آج بانیٔ پاکستان کایومِ ولادت ہے اور اس لحاظ سے دو قومی نظریے کی سچائی سامنے آتی ہے کہ جن ہندوؤں کے خلاف ہم برسرِپیکار ہوئے اُنہوں نے تواپنی کچھ سمت ڈھونڈ لی اور طے بھی کرلی۔ اپنے ملک کو بھی انہوں نے خاصا سنبھالا دے رکھا ہے۔ لیکن ہم . اس سے آگے کیا کہا جائے؟ اپنے کارناموں کی بات کرنے بیٹھیں تو سرگزشت رونے میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہماری تاریخ کو چھوڑیے‘ آج موقع نہیں کہ ماضی کی بیوقوفیوں کا ذکر چھیڑ یں۔ لیکن جو آج کل کے حالات ہیں ‘ کن گہری کھائیوں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں۔ بڑی باتوں کو چھوڑیے کل کی اخبارات میں ہی دو خبروں نے کم از کم مجھے ہلا کے رکھ دیا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں احمدزئی وزیر وزیرستان کا ایک قبیلہ ہے۔ وانا بازار سے نکلتے ہوئے اُس قبیلے کا سربراہ ملک طارق وزیر مسلح افراد کے ہاتھوں اغوا ہو گیا۔ وہاں اگر قبائلی سردار بھی محفوظ نہیں توصورتحال کیسی ہو گی؟ اُسی دن میرعلی سب ڈویژن کے اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی اوردو محافظ اغوا ہو گئے۔ گاڑی پٹرول ڈلوانے رکی تھی جب یہ حادثہ ہو ا۔ محافظ مسلح بھی ہوں گے لیکن پھر بھی اٹھا لیے گئے۔ یہ صرف ایک جھلک ہے اُس علاقے کی صورتحال کی۔
یہ صورتحال غیروں کی پیدا کردہ نہیں ہے‘ ہمارے ہی ماضی کے کارنامے تھے جن کی وجہ سے آج وہ سارا علاقہ جنگ و جدل کا میدان بنا ہوا ہے۔ نام نہاد جہاد کا سبق ہمیں کس نے دیا تھا؟ہمارے تب کے سربراہان ہی ایسے تھے کہ افغانستان کی صورتحال کو دیکھتے اُنہوں نے اپنے آپ کو نپولین سمجھا اورآنکھیں بند کرکے وہاں کی آگ میں کود پڑے۔ امریکیوں نے ہمیں استعمال کرنا تھا‘ خوب کیا۔ ہمیں استعمال کرکے اپنے دشمن سوویت یونین کو انہوں نے افغانستا ن میں مزہ چکھایا۔ اوراُس وقت ہم بغلیں بجاتے رہے کیونکہ ہمیں اسلحہ‘ بارود ‘ ڈالر اور ریال مل رہے تھے۔ افغانستان کے حالات میں ہم اس انداز سے ملوث ہوئے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کو ہم نے افغانستان بنا دیا۔ ایک زما نہ تھا جب ہم ڈیورنڈ لائن کے پار مداخلت کرتے تھے اورآج پہیہ ایسا گھوما ہے کہ اُس پار سے مداخلت یہاں ہو رہی ہے اور ہمیں سوجھ نہیں رہا کہ اس ریورس دراندازی کا توڑ ہم کیسے کریں۔ نام نہاد جہاد کے مزے ہم نے روسیوں کو سکھائے‘ روسی تو وہاں سے نکل گئے اور آج نام نہاد جہاد کا مزہ ہمیں چکھنا پڑ رہا ہے۔ جو بھی نام ہم وہاں کی دراندازیوں کو دیں‘ وہ بھی اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے اسلام کا نام لے کر جو اسلام کے ساتھ کیا ہے وہ دشمنانِ اسلام بھی نہ کرسکتے تھے۔
ایک مسئلہ یہاں یہ پیدا ہو چکا ہے کہ اخبارات کیلئے لکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ہر دوسری چیز حساس سمجھی جاتی ہے اور حساس موضوع کو چھیڑنا ممنوع قرارپاتا ہے۔ کچھ موضوع تحفظِ ریاست کے نام پر حساس ٹھہرتے ہیں‘ کچھ تحفظِ اخلاقیات اور تحفظِ دین کے نام پر حساس سمجھے جاتے ہیں۔ نہ ایک کوچھیڑسکتے ہیں نہ دوسرے کو۔ کسی پیرائے سے بموں اور میزائلوں کی بات کریں وہ تحفظِ ریاست کے زمرے میں آ جاتا ہے‘ رندوں اور مے خانوں کی بات کریں اُس سے اخلاقیات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انسان جائے تو جائے کہاں‘ لکھے تو کیا لکھے۔ نہ محافظانِ ملت سے جھگڑا مول لیا جاسکتا ہے نہ محافظانِ اخلاقیات سے۔
جب چھیڑخانی کی خاطر آئیں بائیں شائیں کرکے گنڈاپوری شہد کا ان سطور میں تذکرہ ہو جاتا ہے توایسے غصیلے پیغام کالم کے نیچے لکھے جاتے ہیں کہ ڈر بھی لگتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ کئی سکہ بند ناصح جنہوں نے اپنے آپ کو اس کام کیلئے مخصوص کیا ہوا ہے تقریباً چیخ کر کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں کس نے ایسی باتوں کی اجازت دی ہے۔ ان ٹھیکیدارانِ اخلاقیات سے پوچھا جائے کہ پاکستانی معاشرہ آپ کو اسلامی معاشرہ نظر آتا ہے؟ یہاں کی چوری چکاری‘ جھوٹ اور فریب کاری‘ آپ کو کس زاویے سے اسلامی معاشرے کا شائبہ دیتی ہیں؟ رشوت اورراشی پن کے خلاف ہم چیچی انگلی نہیں اُٹھا سکتے۔ اصلاح کے نام پر آئین‘ جمہوریت اور جمہوری اقدار کے ساتھ جو یہاں ہوتا ہے اُس کے سامنے ہم یملے بنے ہوتے ہیں۔ لیکن آنکھوں میں چمک لانے والی کوئی بات ہو جائے‘ شعروشاعری کی بات ہی سہی‘ کچھ ساغرو مینا کے بارے میں‘ تو خودساختہ ناصح چیخ اٹھیں گے کہ گمراہی کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
دنیا میں ہماری حالت کیا بن چکی ہے اُس پر تو ایک نظر دوڑائیں۔ طاقتور اورخوشحال ممالک کون سے ہیں اور اُن کے مقابلے میں ہماری کیا حیثیت ہے؟پرانی عظمتوں کی باتیں کرنے کے ہم بڑے ماہر ہیں‘ لیکن پرانی عظمتیں ہر تہذیب کا حصہ رہی ہیں۔ بات تو آج کی ہے‘ آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جن کے پاس تیل کی دولت ہے وہ بھی اپنے تحفظ کیلئے امریکہ کے محتاج ہیں۔ اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ ویسے بھی اُمہ کے جو امیر ممالک ہیں‘ جن کے پاس تیل کی دولت ہے‘ اُنہوں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے اور وہ مغرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان امیر ممالک کو نہ فلسطین میں دلچسپی ہے نہ کشمیر میں۔ ویسے بھی حالیہ واقعات نے اسلامی ملکوں کی نام نہاد مزاحمتی قوتوں کا حشر کر دیا ہے۔ حماس نے ایسا میدانِ جدل سجایا کہ خود تواُس کا حساب ہوا لیکن ساتھ ہی حزب اللہ اور ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ شام میں بشارالاسد پر مشکل وقت آیا تو نہ حزب اللہ‘ نہ ایران اُس کی مدد کو آسکا۔ اسرائیل نے موقع کا کیسے فائدہ اٹھایا ہے۔ جسے مزاحمت کا محور کہا جاتا تھا اُس کی ساری صورت دھندلی ہو گئی ہے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد جسے ریڈیکل یا انتہا پسند اسلام کا نام مغربی حلقوں میں دیا گیا آج اُس کاوجود کونے کھدرو ں تک رہ گیا ہے۔ لیکن ہمارے لیے انتہا پسندی کی یہ شکست کوئی خوشی نہیں رکھتی کیونکہ ان کونے کھدروں میں ہمارا شمال مغرب کا علاقہ یعنی کے پی بھی آتاہے۔ ریڈیکل اسلام ہر جگہ سکڑ گیا ہے لیکن یہاں جیتا جاگتا ہے اور وہ اس لیے کہ ہمارے ایسے ایسے سورما آئے کہ انتہا پسندی کی آگ میں دانستہ ایندھن ڈالتے رہے۔ سمجھ رہے تھے کہ اس آگ کو اپنے لیے استعمال کریں گے‘ عقلِ کلوں کو کیا خبر ہونی تھی کہ اُس آگ سے ہم نے ہی جھلسنا ہے۔
کیا ہمارے مفتیانِ حق و سچ دیکھ نہیں سکتے کہ جن اسلامی ممالک کو ہم اپنا رہبر سمجھتے تھے اُنہوں نے اپنے آپ کو کیسے تبدیل کر لیا ہے؟ دبئی تو سب جاتے ہیں‘ دیکھ نہیں سکتے کہ وہاں کیسا معاشرہ تشکیل پا چکا ہے؟ اور سعودی عرب جو رجعت پسندی کا قلعہ سمجھا جاتا تھا‘ اُس نے اپنے آپ کو نہایت ہی قلیل مدت میں کیسے ٹرانسفارم کر لیا ہے۔ ان مسلم ممالک کی مسلمانی توکم نہیں ہوئی۔ اپنی ریاستو ں کو آج کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم پر کون سا بخار چڑھا ہوا ہے کہ یہ نئے رجحانات نہ ہم سمجھ رہے ہیں نہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔رجعت پسندی کا قلعہ سعودی عرب نے کیا ہوناتھا‘ یہ سہرا ہم نے اپنے سرباندھ لیا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ کسی نئی سوچ کو یہاں پر آنے نہیں دینا۔ مادی چیزوں میں پسماندہ ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ مادی کمزوریاں تو پوری ہوسکتی ہیں۔ ہم ذہنی طور پر پسماندہ ہیں۔ ہماری عادات ‘ ہمارے افکار‘ اگر افکار نام کی کوئی چیز یہاں موجود ہے‘ وہ پسماندہ ہیں۔
بانیٔ پاکستان تو بڑے ماڈرن قسم کے انسان تھے۔انگریزوں سے زیادہ انگریز لگتے تھے۔ اُ ن میں اورپاکستانی معاشرے میں کوئی قدرِ مشترک نظر آتی ہے؟