موت کے سوداگروں کیخلاف جہاد

عاطف نے سسکیاں لیتے ہوئے بالآخر اعتراف کر لیا کہ وہ نشہ کرتا ہے۔ وہ شہر کے ایک اچھے تعلیمی ادارے میں او لیول کا طالب علم تھا۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں نشے کی گولیاں اس کی کلاس میں پڑھنے والے ایک لڑکے نے دی تھیں۔ ان لڑکوں کا ایک گروپ تھا جو پڑھائی سے دور اور ’’غیرنصابی سرگرمیوں‘‘ میں سب سے آگے تھا۔ عاطف اپنی کلاس کا ذہین اور بہتر کارکردگی کا حامل طالب علم تھا۔ وہ ان کے گروپ میں شامل نہیں تھا لیکن ایک دن پکنک کے دوران کچھ دوستوں کے ساتھ وہ اس گروپ میں بیٹھ گیا تھا۔ دوستوں کے اصرار پر اس نے بھی چرس بھرے سگریٹ کے کش لگائے۔ ایک ان جانے سرور کی لہروں نے اسے بےخود سا کردیا۔ اس کے بعد سے وہ اس گروپ میں شامل ہوگیا۔ پڑھائی لکھائی کا شوق کہیں پیچھے رہ گیا اور وہ بیک بنچر بن گیا۔ اساتذہ نے اس تبدیلی کو محسوس تو کیا مگر بااثر لڑکوں کے گروپ کی وجہ سے آنکھیں اور لب بند کر لیے۔

چرس کے بعد عاطف نے دوسرے نشے بھی آزمائے اور بالآخر آئس کا عادی ہوگیا۔ نشے کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جیب خرچ ناکافی ہونے لگا تو اس نے حیلے بہانوں سے والدین سے پیسے اینٹھنے شروع کردیے۔ اپنا مہنگا موبائل بیچ کر چوری ہوجانے کا بہانہ بنایا۔ گھر سے مختلف چیزیں بھی چرا کر فروخت کرنے لگا۔ والد کو اپنی نوکری سے اتنا وقت نہیں ملتا تھا کہ وہ اس پر توجہ دے سکیں مگر والدہ نے اس کے بدلتے رویے اور مشتبہ حرکتوں کو محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے ایک دو بار اس سے پوچھا تو عاطف نے پڑھائی کی پریشانی کا بہانہ بنایا۔ گھر کی چیزیں غائب ہونے پر اس سے پوچھ گچھ کی تو وہ لڑنے جھگڑنے پر اتر آیا۔ والدہ یہ سمجھ رہی تھیں کہ ان کا بیٹا شاید عشق محبت کے روگ کا شکار ہوگیا ہے۔ وہ اس کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے اسے میرے پاس لے آئیں۔

ابتدائی سیشن میں عاطف کا رویہ عدم تعاون کا تھا، مگر اگلی دو نشستوں میں ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور اس نے ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان سارا ماجرا بیان کردیا۔ کئی ہفتوں کی محنت کے بعد عاطف تو اس لعنت کے شکنجے سے آزاد ہوگیا مگر اس جیسے ہزاروں لاکھوں نوجوان منشیات کے روگ میں اب بھی مبتال ہیں۔ میں ایک کلینکل سائیکالوجسٹ ہوں، میرے پاس گزشتہ کچھ ماہ میں ایسے کئی کیس آچکے ہیں۔

بدقسمتی سے منشیات کی لت ہمارے تعلیمی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ بچے تعلیمی دباؤ، پیئر پریشر یا ایڈونچرزم کی وجہ سے منشیات کی لت میں مبتال ہورہے ہیں۔ خاص طور پر کالجوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلوں کے طلبہ و طالبات میں نشہ آور اشیا کا استعمال زیادہ دیکھا گیا ہے تاہم اسکول اور دوسرے ادارے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ چرس، افیون، بھنگ، شراب، شیشہ جیسی چیزوں کے بعد اب ہیروئن اور آئس یا کرسٹل کا استعمال بھی بڑھتا جارہا ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ نشہ آور اشیا میٹھی گولیوں اور چیونگم کی شکل میں بھی ملنے لگی ہیں اور طلبہ و طالبات انھیں بے دھڑک کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ نشے کا یہ عفریت طبقاتی تفریق سے بے نیاز ہر طبقے کے لوگوں کو شکار کر رہا ہے۔ اپر کلاس کے ساتھ ساتھ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے بھی نشے میں کی دلدل میں اترتے جارہے ہیں۔ بچوں کو نشہ آور چیزیں فراہم کرنے والے مافیا نے سوشل میڈیا کو بھی اپنا آلہ بنالیا ہے۔ واٹس ایپ سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ایسے گروپ بنے ہوئے ہیں جو نشہ آور اشیا فراہم کرتے ہیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ زیادہ تر والدین اپنے بچوں کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ وہ بچوں کی عادات و اطوار میں تبدیلی کو نوٹ بھی نہیں کرتے۔ نہ بچوں کی مشکالت اور ذہنی کیفیات سے آگاہی کی کوشش کرتے ہیں نہ ان کے دوستوں کے بارے میں زیادہ واقفیت رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک ان کی آنکھیں کھلتی ہیں پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ سندھ میں ڈرگ مافیا کے خالف ایک بڑے جہاد کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ صوبے کی ایکسائز، ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کنٹرول کی وزارت کا قلمدان سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کے پاس ہے جو منشیات کی تباہ کاریاں روکنے کے حوالے سے خاصے سنجیدہ ہیں۔ انھوں نے یہ وزارت سنبھالتے ہی منشیات فروشوں کو پیغام دیا کہ اب ان کے دن گنے جاچکے ہیں، وہ اس مکروہ دھندے سے باز آجائیں۔ شرجیل انعام میمن نے نارکوٹکس کنٹرول ونگ کو فعال کیا اور صوبے بھر میں ایک بھرپور کریک ڈاؤن شروع کیا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف تین مہینوں میں مختلف کارروائیوں میں ساڑھے گیارہ کلو آئس، سات کلو سے زیادہ ہیروئن، 238 کلو سے زیادہ چرس، 60 کلو سے زیادہ بھنگ اور ہزاروں لیٹر شراب پکڑی گئی۔ نارکوٹکس کنٹرول ونگ نے ڈرگ مافیا کے نیٹ ورک کو توڑ ڈالا ہے اور ڈیڑھ سو کے قریب ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں ایسے ملزمان بھی شامل ہیں جو منشیات فروشی کے ماسٹر مائنڈ اور اس دھندے کے کنگ سمجھے جاتے تھے ان کی گرفتاریوں سے دیگر مجرموں کے حوصلے پست ہوئے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لیے محکمہ نارکوٹکس کنٹرول نے پالیسی بھی مرتب کر لی ہے۔ سینئر وزیر سندھ شرجیل انعام میمن نے گزشتہ دنوں یہ اعلان بھی کیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کے ڈرگ ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔ اس حوالے سے کچھ والدین اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی جانب سے تحفظات بھی سامنے آئے تاہم صوبائی وزیر نے واضح کیا کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے درست اعداد و شمار سامنے آسکیں اور اس مسئلے کی سنگینی کا درست طور پر تعین ہوسکے۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ اس ٹیسٹ میں طلبہ کی رازداری کا خصوصی خیال رکھا جائے گا اور نشے کی عادت میں مبتال بچوں سے صرف انھیں منشیات سپالئی کرنے والوں کے نام پوچھے جائیں گے تاکہ نئی نسل کو اندھیروں میں دھکیلنے والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائی جاسکیں۔ اس سلسلے میں نارکوٹکس کنٹرول ونگ نے سندھ کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینس ایکٹ 2024 کا مسودہ تیار کرلیا ہے جسے جلد صوبائی کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ سندھ حکومت کی ان سنجیدہ کوششوں کو دیکھتے ہوئے امید پیدا ہوئی ہے کہ موت کے سوداگروں کا یہ دھندا آخری سانسیں لے رہا ہے اور جلد ہمارے تعلیمی اداروں اور گلی کوچوں میں منشیات کا نام و نشان تک نہیں ہو گا۔

26 جون کو ہر سال اقوام متحدہ کے تحت منشیات کے استعمال اور اس کی غیر قانونی تجارت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے آئیے ہم بھی عہد کریں کہ آئندہ نسلوں کی بقا و تحفظ کے لیے اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ خاص طور پر والدین اور اساتذہ کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کو منشیات کے زہر سے بچانے کے لیے اپنا فریضہ ادا کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں