والی بال کو نوجوانوں اور سپانسر ز کا پسندیدہ کھیل بنا دیا:چودھری یعقوب

تحریر(محمد بابر)فیڈریشن کے چیرمین چودھری یعقوب کی سربراہی میں چھونے لگا،کامیابی حکمت عملی نے ہاکی اور فٹبال کو پیچھے چھوڑ کر نوجوانوں اور سپانسر ز کا پسندیدہ کھیل بنا دیا، کھلاڑی کروڑوں کمانے لگے،کھیلوں کی فیڈریشنیں سرکاری دفاتر کے چکر لگانے کی بجائے فنڈز اور بہتر تنظیم سازی کیلئے چودھری یعقوب سے ٹیوشن لیں پاکستان والی بال فیڈریشن کے چیئرمین چودھری یعقوب کی گزشتہ تین دہائیوں سے جاری محنت رنگ لے آئی، ملک میں والی بال کا کھیل نئی بلندیوں کو چھونے لگا۔ قومی ٹیم کی بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار کامیابیوں کے باعث دہائیوں سے نظر انداز کھیل میں سپانسراداروں کی دلچسپی بھی بڑھنے لگی جس سے کھلاڑیوں اور آفیشلز کے مالی حالات بھی کرکٹ، ہاکی اور فٹبال کے کھلاڑیوں کی طرح بہتر ہونے لگے۔ سنٹرل ایشین نیشنز والی بال لیگ میں کامیابی کے بعد قومی ٹیم نے پہلی بار پاکستان کے دورہ پر آئی آسٹریلوی ٹیم کو تین میچوں کی سیریز میں کلین سویپ کرکے نئی تاریخ رقم کی اور ان دنوں بحرین میں اے وی چیلنج کپ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے کھیلوں کی دنیا پر کرکٹ کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ دولت کا عمل دخل ہے۔ ماضی میں والدین بچوں کو پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن آج کل ہر ماں باپ پر اپنے بچے کو کرکٹر بنانے کی دھن سوار ہے جس کی مثال ملک بھر میں ہونے والے کرکٹ ٹرائلز میں ہزاروں بچوں کی شمولیت ہے۔ گزشتہ دو ہائیوں سے قومی کھیل ہاکی زوال کا شکار ہے جس کے باعث اس میں عوام کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے جبکہ فٹبال کو سیاست نے تباہ کردیا۔ والی بال کا شمار پاکستان کے مقبول ترین کھیلوں میں ہوتا ہے پنجاب، کے پی کے سمیت پورے ملک کے دیہات اور شہروں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد والی بال شوق سے کھیلتی ہے لیکن اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کا مستقبل روشن نہ ہونے کے باعث نوجوان اس سے دوری اختیارکرلیتے تھے تاہم گزشتہ تین دہائیوں سے سابق آئی جی پولیس چودھری یعقوب تن تنہا والی بال کو عروج پر لانے کی کوشش کرتے رہے جنہوں نے ثابت کیا کہ اگر انسان کچھ کرنے کا ٹھان لے تو قدرت بھی اس کوشش میں اس کاساتھ دینے لگتی ہے۔ چودھری یعقوب کی شبانہ روز محنت کے باعث آج ملک میں والی بال کا کھیل عروج پر پہنچ چکا ہے نوجوانوں کی بڑی تعداد اس جانب راغب ہورہی ہے اور بے پناہ ٹیلنٹ کے باعث فیڈریشن کو ٹیموں کے انتخاب میں سخت مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان کے والی بال پلیئرز نہ صرف ملک کے تمام بڑے اداروں میں مستقبل ملازمتیں حاصل کررہے ہیں بلکہ کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں کی طرح بیرون ملک لیگ کھیل کر بھی ہر سیزن میں کروڑوں روپے کما رہے ہیں جو یقیناً خوش آئند ہے۔ پاکستان میں والی بال کے حالیہ عروج میں سپانسرز کا عمل دخل اہم ہے، ہاکی، فٹبال سمیت دیگر کھیلوں کے منتظمین کے منہ میں والی بال فیڈریشن کی کامیابیاں دیکھ کر پانی تو ضرور آتا ہے لیکن انہیں یہ بات سمجھتی چاہیے کہ محنت اور لگن سے وہ بھی ایسے ہی نتائج حاصل کرسکتے ہیں جتنی محنت سے وہ حکومتی گرانٹ حاصل کرنے کیلئے سرکاری دفاتر کے چکر لگاتے ہیں اگر اسی طرح سپانسر اداروں کے سربراہوں کے پاس جائیں تو ان کے حالات بھی بہتر ہوسکتے ہیں، اس حوالہ سے دیگر کھیلوں کی فیڈریشنوں کے عہدیدار چودھری یعقوب کے تجربات سے استعفادہ کرنے کیلئے ان سے ٹیوشن بھی لے سکتے ہیں۔ پاکستان والی بال فیڈریشن نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایسی منصوبہ بندی کی کہ آج والی بال کے تمام قومی اور بین الاقوامی مقابلے ملک و بیرون ملک ٹیلی ویژن کے ذریعے براہ راست دکھائے جارہے ہیں جس کے باعث کرکٹ جیسے مقبول کھیل کے تمام سپانسر والی بال فیڈریشن کو بھی سپانسر کرنے پر مجبور ہیں۔ والی بال کی یہ کامیابیاں ہاکی، فٹبال، بیس بال، باسکٹ بال،ٹینس، سائیکلنگ،بیڈمنٹن،ہینڈ بال، باکسنگ، اور ٹیبل ٹینس سمیت ان تمام فیڈریشنوں کے عہدیداروں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں جو ہر وقت فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے رہتے ہیں اوراس مقصد کے لئے محنت کرنے کی بجائے حکومتی امداد کے منتظر رہتے ہیں، اگر چودھری یعقوب والی بال جیسے کھیل کیلئے پرائیویٹ سپانسرز تلاش کرکے اپنے کھیل کو مقبول بناسکتے ہیں تو مذکورہ بالاکھیلوں کا پوٹینشل اس سے کہیں زیادہ ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ نیک نیتی سے کام کیا جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں