے لوگ اور ان کی وہ باتیں جب یاد کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم صرف ایک ہی وقت کی لپیٹ میں ہیں‘ جو تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کی وجہ آپ کو بھی معلوم ہے‘ مگر مضمون کی تشریح کے لیے بتائے دیتا ہوں۔ کئی ادوار میں تو حکومت بنانے کے عمل میں عوام کو شامل ہی نہیں کیا گیا‘ کہ عام لوگوں کو کیا پتا کہ قابل‘ مخلص اور ایماندار نمائندے کون ہوتے ہیں۔ اچھی حکومت کو چلانے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے جب ایسے لوگ ریاست کے اداروں میں موجود ہیں تو جمہوریت کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی بیانیہ عام تھا اور ہے‘ کہ عوام کو تو کوئی بھی بے وقوف بنا کر ان کا ووٹ لے سکتا ہے۔ اس لئے ”ریاست بچاﺅ“ سیاست تو آنی جانی چیز ہے۔
مغرب اور مشرق کے جن ممالک نے حکومت کو عوامی رائے کے مطابق چلانے کا راز پا لیا‘ وہ ترقی کی منازل طے کر چکے ہیں۔ عوامی رائے کا مطلب پاپولزم نہیں ہے‘ جو مفت آٹا‘ لیپ ٹاپ اور دیگر لیپا پوتیوں کی صورت نظر آتا ہے‘ بلکہ عوام کے ووٹ‘ نہ کہ طاقت کے کھوٹ سے حکومت قائم ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی‘ آزاد عدلیہ اور میڈیا کی حقیقی آزادی جوابدہ اور ذمہ دار حکومت کو ممکن بناتے ہیں۔ ہم نے اس نوع کے حکومتی درخت کی سب شاخیں اپنے اپنے مخصوص مفادات کے تقاضوں کے تحت کاٹ کر سستے تنوروں کو چلانے کیلئےجلا ڈالی ہیں۔ حکومتیں جس انداز میں بنتی‘ گرتی اور بگڑتی رہی ہیں‘ اس سے ریاست‘ معاشرہ اور ہم سب مجموعی طور پر کمزور ہوئے ہیں۔بہرکیف ہر طرف‘ ہر شہر‘ ہر گاﺅں اور ہر ضلع میں حکومتوں کی کارکردگی کا دیوالیہ پن دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ یہ حکومتیں نہ ہماری تھیں نہ اب ہیں‘ جن کی ہیں‘ وہ جانیں اور ان کا کام۔ ہم اپنی گواہی دیتے رہیں گے۔اور رہی بات معیشت کی تو اللہ رحم بھی کرے اس ملک پر اور ان حکمرانوں سے چھٹکارہ بھی نصیب فرمائے۔ باقی کباڑہ تو ہو ہی چکا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں