پارلیمنٹ کی برتری کیسے حاصل ہوسکتی ہے

بتیسی۔ 1926۔ پانچ کم تیس۔1944۔ چچا چھکن۔ سید امتیاز علی تاج۔1926۔ بی سیدانی۔ 1945۔ بگلا بھگت۔1927۔ دلچسپ کہانیاں 1941۔ محکمۂ تعلیمات پنجاب لاہور۔ تغ ملّا۔ ایک گیدڑ کی آپ بیتی۔1927۔ بندر ناچا۔ ناچی چڑیا۔ 1947۔ بادشاہوں کی کہانیاں۔ 1936۔ گود کے چھوٹے بچوں کو سنانے کی کہانیاں۔ جو دہلی کے گھروں میں عورتیں بچوں کے سامنے کہتی ہیں اور بچے شوق سے سنتے ہیں۔ تالیف لیلیٰ خواجہ بانو۔ اہلیہ خواجہ حسن نظامی۔1915۔ سندباد جہازی۔ مصنّف ابوالاثر جالندھری1938۔ تین بھالو۔ لیوطا لسطائی1905۔ دلپسند کہانیاں۔ یعنی ان مشہور کہانیوں کا مجموعہ جو دہلی کے شرفا کے گھروں میں بچوں کو سنائی جاتی ہیں۔ مرتّبہ محمدی بیگم صاحبہ مرحومہ۔1933۔ پھول یعنی چھوٹے بچوں کا ہفتہ وار دل بہلائو۔ جنوری فروری 1961۔اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں آپکو کچھ کتابیں اگر بیسویں صدی کی پہلی دہائیوں میں لے جائیں۔ وہی کتابت وہی ٹائٹل۔ وہی رنگ وہی بے ساختگی۔ مگر پرنٹ نیا۔ تو ماضی اور حال گلے ملنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے بزرگ بچوں کے ذہن بنانے کیلئے کیسے کوشاں رہتے تھے۔ ان دنوں کی زبان میں کتنی مٹھاس ہے۔ خاکوں میں کتنی انس ہے۔ دعا دیجئے اٹلانٹس پبلیکیشنز کو کہ آج کے دَور میں جب ’کتاب مرگئی‘ کی فیک خبر دی جاتی ہے۔ ان دنوں میں زندہ کتابیں لیکر آرہے ہیں۔ اور ممنون رہئے۔ کافروں کی ایجادات کے، پرنٹرز کے، اسکیننگ مشینوں کے، آپکی ادب معمور گزشتہ صدی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ فاروق احمد صاحب شکریہ آپ اس افراتفری کے دَور میں یہ عظمت رفتہ ہمارے سامنے لارہے ہیں۔ بچوں کے رسالے بھی پرانے ڈھونڈ کر اسی سائز میں انہی رنگوں میں پیش کر رہے ہیں۔ اب یہ سرکاری لائبریریوں اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی اُردو سے محبت کی آزمائش ہے کہ وہ یہ سارے گم گشتہ خزانے اپنے شیلفوں میں سجائیں۔

ان کتابوں سے رسالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے قیام سے قبل اور پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہمارے ناشرین، مصنّفین بچوں کی عمر کے حوالے سے، انکے مزاج کے اعتبار سے کس قدر سوچتے تھے، لکھتے تھے۔

آپ اگر 1947 ء سے 1958 ء تک کے سیاسی اور سماجی معاملات پر بھی نظر ڈالیں حکمرانوں میں نہ سہی۔ مگر اس وقت کے اخبارات رسائل، درس گاہوں کے میگزینوں میں، ایک عزم مصمم نظر آتا ہے۔ ہم نے بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ ملک حاصل کرکے بہت بڑا چیلنج قبول کیا تھا۔ صدیوں کی اپنی الگ پہچان۔ الگ حکمرانی کی تاریخ لیے صوبے ایک انتظام میں شامل ہوئے۔ دونوں بازوئوں میں ایک ہزار میل کا فاصلہ، درمیان میں ایک بڑا مخالف ملک، جس نے پاکستان کے قیام کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ جو پہلی دہائی ہے،اس میں بھارت کی اس پاکستان دشمنی کا خیال سب کو ہے،بنگالیوں کو، پنجابیوں کو، پٹھانوں کو، سندھیوں کو اوربلوچوں کوبھی ، مگر حکمران خاندانوں نے جو زیادہ تر جاگیرداروں، سرداروں، چوہدریوں، خانوں پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے قبیلوں کی شان آن برقرار رکھنے کیلئے پارلیمانی نظام کی دھجیاں اڑادیں۔ پارلیمنٹ کیلئے ان دنوں بھی بالادستی اور سپریم ہونے کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔ آج کل کی نسبت پھر بھی ان دنوںبہت اعلیٰ معیاری تقریریں ہوتی تھیں۔ ان دنوں کے پارلیمینٹیرین کو یاد کریں۔ قومی اسمبلی کے ریکارڈ میں انکی تقریریں پڑھیں۔ اٹلانٹس والے ہمت کریں۔ ایک سلسلہ یہ بھی شائع کریں کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کتنی پر مغز اور مستقبل میں دیکھنے والی تقریریں کرتے تھے۔پارلیمنٹ سب سے بالاتر ادارہ ہے، جمہوریت میں، پارلیمانی نظام میں ایسا ہی ہے۔ ایسا ہونا چاہئے لیکن اسے بالاتر صرف اس کی بلند و بالا عمارت۔ اس کی لاکھوں روپے کی ایک ایک لگژری کرسی نہیں بناتی ہے۔ اس کے معزز ارکان کی حاضر جوابی، مطالعہ، اپنے علاقے کے مسائل کا ادراک، آئین کی شقوں سے آگاہی، قومی، بین الاقوامی خواتین عالمی تحریکوں، ملکی اور عالمی معیشت کا ادراک ہی بناسکتا ہے۔ اسے طاقت اور اقتدار کا گڑھ نہیں بلکہ ارتقا اور تبدیلی کا مرکز بنانا چاہئے۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ علاقے کا جاگیردار خود ہی قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن ہو۔ وہ قربانی دیں۔ اپنے علاقے کے پڑھے لکھے، سمجھدار اور اہل نوجوانوں کو پارلیمنٹ میں پہنچائیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کی پہلی منزل تو صحیح اور موزوں امیدوار کا انتخاب ہے۔جو اپنے ملک کے قدرتی،معدنی، آبی، ارضیاتی، افرادی وسائل کی اہمیت سے آشنا ہو۔ جو پارلیمنٹ میں لب کھولے تو اس کے ساتھی ارکان اسے غور سے سنیں۔ پارلیمنٹ یقیناً محترم اور مقتدر ہے۔ مگر اسی صورت میں جب اس کے ارکان کو احساس ہو کہ واہگہ سے گوادر تک جتنی قومیتیں بستی ہیں۔ وہ عظیم تر ہیں۔ ان کیلئے موزوں روزگار،میرٹ پر اعلیٰ ملازمتیں، پرائمری سیکنڈری ،گریجویشن انکا بنیادی حق ہے، رکن اسمبلی تک رسائی اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے آسان ہو۔ ایوان بالا، سینیٹ کوآئین سازوں نے اس لیے قائم کیا تھا کہ یہاں ان صاحبان فکرو نظر کو لایا جائے جو براہ راست انتخاب میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہاں بھی سرداروں جاگیرداروں کا قبضہ کیوں ہے۔

پاکستان اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ ہر قسم کی زمین، پہاڑ، سمندر، دریا، میدان قدرت کے تحفے ہیں۔ 1971ءمیں جب پاکستان دو لخت ہوا تو مغربی ماہرین معیشت نے کہا تھا کہ یہ باقی ماندہ پاکستان ایک فعال متحرک اقتصادی وحدت بن سکتا ہے۔ مثالی معیشت کا استحقاق رکھتا ہے۔ یقیناً یہ ممکن تھا لیکن پارلیمنٹ کو ہم ربڑ اسٹامپ بناتے رہے۔ ریاست کے ایک ادارے عدلیہ سے پارلیمنٹ دو بدو لڑائی میں مصروف نظر آتی ہے۔ ہر فوجی اور سیاسی حکمران سپریم کورٹ کو فتح کرنے کیلئے پر عزم دکھائی دیتا ہے۔ اب پھر یہ دعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی حاصل کی جارہی ہے ۔ مگر حالات سے واقف جانتے ہیں کہ ایک ادارے کو زیر دام لانے کیلئے ایک اور ادارے کی بالادستی قائم ہورہی ہے۔ کوئی ترمیم ہو، کوئی ایکٹ ہو، پارلیمنٹ کا حسن یہ ہے کہ اس پر کھل کر بحث ہو۔ اس کے سیاق و سباق، مضمرات اور تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا جائے،کوئی مقامی مسئلہ ہو، علاقائی یا عالمی، اس پر تمام پارٹیوں، علاقوں کے نمائندگان بحث کریں، جس سے عوام کی رہنمائی ہو۔ ایم این اے حضرات و خواتین اپنے علاقوں میں پارٹی کارکنوں، بزرگوں، علماء، اساتذہ، پروفیسرز سے ملیں۔ انکی دانائی سے مستفید ہوں۔ پھر ایوان میں اظہار خیال کریں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کی بے مثال فتح پر جو یہ بیان بازی ہورہی ہے۔ کیا پارلیمانی نظام کا تقاضا نہیں ہے کہ 77سال کے پاک امریکہ تعلقات کے نشیب و فراز کے تناظر میں پارلیمنٹ میں کھلی بحث ہو۔ پھر یہ طے ہو کہ پاکستان کی امریکہ پالیسی 2025ء سے 2028ء تک کیا ہوگی۔؟

اپنا تبصرہ لکھیں