مکمل غیر سیاسی کالم……!!!!

ایک مشہور کہاوت ہے ”خود کردہ را علاج نیست“ لہٰذا ہم نے بھی سوچا کہ بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے سیاست کی بجائے غیرسیاسی کالم لکھا جائے۔ کیا کرنا سیاست کا، جس ملک میں جمہوریت نہیں وہاں سیاست کا کیا کام؟ لہٰذا اب ہم صرف غیر سیاسی کالم لکھنے کی ”کوشش“ کیا کریں گے۔ اپنے اور آپ کے ان مسائل کی باتیں جو ذرا چٹ پٹی ہوں جن کو پڑھ کے ہم تھوڑا بہت ہنس بھی لیں (کہیں ہنسنے پر بھی پابندی نہ لگ جائے)۔ خیر سیاست پر لکھتے ہوئے اب ہنسنا ہی نہیں،بلکہ رونا بھی آتا ہے،بلکہ شاید دونوں اکٹھے ہی آتے ہیں۔ بہرحال اس ہفتے کی کچھ خبریں کافی چٹ پٹی تھیں، لہٰذا ان کو آپ تک اپنے انداز میں پہنچانے کی ”کوشش“ کی ہے۔ مثلاً کراچی سے ایک خبر آئی ہے کہ اب شادی کے ”خواہشمند دولہوں“ کو حکومت کو 10فیصد ”ودہولڈنگ ٹیکس“ ادا کرنا ہو گا۔ عجیب بات ہے شادی کرنے کا مطلب ہی ساری عمر ’ٹیکس“ دینا ہے۔ یہ ٹیکس ساری عمر پہلے بیوی اور پھر بچے وصول کرتے ہیں، یعنی وقت گزرنے کے ساتھ وصولی بڑھتی جاتی ہے، لیکن ”آئی ایم ایف کی قیدی“ حکومت نے سوچا کہ پہلے ہمارا حصہ ادا کرو، چنانچہ ایف بی آر نے کراچی کے شادی ہال مالکان کو پابند کیا ہے کہ اب جو بھی دولہا شادی کی بکنگ کرائے گا اسے شادی ہال کے ”کل اخراجات“کا 10فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادا کرنا ہو گا،یعنی اگر شادی ہال کا خرچہ 10 لاکھ ہے تو ”ایک لاکھ سرکار“ کو ملے گا، یعنی اب ”دولہا ٹیکس“ کی شکل میں نیا ٹیکس آ گیا۔ غیر شادی شدہ نوجوانوں کو دولہا ٹیکس کے نفاذ کے بعد شادی میں تاخیر برداشت کرنا ہو گی تاکہ ٹیکس کی رقم اکٹھی کی جا سکے۔ دیکھتے ہیں کراچی کے بعد دولہا ٹیکس اسلام آباد، پنڈی، ملتان، پشاور اور دِل والوں کے شہر لاہور کب پہنچتا ہے۔

ایک اور چٹ پٹی خبر کا تعلق بھی کراچی سے ہی ہے۔ کراچی کے شہریوں کو چاہئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا شکریہ ادا کریں،بلکہ اگر ہوسکے تو آئی جی صاحب کے دفتر اور گھر گلدستے،پھول،مٹھائیاں بھجوائیں کہ آئی جی صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ کراچی میں جو بھی ایس ایچ او اور ایس آئی او قتل، بچوں اور خواتین کے اغوا، گمشدگی، ڈکیتی، موٹر سائیکل چوری، کار چوری، قیمتی اشیاء چوری اور چھینے جانے کی کارروائیوں کی شکایت پر فوری کارروائی نہیں کرے گا (فوری کارروائی سے مراد خدانخواستہ باگ دوڑ یا وہ بندر والی درخت پر چھلانگیں نہیں لگانی اور پھر کہنا دیکھ میری آنیاں جانیاں)،بلکہ فوری ایف آئی آر درج کرنی ہے اور جو ایف آئی آر درج نہیں کرے گا اس ”ایس ایچ او اور ایس آئی او“ کو غلام نبی میمن کے ان تازہ احکامات کے تحت ایک انکوائری کے بعد ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا۔ لگتا ہے آئی جی سندھ غلام نبی میمن صاحب بھول گئے کہ کراچی کے اکثریتی تھانوں میں اندرون سندھ کے جاگیر داروں، طاقتور سیاستدانوں کے رشتہ دار، قریبی دوستوں کے بچے تعینات ہیں۔وہ طاقتور پولیس افسر جن کا تعلق اندرون سندھ کے ”طاقتوروں“ سے ہے کب تک آئی جی سندھ کا یہ فیصلہ برداشت کرتے ہیں۔

ایک اور کمال کی خبر جسے ”تفریق“ قرار دیکر ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، سوئی ناردرن گیس کے ایم ڈی کی شہر اقتدار سے محبت کا شاہکار ہے۔ ایسا لگتا ہے اسلام آباد کے شہری پاکستان نہیں امریکہ، کینیڈا میں بستے ہیں اور ہم ”کمی کمین“ یعنی لاہور، پنڈی، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ کے رہنے والے پاکستانی نہیں ہیں۔ آپ محسوس کریں نہ کریں میں تو اپنے آپ کو یہ خبر پڑھنے کے بعد کمی کمین محسوس کررہا ہوں کہ اسلام آباد کے شہریوں کو اب صبح 5 بجے سے رات 11 بجے تک بلا تعطل گیس فراہم کی جائے گی، جبکہ ہم کمی کمینوں کو صبح 6 سے 9 بجے تک گیس ملے گی کہ ناشتہ بنالو، منہ ہاتھ دھو لو، پھر دوپہر کو 12 سے 2 بجے تک کہ چلو کچھ ”کھانا شانا“ پکا لو اور رات کو 6 سے 9 آخر رات کا کھانا بھی تو پکانا ہوتا ہے۔ خبر کے مطابق یہ فیصلے جی ایم سوئی ناردرن عدنان احمد نے سنائے ہیں۔ میں نہیں جانتا عدنان احمد کا تعلق کس شہر سے ہے اور ان کے گھر والے اور رشتہ دار کہاں رہائش پذیر ہیں۔ اللہ کرے کہ وہ لاہور میں کہیں رہتے ہوں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ جب آپ کا بچہ رات کو اُٹھتا ہے اور آپ اس کو باتھ روم لے کے جاتے ہیں تو سرد پانی سے کتنی تکلیف ہوتی ہے یا جب آپ کے والدین صبح فجر کی نماز پڑھنے کے لئے وضو کرنے کے لئے پانی کھولتے ہیں تو ان بزرگوں کو وہ ٹھنڈا پانی کیسے برداشت کرنا ہوتا ہے، لیکن لگتا ہے عدنان صاحب خود بھی شہر اقتدار اسلام آباد کے باسی ہیں، لہٰذا یہ فیصلہ شاید ان کے اپنے لئے بھی ہے۔ اگر وہ کسی اور شہر میں آباد ہوتے تو شاید یہ فیصلہ اس شہر کے لئے بھی ہوتا۔ ایک بات البتہ سمجھ نہیں آئی کہ جو ”بزرگ ماں باپ“ گرم پانی نہ ہونے کی وجہ سے صبح کی نماز قضا کریں گے ”اس کا ثواب یا گناہ“ کس کے سر جائے گا۔

ایک خبر لاہور میں سموگ کے حوالے سے ہے۔ ڈاکٹروں اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق سموگ سے شہریوں خصوصاً بچوں کی عمریں گھٹ جائیں گی، اس سے عوام تو خوفزدہ ہیں،لیکن حکومت کو کوئی خوف نہیں۔ حکومت کو صرف تاجروں سے خوف آتا ہے۔اس کے خیال میں صرف تاجر اس کے ووٹر ہیں، باقی عوام اس کے ووٹر نہیں۔ ہم عام لوگوں کا تعلق شاید تحریک انصاف سے ہے اور صرف تاجر ہی مسلم لیگ(ن) کے ووٹر ہیں، لہٰذا حکومت نے یہ جانتے ہوئے کہ پوری دنیا کے ہر مہذب معاشرے، شہر اور ملک میں شام کو کوئی کاروبار نہیں ہوتا، تاجروں کی خوشنودی کے لئے مارکیٹس 8 بجے بند کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا، فضائی آلودگی مزید بڑھ جائے گی تو کیا فرق پڑتا ہے۔ان ”کمی کمین“ موٹر سائیکلوں، سائیکلوں پر پھرنے والوں، پیدل چلنے والوں، بسوں میں سفر کرنے والوں کی ”آبادی“ اسی طرح کم ہو گی تو اچھا ہے 24 کروڑ کی آبادی ہے اور دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اب اسے کم کرنے کے لئے ”مختلف طریقے تو آزمانے“ ہوں گے، کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ بچے پیدا ہوئے جارہے ہیں ان کو کیسے روکا جائے؟ بہتر یہی ہے کہ جو پیدا ہوگئے ہیں ان کو ”واپس بھیج“ دیا جائے کہ اللہ میاں اپنی مخلوق اپنے پاس رکھیں اسے خود سنبھالیں، ہم پر بوجھ نہ بڑھائیں۔ بجائے اس کے کہ ہم فضائی آلودگی کم کرتے، سموگ کنٹرول کرتے، ہم نے ایک دفعہ پھر اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ مزید بڑھا دیا ہے۔ حکومت بھول گئی کہ ایک حکومتی ادارے کے مطابق لاہور میں فضائی آلودگی میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 85 فیصد ہے، لیکن مجھے ساتھ ہی ”بیچارے باوردی پولیس والوں“ سے بھی اظہار افسوس کرنا ہے، ابھی دو رات قبل ہی ایک منظر دیکھا تھا کہ کچھ دکانوں کے باہر پولیس کی گاڑی کھڑی تھی اور آٹھ بجے کے بعد ”دکانیں کھلی رکھنے کے جرم“ میں دکانداروں سے ”وصولیاں“ کی جا رہی تھیں، بجائے اس کے کہ شٹر بند کروائے اور تالے لگوائے جاتے، کاروبار کی اجازت دی جا رہی تھی کہ ہمارا حصہ دو، ہماری جیب گرم کرو تو کاروبار جاری رکھ سکتے ہو۔جب اس طرح ہوگا تو پھر تو اللہ ہی اللہ، بلکہ اللہ اللہ خیر صلا۔

اپنا تبصرہ لکھیں