اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سات سالوں میں پاکستان کسی آئی سی سی ٹورنامنٹ کے فائنل میں اپنی محنت سے زیادہ کسی دوسری ٹیم کے کیچ پکڑنے اور چھوڑنے سے پہنچا ہے ۔ اس بات کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ2017 کی چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کو جب اگلے راؤنڈ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سری لنکا کے خلاف میچ جیتنا لازم تھا تو مڈ آن پر کھڑے تھسارا پریرا نے سرفراز احمد کا کیچ چھوڑا تھا اور پاکستان وہ میچ سرفراز احمد کی نصف سنچری کی بدولت جیتا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جب پاکستان کو نیدرلینڈز سے ایک معجزے کی امید تھی تو ان کی جنوبی افریقہ پر فتح کے درمیان ڈیوڈ ملر حائل تھے۔ ایسے میں فائن لیگ پر کھڑے نیدر لینڈز کے وینڈرمروے نے ایک عمدہ کیچ پکڑ کے جنوبی افریقہ کی امیدوں پر پانی پھیرا اور یوں پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک رسائی آسان ہوئی۔
گذشتہ روز انڈیا اور امریکہ کے درمیان میچ میں بھی ایک کیچ شاید فیصلہ کن ثابت ہوا جب انتہائی دباؤ کا شکار انڈیا کو رنز کی ضرورت تھی تو سوریا کمار یادو کا ٹاپ ایج امریکی فاسٹ بولر سوربھ نریش نیتراوالکر کے ہاتھوں میں گیا لیکن وہ اسے پکڑ نہ پائے۔
یہ وہی نیتراوالکر ہیں جنھوں نے پاکستان کے خلاف سپر اوور میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا تھا اور امریکہ کے 19 رنز کے ہدف کا دفاع کیا تھا۔ انھوں نے اس میچ میں بھی بہترین بولنگ کرتے ہوئے انڈین اوپنرز وراٹ کوہلی اور روہت شرما کو آؤٹ کیاتھا۔
تاہم جب ان سے یہ کیچ چھوٹا تو اس وقت انڈیا کو جیت کے لیے 45 گیندوں پر 53 رنز درکار تھے اور نیویارک کی مشکل پچ پر کسی بھی نئے بلے باز کے لیے سکور کرنا بہت مشکل تھا۔ تاہم پھر سوریا کمار یادو کی نصف سنچری نے انڈیا کی سپر ایٹ راؤنڈ تک رسائی یقینی بنائی۔
کیچ ڈراپ ہونے کے بعد سوریا کمار یادو اور شوم دوبے نے جارحانہ انداز اپنایا اور میچ 10 گیندیں پہلے ہی ختم کر دیا۔یہ ڈراپ کیچ پاکستان کے لیے کیسے اہم ہے؟یوں پاکستان کا نیٹ رن ریٹ اب امریکہ سے بہتر ہے اور اسے صرف آئرلینڈ کی امریکہ کو شکست اور آئرلینڈ پر اپنی فتح کے ساتھ ان دونوں میچوں کو بارش کے باعث منسوخ نہ ہونے کی دعا کرنی ہے۔
یہ ایک اور آئی سی سی ٹورنامنٹ ہے اور ایک بار پھر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہی صورتحال ہے کہ اب کون جیتے، کون ہارے اور کتنے رن سے ہارے کہ ٹیم اگلے راؤنڈ تک کوالیفائی کرنے کے قابل ہو۔
پاکستان نے منگل کو کینیڈا کو سات وکٹوں سے شکست دی تھی اور اب انڈیا کی امریکہ پر فتح کے بعد پاکستان کو آئرلینڈ کے خلاف فتح کے ساتھ آئرلینڈ اور امریکہ کے درمیان میچ میں آئرلینڈ کی فتح کی دعا کرنی ہے اور یہ بھی کہ یہ دونوں میچ بارش سے متاثر نہ ہوں۔
اتوار کو پاکستان کے پاس انڈیا کو شکست دینے کا ایک سنہری موقع تھا لیکن پھر ایک جیتی ہوئی پوزیشن سے شکست کھانے کے بعد پاکستان کے ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے کے امکانات اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں رہے تھے۔
ظاہر ہے کہ اس وقت پاکستانی مداحوں کی جانب سے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان اگلے راؤنڈ میں جانے کا حق دار بھی ہے، لیکن ہم اس بحث میں جائے بغیر آپ کو فی الحال یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کو اب اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کے لیے کیا کرنا ہو گا؟
گروپ اے میں ابھی کتنے میچ باقی ہیں اور پاکستان کہاں کھڑا ہے؟گروپ اے میں ابھی تین میچ باقی ہیں اور ان میں سے دو میچوں کے نتائج پاکستان کے لیے اہم ہیں۔پاکستان کا گروپ میں آخری میچ آئر لینڈ کے خلاف 16 جون کو شام 7:30 بجے ہو گا۔ادھر امریکہ اپنا آخری میچ آئرلینڈ کے خلاف 14 جون کو کھیلے گا۔ انڈیا گروپ کا آخری میچ کینیڈا کے خلاف کھیلے گا۔
ویسے تو ظاہر ہے پاکستان امریکہ سے اپ سیٹ شکست اور انڈیا سے ایک جیتی ہوئی پوزیشن سے ہارنے کے باعث اس پوزیشن پر پہنچا ہے لیکن ان دونوں میچوں میں شکست بہت کم مارجن سے ہوئی ہے جس کے باعث پاکستان کا نیٹ رن ریٹ بہت زیادہ کم نہیں ہوا۔
پاکستان اس وقت گروپ میں کینیڈا سے ایک میچ جیتنے کے بعد دو پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس وقت پاکستان کا نیٹ رن ریٹ 0.191 ہے۔
اب تک دو میچ جیت کر امریکہ کے چار پوائنٹس ہیں اور اب انڈیا سے شکست کے بعد اس کا نیٹ رن ریٹ 0.127 ہو گیا ہے۔امریکہ کا آخری میچ 14 جون کو آئرلینڈ کے خلاف ہے جو اب خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔اگر آئر لینڈ امریکہ کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کے لیے اپنے آخری میچ یعنی 16 جون کو آئر لینڈ کے خلاف میچ صرف جیتنا ہو گا۔امریکہ جیتے یا پاکستان کوئی ایک بھی میچ ہارے یا پھر بارش کے باعث دونوں ٹیموں کا کوئی بھی میچ منسوخ ہو تو امریکہ اگلے راؤنڈ میں پہنچ جائے گا۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان کی طرح آئرلینڈ کے بھی دو میچ رہتے ہیں لیکن اس کا نیٹ رن ریٹ منفی 1.7 ہے۔
رن ریٹ دراصل ایک ٹیم کی جانب سے ہر اوور میں بنائے گئے رنز کی اوسط ہوتی ہے، جیسے مثال کے طور پر 20 اوورز میں 140 رنز کا مطلب ہے سات رن فی اوور کا رن ریٹ نیٹ رن ریٹ کا حساب لگانے کے لیے ایک ٹیم کے رن ریٹ کو اس کے خلاف کھیلنے والی ٹیم کے رن ریٹ سے تفریق کیا جاتا ہے۔ یوں جو ٹیم جیتتی ہے اس کا نیٹ رن ریٹ مثبت ہوتا ہے اور جو ٹیم ہارتی ہے اس کا نیٹ رن منفی ہوتا ہے۔
کسی بھی ٹورنامنٹ کے دوران نیٹ رن ریٹ کا حساب لگانے کے لیے ایک ٹیم کی ہر میچ میں کے رن فی اوور کی اوسط کو اس کے خلاف سکور ہونے والے رنز فی اوور سے تفریق کیا جاتا ہے۔
اگر ایک ٹیم کُل اوورز سے پہلے ہی آؤٹ ہو جائے تو اس کا رن ریٹ پھر بھی ٹوٹل رنز کو ٹوٹل اوورز سے تقسیم کر کے نکالا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں کل اوورز 20 ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپس میں کارکردگی ماضی میں خاصی اچھی رہی ہے۔ اب تک آٹھ ٹورنامنٹس کے دوران پاکستان کی ٹیم تین مرتبہ ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچی ہے جبکہ صرف دو ٹورنامنٹس یعنی 2014 اور 2016 کے ورلڈ کپس میں پاکستان سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
تاہم مشکل موقع سے دوسری ٹیموں کے نتائج کے سہارے اگلے راؤنڈ میں پہنچنے کی روایت ویسے تو خاصی پرانی ہے لیکن یہ سنہ 1992 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کے سفر میں خاصی عیاں تھی جب پاکستان کو کہیں بارش اور کہیں دوسری ٹیموں کے نتائج نے بچا لیا تھا۔
اس کے بعد سے پاکستان کی ٹیم کو سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا اور پھر سنہ 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی امیدیں نیدر لینڈز اور جنوبی افریقہ کے میچ پر تھیں جہاں نیدرلینڈز نے جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دی اور یوں پاکستان پہلے سیمی فائنل اور پھر فائنل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
2022 میں بھی پاکستان کو انڈیا اور پھر زمبابوے کی ٹیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس وقت بھی بحث یہی تھی کہ کیا یہ ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے کی حق دار بھی ہے۔