بانی تحریک انصاف نے حکومت کی جانب سے دیوالیہ ہوتی معیشت کو سنبھالنے کا اعتراف کیا ہے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، معیشت مستحکم ہوکر دیوالیہ ہونے سے بچ گئی، لیکن ترقی نہیں ہوئی، ویب سائٹ ”ایکس“ پرایک پوسٹ میں عمران خان کا کہنا ہے کہ نیا سال حقیقی آزادی کا سال ہو گا انشااللہ، 2024ء ایک مشکل سال تھا،انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے پیغام ملا ہے کہ ہم سے ڈیل کریں ہم آپ کی پارٹی کو ”سیاسی اسپیس‘‘دیں گے، لیکن آپ کو ہاؤس اریسٹ کر کے بنی گالہ میں منتقل کر دیا جائے گا،عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے جواب دیا پہلے باقی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرو، میں جیل میں رہ لوں گا، لیکن کوئی ڈیل قبول نہیں کروں گا، ہاؤس اریسٹ یا خیبرپختونخوا کی کسی جیل میں نہیں جاؤں گا، اپنی قوم سے کہتا ہوں گھبرانا نہیں ہے، آپ کا کپتان ڈٹا ہوا ہے، میں اپنے سمندر پار پاکستانیوں سے کہوں گا کہ ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہوں،عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی ہمارے مطالبات کے حوالے سے کمیٹی کمیٹی کھیلا جا رہا ہے، تاہم اگر مذاکرات سے مثبت نتائج آئے تو ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی مہم روک دی جائے گی، یہ حقیقی آزادی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے احتجاج کا ایک طریقہ ہے، سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو ملک میں سرمایہ کاری آتی اور معیشت سنبھل جاتی، مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔انہوں نے فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹ میں 9 مئی سے متعلق اپنی مرضی کے ٹرائل کئے گئے، اوپن کورٹ میں ٹرائل چلائے جاتے تو 9 مئی کی ویڈیو فوٹیج دیناپڑتی،ان کا کہنا تھا کہ 18 مارچ 2023ء کو میرے اوپر جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں حملے کی ویڈیو کا ریکارڈ دانستہ طور پہ غائب کیا گیا، شفاف ٹرائل شہریوں کا بنیادی آئینی حق ہے، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے سے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہوئے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی شدید سْبکی ہوئی،عمران خان نے کہا کہ آئینی عدالت اِس لئے بنائی گئی ہے تاکہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی طرح ہی ان سے کام لیا جا سکے، خفیہ اداروں کا اصل کام سرحدوں کا تحفظ اور دہشت گردی سے بچاؤ ہے، اگر وہ پولیٹیکل انجینئرنگ اور تحریک انصاف کو توڑنے میں ہی لگے رہیں گے تو سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟
سابق وزیراعظم کی طرف سے معیشت کی بحالی کے اعتراف کو یار لوگ ڈیل کا نا م دے رہے ہیں،اس حوالے سے ناقدین کی بات میں وزن دکھائی دیتا ہے،یہ بات تو مسلمہ ہے کہ ملکی معیشت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ترسیل زر کے سہارے کھڑی ہے،جبکہ عمران خان اوور سیز پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر روکنے کی اپیل کر چکے ہیں،ڈوبتی ڈولتی معیشت کے بحرانی دور میں اگر ترسیلات زر میں کمی آتی ہے تو زر مبادلہ کے ذخائر غیر متوازن ہو سکتے ہیں،لہٰذا یہ بات قرین قیاس ہے کہ فیصلہ ساز قوت نے بانی پی ٹی آئی کو ”ڈیل“ کا اشارہ دیا ہو،تاہم ڈیل کے نتیجے میں پہلے ڈھیل دی جاتی ہے جس سے ”ڈیل“کا تاثر پختہ ہو جاتا ہے،مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی آثار دکھائی نہیں دئیے،عمران خان نے فوجی عدالتوں میں 9مئی کے ملزموں کے ٹرائل پر بھی تنقید کی،اور تما م کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا،محسوس یہ ہوتا ہے کہ ”ڈیل کے لئے“یہ عمران خان کے مطالبات ہیں،اس حوالے سے کوئی پیشرفت ہوئی تو ”ڈیل“کی پیشکش بارے عمران خان کے دعوے کو رد کرنے کا جواز نہیں رہے گا،شائد معاشی بحران کے خاتمہ کے لئے حکومت کو اوور سیز پاکستانیوں کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے جن کے ساتھ موجودہ حکومت کا اب تک کا رویہ سوتیلی ماں جیسا تھا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے عمل کو معنی خیز بنانے کے لئے اہم ہے کہ میری ملاقات میری نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم سے کرائی جائے تاکہ مجھے معاملات کا صحیح علم ہو سکے،اس مطالبہ کو تسلیم کر لیا گیا اور مذاکراتی کمیٹی کے ارکان اور وزیر اعلیٰ کے پی کے کو ان سے الگ ملاقات کی اجازت اور ملاقات بھی کرا دی گئی،بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ حکومت اگر نتیجہ خیز مذاکرات چاہتی ہے تو ہمارے دو مطالبات ہیں، ایک مطالبہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دوسرا 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر سینئر ترین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے، ان مطالبات پر عملدرآمد کی صورت میں عمران خان نے سول نافرمانی تحریک کا اعلان واپس لینے کی بھی پیشکش کی تھی۔انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیاہے کہ حکومت ہمارے 9 مئی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے مطالبے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرے گی، لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، واضح رہے تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان سپیکر ہاؤس میں ہونے والی پہلی ملاقات میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا تھا جبکہ وزیراعظم نے ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی اُمید کا اظہار کیا تھا۔
یادش بخیر تحریک انصاف کو بھی آغاز سے ہی معاشی حکمت عملی پر مشکلات کا سامنا رہا، جس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نے تین وزرائے خزانہ تبدیل کئے جن میں پہلے اسد عمر، پھر حفیظ شیخ اور آخر میں شوکت ترین کو وزیر خزانہ لگایا گیا، معاشی میدان میں وزیراعظم عمران خان کی کارکردگی کیسی رہی؟ساڑھے تین سال بعد حکومت کے خاتمے پر چند اہم اعشاریوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے،ان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر، پٹرول کی قیمت، بیرونی قرضوں کا حجم، ترسیلات زر، تجارتی خسارہ اور روزمرہ کے استعمال کی اشیائے خوراک کی قیمتیں شامل ہیں۔ اگست 2018ء میں تحریک انصاف حکومت کا آغاز ہوا اور اختتام اپریل 2022ء میں ہوتا ہے،یہ بات سچ ہے کہ کسی نہ کسی طور تجارتی خسارہ کم ہونے کے بعد بتدریج بڑھتا رہا،ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا،پٹرول کی قیمت بھی بڑھی مگر سبسڈی دی گئی،بجلی مہنگی ہونے سے بھی روکی گئی،سبسڈی بھی دی گئی،اشیا ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، مگر اس کی شرح نگران حکومت میں ہونے والی مہنگائی کے مقابلے میں کم رہی،اس سے قبل پی ڈی ایف دو میں بھی قیمتوں نے ہائی جمپ لگائے،بعد ازاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت میں تو مہنگائی کا جن بے قابو ہو گیا،عام شہری کے لئے بچوں کی تعلیم اور علاج مشکل ہو گیا، یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی عذاب بن گئی،کچن چلانا تو انتہائی کٹھن ہو گیا،ان حالات میں قرضے لیکر معیشت کو بیساکھی کے سہارے کھڑا کیا گیا،ایسے میں عمران خان کا سول نا فرمانی تحریک کا اعلان معیشت کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھا،اس لئے فیصلہ سازوں نے معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے عمران خان کی ضرورت کو محسوس کیا اور ”ڈیل“ کا ڈول ڈالا گیا، دیکھیں اس ”ڈیل“ کے نتیجے میں چرخ نیلی فام سے کیا ظہور میں آتا ہے۔