میں دشمن ساز ہوں!

مہاتما بدھ نے میرے لئے ہی کہا تھا ’’تمہارا بدترین دشمن تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا تمہاری اپنی بلا غوروفکر کی سوچیں‘‘ ۔میں تو مشہور امریکی گلو کار فرینک سناترا کے اس قول کی عملی تفسیر بھی ہوں ’’تم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن ہو‘‘۔ میں دشمن بنانے میں ماہر ہوں، دشمن سازی کا ایک اپنا ہی مزہ ہے، دوست بنانے کا کیا فائدہ ؟میں یا تو اپنی زندگی میں ہاتھ بندھے غلام چاہتا ہوں یا پھر ہر وہ شخص میرا دشمن ہے جو مجھ سے ذرا سابھی اختلاف کرے۔ جب میں سو فیصد یقین رکھتا ہوں کہ میں ہی ٹھیک ہوں تو پھر میرے لئے لازم ہے کہ میں بظاہر دوستی کرنے والوں کو ،جو مجھ سے اختلاف رکھتے ہیں ،اصل میں اپنا دشمن سمجھوں۔

کوئی صحافی ہو یا سیاستدان، کوئی فوجی ہو یا بیوروکریٹ اسے میرا دوست بننا ہے تو اسے اختلاف کا کوئی حق نہیں اور جو کوئی مجھ سے اختلاف کرے اور جب میں اسے سمجھائوں اور وہ نہ مانے تو پھر اس سے میری کھلی جنگ ہے۔ وہ جج جو درمیان درمیان میں چلے، وہ صحافی جو دونوں تینوں پر تنقید کرے، وہ بیورو کریٹ جو ہر پارٹی کی حکومت میں کام کرے، کوئی سیاسی ورکر جو آنکھیں بند کرکے پارٹی پالیسی پر نہ چلے، وہ سرگرم کارکن جو پارٹی کے کہنے پر دوسروں کو گالیاں نہ دے، پتھر نہ مارے، دوسروں کو بے عزت نہ کرے، مجھے ہر گز پسند نہیں، میری نظر میں یہ سب لوگ منافق ہیں، حق ایک طرف ہوتا ہے انہیں جہاد کیلئے میرا ساتھ دینا چاہیے گومگو کی کیفیت سے نکلنا چاہیے، میرے بزدل دوست اور ساتھی جو لڑ نہیں سکتے، جو مفاہمت کی بات کرتے ہیں ان سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ میں سب کا ہیرو تھا، کیا جج، کیا جرنیل، کیا جرنلسٹ، کیا جغادری سیاست کار، سب میرا دم بھرتے تھے ہر کوئی میرے کرشمہ کا زخم خوردہ تھا، بیرون ملک آباد تضادستانی تو مجھ پر تب بھی مرمٹتے تھے آج بھی وہی حال ہے انہوں نے مجھےفانی انسان سے دیوتا کا درجہ دیا، میں واقعی اپنے کردار اور مرتبے کی حیثیت سے اس کا اہل ہوں۔ اگر خواتین میری ایک جھلک پر فدا ہو جاتی ہیں تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ میں یونانی دیوتائوں کا پرتو ہوں۔ ایک مجھ پر حسن اور کرشمہ کی بارش دوسرا مجھے روحانیت کی دنیا کی سب سے بڑی شخصیت کا ساتھ میسر آگیا اب تو میں دیومالائی شہزادہ اور سب سے بڑا مرشد ہوں۔ دشمن میرا کیا کرسکتے ہیں، میرے ارد گرد روحانی حصاراور پہرہ ہے، مجھے روحانی طور پر پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ آپ کی مقتدرہ اور جنرل باجوہ سے لڑائی ہوگی مشکل وقت آئے گا مگر اس کے بعد آپ کو پوری طاقت اور اختیار کے ساتھ اقتدار ملےگا۔ ابھی میرا مشکل وقت ہے لیکن جب آسان وقت آئے گا تو میں اپنے دشمنوں میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا قدرت میرا ساتھ دے گی روحانیت میری پشت پر ہوگی اور مادی ذرائع مجھے اقتدار مہیا کردیں گے بس میرا دور آنے ہی والا ہے۔

اپنے لشکر میں واحد بہادر اور دلیر میں ہی ہوں ۔میرا گوہر نایاب بھی بزدل نکلا، میرا سرحدی اسد یعنی شیر بھی جارحانہ انداز نہیں رکھتا اور تو اور ایوبیہ چوبدار بھی جاندار نہیں، آ جا کر ڈیرے دار گنڈا پور ہی میرے راستے پر چل رہا ہے۔ دشنام، گالی، دوسروں کو ذلیل و خوار کرنے سے ہی عوام خوش ہوتے ہیں۔ یہ سارے دشمن ہیں ہی اس قابل کہ انہیں گالیاں دی جائیں۔ مجھے فخر ہے کہ آج ایک پورا گروہ دشنام اور گالی پر تیار ہے آخر وہ مجھے درست سمجھتے ہیں تبھی تو ایسا کرتے ہیں، اب تو صورتحال یہ ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ ہمدردی کرے یا ہماری حمایت بھی کرے لیکن ماضی میں اس نےاگر ہم سے اختلاف کیا ہو تو وہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں، اب ہمارا اخلاقی پیمانہ اتنا بلند ہو گیا ہے کہ فرشتہ بھی آجائے اور ہماری چھلنی سے گزرے تو اس کی غلطیاں بھی عیاں ہو جائیں گی۔ کیا قاضی، کیا جج، وہ سو الیکشن کروانے میں مدد دیں ہمارے دشمن ہی رہیں گے۔ یا آپ ہمارے حق میں ہیں یا ہمارے خلاف، درمیان والوں کو ہم دشمن ہی سمجھتے ہیں۔ ایک زمانے میں سارے عین ہمارے تابعدار ہوتے تھے عثمان بزدار، عارف علوی، گورنر عمران غرضیکہ سارے عین قمری اعداد کے اعتبار سے ہمارے لیے ’’سعد‘‘ تھے اب یہی عین کبھی عاصم منیر کی شکل میں اور کبھی عاصم ملک کے روپ میں ہمارے لئے ’’سعد‘‘ نظر نہیں آتے، ستارے الٹی چالوں پر آگئے ہیں، نہ 9 مئی کو نجوم اور روحانیت نے ہمارا ساتھ دیا، نون اور عین نے ایسی معجون بنائی کہ ہمارے سارے ب اور عین اڑ گئے۔ ہم نے ف پر بھروسہ کیا لیکن عین اتنا مضبوط تھا کہ اس نے ف اور ب سب کو شکست دے ڈالی۔ علم دست شناسی کے ماہر صادق ملک نے بتایا کہ جنرل عاصم منیر یعنی چڑھتی عین کے ہاتھ پر ڈبل راجہ یوگ ہے اور ان کے مقدر کی لکیر بہت مضبوط اور پختہ ہے جبکہ میرے ہاتھ پر بھی ڈبل راجہ یوگ ہے لیکن میرے مقدر کی لکیر شکستہ ہے اور ان دِنوں اس میں ایک جزیرہ بھی قائم ہے جو مشکلا ت کی نشاندہی کرتا ہے مگر آگے جا کر یہ جزیرہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر سےمیرے مقدر کی توانا لکیر ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجھے پھر اقتدار مل سکتا ہے مگر فی الحال میں جزیرے میں قید ہی نظر آ رہا ہوں۔

آج کل ’’ب‘‘ میری ریڈ لائن ہے ۔جنرل ب نے ایک بار مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ زنانہ ’’ب‘‘ کو ریاستی امور کے مشوروں میں شریک نہ کروں تو میں نے ترت کہہ دیا کہ یہ میری ریڈ لائن ہے۔ جنرل ع نے جب مجھے ’’ب‘‘ اور فری شہزادی کے کچھ ثبوت دکھائے تو اس دن سے میں نے اپنے اس فین کو بھی دشمن ڈیکلیئر کردیا ۔ یہی قاضی ف ع بھی میرا دشمن ہے۔ ہاں گنڈا پور کے نام کی عین میری توپ ہے۔ بیرسٹر ظفر کے نام کی عین میرا تیر اور تفنگ ہےمیں اپنے اسی اسلحے سے جیتوں گا، میرے ستارے ٹھیک ہو لینے دیں میں پھر سے چھا جائوں گا۔ کیا ہوا جو میں عدالت میں ہار گیا، کیا ہوا جو میں عوامی انقلاب نہیں لا سکا ، کیا ہوا جو اسلامی دنیا میں میری ذات کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھی، یہ سارے بزدل ہیں یہ سارے طاغوت کے ساتھی ہیں، ٹرمپ کو آ لینے دیں یہ دنیا بدل جائے گی۔ پھر میں سب جیموں کو یعنی جرنیلوں، جرنلسٹوں اور جگے سیاستدانوں کو ایسا تگنی کا ناچ نچائوں گا کہ دنیا دیکھے گی۔ مجھے دشمن بنانے کا شوق ہے سیاست ویسے تو زیادہ سے زیادہ دوست بنانے کا نام ہے مگر مجھے اس سیاست سے نفرت ہے مجھے دشمن بنانے میں مزہ آتا ہے، آج کے سارے دشمن کبھی میرے دوست تھے میں نے اپنی صفوں سے بزدل نکال دینے ہیں یہ بھی میرے دشمن ہیں، میں دشمن سازی سے ہی جیت کر دکھائوں گا، میں کوئی ہٹلر یا مسولینی نہیں، میں راسپوٹین بھی نہیں، میں روحانی اور دیومالائی دیوتا ہوں، ستارے اور روحانیت میری مدد کو آئے گی۔ میرا انجام ہٹلر، مسولینی یا راسپوٹین جیسا المناک نہیں بلکہ سنہرا ہو گا دیکھتے جائیں آخر میں، میں ہی جیتوں گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں