نئے عمرانی معاہدہ کی ضرورت

کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش ملک سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ اپوزیشن اور اتحادی حکومت کے مابین سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں مذاکرات کے آغا ز سے مفاہمتی سیاست کی امید اجاگر ہوئی ہے مگر پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سول نافرمانی کی کال برقرار رکھنے کا اعلان دہری پالیسی کے زمرے میں آتا ہے۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ کہہ کر کہ نو مئی کے منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک انصاف کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا‘ نو مئی اور 26نومبر کے واقعات پر تحریک انصاف کو آئینہ دکھادیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس کو عیاں کرتے ہیں تاہم گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے صوبائی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ سیاست دانوں کوذاتی مفادات کے بجائے ریاست کو سیاست پر مقدم سمجھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی نو مئی کے مجرموں کے ملٹری ٹرائل کے ایشو پر سیاست کر رہی ہے حالانکہ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور لگ بھگ پچیس سویلینز کا ملٹری ٹرائل ہوا تھا۔ اس سے پیشتر 2014ء میں‘ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اس وقت بھی وہ فوجی عدالتوں کے ناقد تھے مگر دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ پیش آنے پر فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں باقاعدہ ترمیم (21ویں)کی گئی اور عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی فوجی عدالتوں کی حمایت میں مہم چلائی گئی۔ لہٰذا بے جا تنقید کرنے سے پہلے پی ٹی آئی کو ماضی پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ نو مئی کے پس منظر میں مربوط منصوبہ بندی تھی اور اس سازش میں ملوث عناصر کو منطقی انجام تک پہنچانا ریاست کے مفاد میں ہے۔ اب عوام میں یہ شعور بیدار ہو گیا ہے کہ نو مئی حکومت یا افواجِ پاکستان کا نہیں بلکہ عوامِ پاکستان کا مقدمہ ہے؛ چنانچہ مقتدرہ یہ قطعاً نہیں چاہے گی کہ مذاکرات کی آڑ میں نو مئی کو فراموش کر دیا جائے۔
اس وقت تحریک انصاف ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ اس جماعت کو ان عناصر کے حوالے سے واضح لائن لینے کی ضرورت جو اسے ریاستی اداروں کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ چند عناصر‘ جو سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں‘ کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی اپنی نادانی سے ریاستی اداروں سے محاذ آرائی میں مصروف رہے تاکہ اس صورتحال سے وہ فائدہ اٹھائیں اور اُن کی بدعنوانیوں پر پردہ پڑا رہے۔ پی ٹی آئی کو بھی غور کرنا ہو گا کہ اس کی جماعتی پالیسی کو جو بلاگرز ہینڈل کر رہے ہیں‘ اگر پارٹی قیادت ان پلانٹڈ لوگوں کے نرغے میں رہے گی تو وہ اس کی مشکلات کو بڑھاتے رہیں گے۔ اس وقت پی ٹی آئی صدر ٹرمپ سے بھی امیدیں لگائے بیٹھی ہے‘ مگر حکومتی مؤقف اس حوالے سے واضح ہے کہ 20 جنوری کے بعد بھی وہ امریکی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ ویسے بھی یہ دبائو صدر ٹرمپ کے بجائے اُن کے مشیران اور ساؤتھ ایشیا کے اسسٹنٹ سیکرٹری کے ذریعے ہی آئے گا اور صدر ٹرمپ کی ٹیم میں ہنری کسنجر‘ کونڈو لیزا رائس اور ہیلری کلنٹن جیسی شخصیات تو ہیں نہیں‘ لہٰذا وہ صدر بش‘ صدر کلنٹن‘ صدر ریگن یا صدر نکسن کی طرح مضبوط صدر نہیں ہوں گے۔ ان کی ٹیم میں متنازع اور پلے بوائے امیج کے حامل افراد کی اکثریت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں آنا امریکی زوال کی علامت ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے چار سالہ دورِ حکومت میں امریکہ اتنا کمزور ہو جائے گا کہ اگلی ایک دہائی میں شاید امریکہ کو اپنی وحدت کے حوالے سے خدشات لاحق ہو جائیں گے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ سے امیدیں لگانے کے بجائے پی ٹی آئی کو زمینی حقائق پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر انہیں ریلیف ملے گا تو عدالت کے ذریعے ہی مل سکتا ہے‘ کسی ماورائے آئین اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج کل ایک مخصوص ٹولہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کو بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف کے خلاف ثابت کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے حالانکہ یہ ایک پالیسی لائن ہے کہ ایسے واقعات میں جو بھی عناصر ملوث ہوں گے‘ ان سے اسی طریقے سے نمٹا جائے گا۔اگر سیاسی مذاکرات کی بات کریں تو تحریک انصاف سے بات چیت کے لیے نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو بھی براہِ راست آگے آنا چاہیے۔ مقتدر حلقے کب تک سارا سیاسی ملبہ اپنے کندھوں پر اُٹھائے رکھیں گے؟ خارجہ پالیسی اس وقت نازک موڑ پر ہے ۔پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بھی خارجہ پالیسی برائے نام ہی دیکھنے میں آئی۔ شاہ محمود قریشی بطور وزیر خارجہ کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ عمران خان نے سائفر پر امریکی مداخلت نامنظور کا نعرہ لگایا تو اُس وقت کی اپوزیشن جماعتوں‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے عمران خان پر امریکہ سے سفارتی تعلقات خراب کرنے کا الزام لگادیا‘ اب وہی تحریک انصاف ٹرمپ حکومت کو خوش آمدید کہہ رہی ہے اور اس کے برعکس حکمران اتحاد امریکہ مخالف بیانات دے رہا ہے۔ دوسری جانب اس وقت وزیر دفاع سمیت تمام وزرا نامزد امریکی صدر اور ان کی کابینہ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ صدرِ مملکت بھی امریکہ پر طنزیہ ریمارکس دے رہے ہیں۔اس سے آئندہ دنوں میں بحران سنگین ہوسکتا ہے۔ اس وقت ملک میں گورننس بھی کمزور ہے اور بڑی سیاسی جماعتیں منقسم نظر آتی ہیں۔ اسی وجہ سے دیگر ممالک کے عہدیداروں کو ملکی معاملات میں مداخلت کا موقع مل رہا ہے۔ حکومت اور عسکری و سیاسی قیادت کو حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ امریکہ سے پاکستان کا باعزت دوستانہ تعلق رہے اور دبائو ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کیا جائے۔
ایسے حالات میں جب امن و امان کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے اور سیاسی چپقلش معاملات کو بگاڑ رہی ہے‘ عسکری قیادت کو ایک نیا روڈ میپ تیار کر کے سپریم کورٹ کی معاونت سے اس پر عملدرآمد کرانا ہو گا۔ 26نومبر کے واقعات کا سارا بوجھ بھی ریاستی اداروں پر ڈالا جا رہا ہے جس سے عوامی جذبات کو اشتعال دینے کی کوشش کی گئی ۔ تحریک انصاف نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر جلتی پر تیل ڈالنے کی روش اپنائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں عسکری قیادت کو سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے وسیع تر مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بامقصد آئینی و سوشل اصلاحات کے ذریعے ایک نئے سسٹم کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ نئے صوبوں کا قیام‘ شفاف انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘ صدر کا براہِ راست انتخاب اور سینیٹ کے انتخابات بھی براہِ راست کرانے جیسی اصلاحات ناگزیر معلوم ہوتی ہیں۔ امریکہ کی آبادی 34 کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ وہاں 50 ریاستیں ہیں۔ پاکستان کی آبادی 25کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن یہاں صرف چار صوبے ہیں‘ آبادی کے تناسب سے یہاں کم از کم 15صوبوں کی گنجائش موجود ہے۔ سیاسی قیادت کو اب اپنی انا سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر اپوزیشن اور حکومت کے مابین مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا تو ملک مزید خلفشار کا شکار ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں