سمیع چوہدری(تجزیہ کار)
اسے شرم کہیے، وحشت کہیے کہ ندامت کہیے جو پاکستان کرکٹ کی موجودہ کیفیت کا خلاصہ کر سکے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں لفظ عاجز ہو رہے ہیں، حواس گم ہو چکے ہیں اور عقل گر پڑی ہے۔صرف پچھلے دو عشروں میں ہی پاکستانی کرکٹ کے ورلڈ کپ میں ‘کارناموں’ کو شمار کیا جائے تو کئی ایسے لمحات مل جاتے ہیں جو کروڑوں دلوں کے ٹوٹنے کا سبب بنے۔ مگر یہ لمحہ شاید ان سب پہ بھی بھاری ہے۔کرب کی پیمائش میں یہ لمحہ شاید اس سانحے پہ بھی گراں ہے جو ورلڈ کپ میں آئرلینڈ سے شکست کی صورت رونما ہوا تھا۔ یہ یقیناً اس خلش پہ بھی بھاری ہے جو سات ماہ پہلے افغانستان سے شکست بن کر آئی تھی۔
وہ ٹیم جسے دنیا کا کامیاب ترین بلے باز قیادت کو نصیب ہے، جسے ایک باصلاحیت مڈل آرڈر دستیاب ہے اور جس کی پیس بولنگ کا دنیا بھر میں چرچ رہتا ہے، جو ٹیسٹ کرکٹ میں ستر سال سے زائد کی تاریخ رکھتی ہے، وہ کیسے اس ٹیم سے ہار گئی جسے انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے؟بڑے ایونٹس کے ایسے بے جوڑ مقابلوں میں اعصاب کی جو بدحواسی چھوٹی ٹیموں پہ طاری ہوا کرتی ہے، یہاں وہی اضطراب کی چادر پاکستان نے اوڑھ لی اور جو عزم پاکستان سے متوقع تھا، وہ امریکی ٹیم کا خاصہ بنا رہا۔ڈیلس کی اس پچ میں صبح کے وقت جو نمی تھی، اس نے بابر اعظم کو بھی یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ ٹاس جیت کر وہ بھی بولنگ ہی کرتے۔ لیکن ٹاس اگر قسمت کے ہاتھ میں تھا تو کنڈیشنز کا بہتر ادراک بہرحال پاکستانی بلے بازوں کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس ادراک میں ناکام رہے۔امریکی پیسرز کا ڈسپلن اس قدر شاندار تھا کہ کسی ایک بھی بلے باز کو ہاتھ کھولنے کی گنجائش نہ ملی۔ نیتراولکر نے جس لینتھ کا انتخاب کیا، وہ بابر اعظم کے لیے معمہ ہی بن گئی جنہیں پہلے ہی نم آلود پچ پہ نئی گیند کی سیم موومنٹ کا چیلنج درپیش تھا۔پاور پلے میں امریکی بولنگ کا ڈسپلن ہی فیصلہ کن امر ٹھہرا اور پاکستان کے حواس اڑنے لگے۔ شاداب خان اور بابر اعظم کی پارٹنرشپ نے مڈل اوورز میں جوابی وار کرنے کی کوشش کی مگر تب تک بہت واضح ہو چکا تھا کہ پاکستان امریکی بولرز کی جارحیت کے جواب میں فقط مزاحمانہ سٹریٹیجی اپنانے پہ مجبور تھا۔اور جیسے اپنے بیٹنگ پاور پلے میں پاکستان کی پلاننگ ناقص رہ گئی تھی، ویسے ہی اپنے بولنگ پاور پلے میں بھی پاکستانی پیسرز صحیح لینتھ کو نشانہ بنانے سے معذور رہے۔ حالانکہ اگر پاکستانی تھنک ٹینک صرف امریکی پیسرز کے ‘پچ میپ’ کی ہی پیروی کر لیتا تو موناک پٹیل اتنی آسانی سے یہ رنز نہ بنا پاتے۔مگر کھیل کے ان پہلوؤں سے بھی بڑھ کر پاکستان کے لیے پریشان کن بات یہ رہی کہ اس ٹیم میں سبھی کندھے جھکے ہوئے اور سبھی چہرے اترے ہوئے نظر آئے جہاں ٹیم کیمسٹری بالکل ناپید ہے۔گویا انٹرنیشنل کرکٹ کی الیون نہ ہوئی، چند جھنجلائے ہوئے کرکٹرز کا ایک گروہ ہو گیا جسے زندگی اور اس کی مقصدیت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔اب اس اپ سیٹ کی شکل میں ایک ایسا جھٹکا لگ چکا ہے کہ پاکستان کرکٹ کو رُک کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے خود سے یہ سوال پوچھنا ہے کہ یہ نوبت کیسے آ گئی کہ پچھلے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم اس حال کو پہنچ گئی۔اس ورلڈ کپ فائنل سے اب تک کے عرصے میں جو رنگ برنگے چئیرمین اس بورڈ کو نصیب ہوئے اور انتظامی و عملی سطح پہ جو سنہرے فیصلے کئے گئے۔ انھوں نے اس کرکٹ ڈھانچے کو بے یقینی کی اس نہج پہ لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں تسلسل اور استحکام کا تصور بھی کسی مذاق سے کم نہیں۔میچ سے پہلے بابر اعظم نے کہا تھا کہ وہ امریکہ کو ہرگز ہلکا نہیں لیں گے اور اپنی بہترین کرکٹ کھیلیں گے۔ اس بدحواس کارکردگی کے بعد صرف یہی حسرت بچتی ہے کہ اگر ہم امریکہ کو ہلکا ہی لے لیتے تو کیا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا؟