پابندیوں کے باوجود روس کی معیشت یوکرین جنگ کی مدد سے ہی کیسے ترقی کر رہی ہے؟

2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو صرف بین الاقوامی سطح پر اس کی مذمت ہی نہیں ہوئی بلکہ روس کی عسکری طاقت کو کمزور کرنے کی نیت سے پابندیوں کی ایک لہر کا آغاز بھی ہوا۔

روس کے بیرون ملک اثاثے منجمند کیے گئے، روسی میعشت کو عالمی مالیاتی نظام سے الگ کر دیا گیا اور اس کی توانائی برآمدات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

مجھے یاد ہے کہ اس وقت مغربی حکام اور تجزیہ کاروں نے ان پابندیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ’غیر معمولی‘، ’اپاہج کرنے والی‘، جیسے الفاظ استعمال کیے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ صورت حال کافی واضح ہے اور روسی معیشت کے لیے اتنے دباؤ کو برداشت کرنا ناممکن ہو گا۔

یہ توقع کی جا رہی تھی کہ معاشی بحران کے خوف سے روس مجبورا اپنی افواج کو یوکرین سے واپس بلا لے گا۔ یقینا ایسا ہی ہونا چاہیے تھا؟

لیکن 27 ماہ بعد بھی یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ اپاہج ہونا تو دور کی بات، روس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق روس کی معیشت رواں سال تین عشاریہ دو فیصد کے حساب سے ترقی کرے گی۔ یہ شرح دنیا کی کئی ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔

’اپاہج کرنے والی‘ عالمی پابندیوں نے روس کی دکانوں میں سامان کی کمی پیدا نہیں کی۔ روس کی سپر مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک مسئلہ ضرور ہیں اور ہر چیز موجود نہیں کیوں کہ کئی مغربی کمپنیاں یوکرین پر روسی حملے کے بعد احتجاج کے طور پر ملک چھوڑ چکی ہیں۔

تاہم ان مغربی کمپنیوں کی مصنوعات اب بھی مختلف ذرائع اور راستوں سے روس پہنچ رہی ہیں۔ اگر آپ تلاش کریں تو روس کی دکانوں میں امریکی کولا بھی دستیاب ہے۔

یورپ اور امریکہ کی بڑی کاروباری شخصیات اور سی ای او روس کی سالانہ تقریبات کا حصہ چاہے نہ بن رہے ہوں، لیکن رواں سال سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی معاشی فورم کی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ 130 ممالک سے وفود شمولیت اختیار کریں گے۔

مغربی دنیا کی مالیاتی پابندیوں کے دباؤ تلے جھکنے کے بجائے روسی معیشت نے مشرق اور جنوب میں نئی منڈیاں تلاش کر لی ہیں۔

اور یہ تمام وہ وجوہات ہیں جن کی مدد سے روسی حکام یہ دعوی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ ان کے ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کر دینے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

یوگینی نادورشن پی ایف کیپیٹل میں سینئر اکانومسٹ ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’ایسا نظر آتا ہے کہ روسی معیشت نے انتہائی ناسازگار بیرونی حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پابندیوں نے معاشی طور پر اثر پہنچایا لیکن بہت کچھ بحال ہو چکا ہے۔ حالات کے مطابق خود کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔‘

تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ روس پر لگائی جانے والی عالمی پابندیاں ناکام ہو چکی ہیں؟

الینا ریباکووا پیٹرسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس میں سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایک بڑا مسئلہ ہماری اس بارے میں سمجھ بوجھ تھی کہ پابندیاں کیا کر سکتی ہیں اور کیا نہیں۔‘

’ایسا نہیں ہے کہ سوئچ دبایا اور روس غائب ہو جائے گا۔ پابندیاں کسی بھی ملک کو وقتی طور پر متاثر کرتی ہیں جب تک کہ وہ نیا راستہ تلاش نہ کر لے، تیل بیچنے یا سامان کی ترسیل کے لیے متبادل نہ تلاش کر لے۔ ہم ایک ایسے مقام پر موجود ہیں جب روس نے نیا راستہ تلاش کر لیا ہے۔‘

روس نے اپنی تیل کی برآمدات کا رخ یورپ سے چین اور انڈیا کی جانب موڑ دیا ہے۔ دسمبر 2022 میں جی سیون اور یورپی یونین کے سربراہان نے ایک نیا طریقہ تلاش کیا جس کے تحت روس کو تیل کے ذریعے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو نشانہ بنانا مقصود تھا۔ تاہم مغربی ماہرین اعتراف کرتے ہیں کہ یہ ترکیب بھی کام نہیں کر سکی۔

تاہم روسی تیل کی قیمت پر پابندیاں لگانے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مشکل کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کو اس بات کا احساس تھا کہ روس عالمی توانائی منڈی کا ایک بڑا کھلاڑی ہے اور اسی لیے انھوں نے عالمی منڈی میں قیمتوں کو بہت زیادہ بڑھنے سے روکنے کے لیے روسی تیل کی فروخت کو مکمل طور پر نہیں روکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس اب بھی پیسہ کما رہا ہے۔

الینا کا کہنا ہے کہ ’ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم نے روسی تیل پر باقاعدگی پابندی لگانے سے انکار کیا۔ ترجیح یہ تھی کہ روس تیل عالمی منڈی میں دستیاب بھی ہو لیکن روسی منافع کم ہو جائے۔ اور یہ دو متضاد باتیں ہیں جس میں پہلی کو فتح ہوئی۔اس کی مدد سے روس زرمبادلہ کمانے اور جنگ جاری رکھنے کے قابل رہا۔‘

اس وقت روس چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ لیکن روس کے لیے چین کی اہمیت توانائی کی برآمدات سے بہت زیادہ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم گزشتہ سال 240 ارب ڈالر تھا۔

روس کے دارالحکومت ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ شہر میں گھومنے نکلیں تو آپ کو بات سمجھنے کے لیے کسی ماہر معیشت کی ضرورت نہیں کہ چین پابندی زدہ روس کے لیے کتنا اہم بن چکا ہے۔ یہاں پر الیکٹرانکس کی دکانیں چینی ٹیبلٹس، موبائل فون سے بھری ہوئی ہیں۔ چینی کار ڈیلر بھی مقامی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ روس کی مقامی گاڑیاں بنانے کی صنعت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ ایک حالیہ کاروباری ایکسپو میں روسی وزیر اعظم میخائل مشوسٹن کو روسی برینڈ ولگا کا نیا ورژن دکھایا گیا۔ لیکن یہ ماڈل ایک چینی گاڑی ’چینگن‘ کی طرز پر بنائی گئی ہے۔

وزیر اعظم نے سوال کیا کہ ’یہ سٹیئرنگ وہیل کہاں بنا؟ کیا یہ چینی ہے؟‘ وہ بظاہر کار میں روسی پرزوں کی کمی سے نالاں تھے۔ انھوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ یہ (سٹیئرنگ وہیل) روسی ہو۔

لیکن روس کی معیشت کی ترقی گاڑیوں کی صنعت کے مرہون منت نہیں ہے۔ یہ کام دفاعی انڈسٹری کر رہی ہے۔

جب سے روس نے یوکرین پر حملے سے نام نہاد خصوصی عسکری آپریشن کا آغاز کیا ہے، ملک بھر میں اسلحہ بنانے والی فیکٹریاں دن رات کام کر رہی ہیں اور دفاعی شعبے میں کام کرنے والے مقامی لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کی وجہ سے دفاعی انڈسٹریل کمپلیکس میں تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اگر دفاع پر زیادہ خرچ کیا جائے تو کہیں اور خرچ کرنے کے لیے کم رقم بچتی ہے۔

میکرو ایڈوائزری فرم کے بانی پارٹنر کرس ویفر کا ماننا ہے کہ ’طویل المدتی اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ مستقبل کی ترقی پر کچھ خرچ نہیں ہو رہا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ 2020 میں نیشنل پراجیکٹ پروگرام پر بہت بحث ہوئی تھی جس کے تحت 400 ارب ڈالر کی رقم روس میں انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور مقاصلاتی نظام کی بہتری پر خرچ ہونا تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’سارا پیسہ عسکری انڈسٹریل کمپلیکس کو یا پھر معیشت کو استحکام دینے میں خرچ کر دیا گیا۔‘

یوکرین میں تقریبا دو سال کی لڑائی کے بعد روسی معیشت نے پابندیوں اور جنگ کے دباؤ کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے۔ تاہم امریکہ کی جانب سے اب ایسے بینکوں پر پابندیوں کی دھمکی دی جا رہی ہے جو روس کے ساتھ لین دین میں شامل ہیں یا مدد کر رہے ہیں۔ اور اسی وجہ سے روس کے لیے نئے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔

کرس ویفر کا کہنا ہے کہ ’روس میں آنے والی مصنوعات کی فراہمی سست ہو چکی ہے۔ آلات تک رسائی مشکل ہو چکی ہے۔ روز چین، ترکی یا متحدہ عرب امارات کے کسی بینک کی جانب سے روس سے لین دین سے انکار کی کہانی سامنے آتی ہے۔ چاہے روس سے مصنوعات کی خریداری کے لیے پیسے کا معاملہ ہو یا پھر تیل کی فروخت سے حاصل رقم کی روس واپسی، اگر یہ معاملہ حل نہ ہوا تو موسم سرما تک روس کو ایک مالی بحران کا سامنا ہو گا۔‘

اسی لیے شاید یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو گا کہ روس نے پابندیوں کو شکست دے دی ہے۔ اب تک روس نے ان پابندیوں سے نمٹنے کا طریقہ تلاش کر لیا تھا لیکن ان پابندیوں کی وجہ سے روسی معیشت پر پڑنے والا دباؤ ختم نہیں ہوا۔

اپنا تبصرہ لکھیں