نئے سال کے بڑے چیلنجز اور چھوٹی سوچ

پاکستان میں مسلط نظام نے قومی مفاد اور استحکام کیلئے جو بیانیہ بنایا ہے‘ وہ نئے دور کے نئے سال میں اپنی مثال آپ ہے۔ اگلے روز ایک ٹی وی شو میں میزبان نے سوال کیا کہ جب امریکہ نے کیپٹل ہِل اور برطانیہ نے سینٹرل اور ساؤتھ لندن کے ہنگامے کے مجرموں کو سزا دی اس پہ تو یورپی یونین نہیں بولا‘ پاکستان میں ملٹری کورٹ کی سزاؤں پر یورپی یونین کے پیٹ میں کیوں مروڑ پڑگیا ہے؟ جواب دینے کے بجائے میں نے یوں جوابی استفسار کرنا مناسب سمجھا کہ یہ بتائیں کیا امریکہ اور برطانیہ میں سویلین کے ٹرائل ملٹری کورٹس نے کیے تھے؟ اس سوال نما بیانیے سے نئے سال میں پاک سر زمین کا نظام کیا ہو گا‘ اس کی ترجیحات سامنے آتی ہیں۔ ایڈم سمتھ (Adam Smith) کی معاشیات میں قومی ترجیحات کو Scale of Preferences کہاگیا۔ جن دو ملکوں میں سزا اور تعزیر کی مثالیں دی جا رہی ہیں‘ وہاں نئے سال کیلئے امریکہ کی نئی ایڈمنسٹریشن کی تین ترجیحات یہ ہیں: پاناما‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ چین اور بھارت وغیرہ سے امریکہ میں آنے والی اشیا پر لگائی جانے والی ڈیوٹیز میں کئی سو گنا کا اضافہ کرنا۔ دوسری ترجیح کو Affordable Dining قرار دیا گیا ہے جس سے مراد ہے کہ ہر امریکی شہری باعزت روٹی کا نوالہ حلق سے اُتارنے کے قابل ہو جائے۔ تیسری ترجیح کے تحت دور دیس کے ملکوں میں پراکسی جنگیں لڑنے والے امریکی فوجیوں پہ بھاری اخراجات بند کرنا ہے۔
نئے سال کی ترجیحات میں برطانیہ کی حکومت نے پہلے تسلیم کیا کہ برطانیہ میں 2024ء معاشی ترقی کے حوالے سے سٹیٹس کو کا سال رہا۔ چنانچہ 2025ء میں نئے معاشی ٹُولز دریافت کرکے بے گھر افراد اور کم اُجرت والے ورکرز کو انسانی ضرورتوں کی فراہمی میں آسانی دینی ہے۔ جبکہ تیسری ترجیح بیرونی ممالک کے طالب علموں کی فیسوں میں اضافہ اور ماحولیات پر توجہ ہے۔ جن دو ملکوں کی مثال ہمارے منیجرز اپنے بیانیے میں دلیل کے طور پر دے رہے ہیں وہاں ملک اور قوم کو درپیش بڑے چیلنجز کی نشاندہی کرنے کے بعد ان کا مداوا نئے سال کا قومی بیانیہ ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سے تقابل کرنے والوں کی اطلاع کیلئےعرض ہے کہ وہاں پنٹاگون‘ امریکی آرمی‘ رائل برٹش فوج کے سربراہوں اور امریکی و برطانوی سپریم کورٹ کے ججوں کے کوئی نام ہی نہیں جانتا۔ لوگوں کی خدمت کیلئےبھرتی ہونے والے گمنام افراد کبھی میونسپلٹی یا مئیر شپ کے معاملات میں مداخلت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارا پچھلا سال بڑے معاملات میں بڑے بڑے جھوٹ پھیلانے والے چھوٹی سوچ کے منیجرز کے تجربات کی نذر ہو گیا۔
سالِ نو کے آغاز پر کون نہیں جانتا کہ شریفوں کی سرپرستی میں قائم پی ڈی ایم حکومت کس قدر ہلکان ہے۔ عمران خان کے حق میں عالمی دباؤ کو ڈیل کرنے کے راستے دسمبر کی سیاسی برفباری نے بند کر دیے۔ اسی لئے جو کہتے تھے کہ ‘فتنہ زندہ نہیں چھوڑا جا سکتا‘ اب ‘آؤ مل بیٹھ کر بات کریں‘ پر نیچے اُتر آئے ہیں۔ ظاہر ہے شریف نظامِ حکومت والے ”ڈرتے ورتے‘‘ بالکل بھی نہیں۔ لہٰذا انہوں نے ‘عمران اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ والا نعرہ دفنا دیا۔
عربی ادب کی ایک مشہور حکایت یاد آگئی۔ ایسی بستی کے بارے میں‘ جس کے معتبر جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے کیلئےمشہور تھے‘ اس بستی کے ایک مرد و عورت نے خفیہ نکاح کر لیا۔ نکاح شریعت کے مطابق‘ نکاح خواں اور گواہوں کی موجودگی میں ہوا۔ کچھ عرصہ بعد میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی اور شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا۔ اسے شرعی حقوق دینے سے انکاری ہوا چنانچہ خاتون شکایت قاضیٔ شہر کے پاس لے گئی۔ قاضی نے سوال کیا کہ اس نکاح کی کسے خبر ہے؟ خاتون بولی: ہمارا نکاح عین شرعی ہے۔ سوال ہوا: کوئی گواہ؟ خاتون بولی: جی دو گواہ تھے جن کی موجودگی میں نکاح ہوا۔ اس جواب پہ قاضی نے شوہر اور گواہوں کو طلب کر لیا۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی‘ بھری عدالت میں شوہر اور گواہوں نے خاتون کو پہچاننے اور نکاح سے صاف انکار کر دیا۔ پھر بولے: اس خاتون کو آج سے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ خاتون پریشان ہوئی مگر قاضی نے اطمینان سے پوچھا: خاتون! آپ کتوں کی گواہی اور ان کے فیصلے کو قبول کر لیں گی؟ خاتون نے کہا: مجھے کتوں کی گواہی اور فیصلہ قبول ہوگا۔ جس پر قاضی نے حکم صادر کیا کہ خاتون کو اس شخص کے گھر لے جایا جائے۔ اگر کتے خاتون کو دیکھ کر بھونکنے لگیں تو ثابت ہو جائے گا کہ یہ اجنبی اور جھوٹی ہے‘ لیکن اگرکتے خاتون کو دیکھ کر خوش ہوئے اور اس کا استقبال کیا تو پھرخاتون کا دعویٰ سچا‘ شوہر اور گواہ جھوٹے ہیں جبکہ خاتون گھر کی مالکن ہے۔ یہ حکم جاری ہوتے ہی قاضی اور عدالت میں موجود لوگوں نے شوہر اور گواہوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا جن کے چہرے جھوٹ پکڑے جانے کے خوف سے پیلے اور جسم کپکپا رہے تھے۔ قاضی صاحب نے سپاہیوں کو دوسرا حکم دیا: گرفتار کر لو ان جھوٹوں کو‘ انہیں کوڑے لگاؤ‘ یہ جھوٹے گواہ ہیں۔ قاضی نے اپنے فیصلے میں یہ تاریخی الفاظ عربی زبان میں لکھے: بئس القری التی اصدق کلابھا من اہلھا۔ بدترین بستیاں ہیں وہ جن کے باشندوں سے زیادہ ان کے کتے سچے ہیں۔
یہ حکایت شہباز حکومت کے وزیر دفاع کی اس پریس کانفرنس سے یاد آئی جسے صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے رچرڈ گرینیل نے امریکہ میں پاکستان ایمبیسی کو ان الفاظ میں اپنے ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ سے بھجوایا:
The Pakistan Embassy in Washington Dc, and Ambassador … have some explaining to do. The death threats and crazy talk about operation Goldsmith from the Minister of Defence is reckless. There should be a review of what the U.S. taxpayer provides Pakistan in aid.
ساتھ ہی اس ٹویٹ میں مسٹر رچرڈ نے یو ایس ایڈ اور آئی ایم ایف کو بھی ٹیگ کر دیا‘ جس کے بعد پاکستانی سرکار میں بیٹھی سینیٹرکو یو ایس ایڈ سے ملنے والی امداد کے دستاویزات اور خبر لیک ہوئی۔
نئے سال کا آغاز اعلانِ اُڑان پاکستان سے ہوا۔ یہ اُڑان 1984ء میں پنجاب کی وزارتِ خزانہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس اُڑان میں دو بھائی پانچ مرتبہ پرائم منسٹر‘ پانچ مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ۔ ایک کا بیٹا‘ ایک کی بیٹی پنجاب کے وزیراعلیٰ کی کرسیوں پر بٹھائے گئے۔ اسی لئے اس اعلان کے ساتھ ہی صرف ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں نے اُڑان بھری۔ نئے سال کے بڑے چیلنجز اور چھوٹی سوچ پہ وادیٔ لیپا کے نوجوان عابد عندلیب نے یہ حسبِ حال شعر بھجوائے:
تیرے خطروں کو بھی خطرہ اب تیرے خطرے سے ہے
جُبّہ و دستار اور تیری قبا! خطرے میں ہے
تیرا پالا پڑ گیا ہے ایک سورج سے یہاں
تجھ کوکیا معلوم تیرا وسوسہ خطرے میں ہے

اپنا تبصرہ لکھیں