پاکستان غیرملکی جریدے کو سبق سکھائے !

دنیا بھر کے 180سے زائد ممالک نے ایک دوسرے کے ملک میں اپنا تشخص بحال رکھنے کے لیے سفیر رکھے ہوئے ہیں، وہ اپنے ملک کے تقدس کو ہر صورت بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کبھی اپنے ملک پر آنچ نہیں آنے دیتے، اس کی تازہ مثال پاکستان میں تعینات چینی سفیر کی لے لیں کہ ایک تقریب جس میں چینی سفیر بھی شمولیت اختیار کیے ہوئے تھے میں نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے فرمایا کہ پاکستان دنیا میں چین کا واحد دوست ہے، کہ جہاں اُس کے شہری جاں بحق ہو بھی جائیں تو وہ کام جاری رکھتا ہے، لیکن چین یہ ”رعایت“ کسی اور ملک کو نہیں دیتا۔ اب اسحاق ڈار نے نہ جانے یہ بات کس Contextمیں کہی لیکن انہوں نے ڈھینگی مارنی تھی، مار لی۔ اس پر چینی سفیر جو پہلے ہی اپنی باری کی تقریر کر چکے تھے نے دوبارہ مائیک پر بات کرنے کے لیے انتظامیہ سے درخواست کی،اجازت ملنے پر چینی سفیر نے خبردار کیا کہ چین اپنے شہریوں کی جان و مال کو سب سے پہلے ترجیح دیتا ہے، لہٰذاپاکستان کے ساتھ ایسا کوئی فضول معاہدہ ہم نے نہیں کیا ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے چینی سفیر نے اپنے ملک اور اپنے ملک کے عوام کا ڈٹ کر دفاع کیا اور اُنہیں کرنا بھی چاہیے تھا کیوں کہ ہر سفیر کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اُسے سب سے پہلے پرائے ملک میں اپنے وطن کا دفاع کرنا سکھایا جاتا ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ دیگر ڈیپارٹمنٹس کے ساتھ ساتھ ہمارے سفیروں والے ڈیپارٹمنٹ کا بھی برا حال ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں ہماری رسوائی ہو رہی ہے جبکہ سفراءحضرات خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کبھی بھارتی و افغان، و امریکی لابی ہمیں ذلیل و خوار کر رہی ہوتی ہے تو کبھی اپنے ہی لوگ ہماری حکومتوں اور اداروں کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے سفیر اُن کے خلاف کارروائی کریں۔
جیسے حال ہی میں امریکی جریدے ”ڈراپ نیوز سائیٹ“ نے 27نومبر کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ اُس رات کیا کیا ہوا، اس رپورٹ میں جریدے نے ہمارے سکیورٹی اداروں پر الزاما ت عائد کیے ہیں کہ اُس دن وحشیانہ کریک ڈاﺅن کیا گیا۔ یہ رپورٹ ایشین امور کے انوسٹی گیٹو جرنلسٹ مرتضیٰ حسین اور ریان گرائم کی کریڈٹ لائن سے شائع ہوئی ہے، اس رپورٹ میں شائع ہونے والے انکشافات کے مطابق ” پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے مظاہرین پر تشدد کا منصوبہ پہلے سے بنا رکھا تھا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے ”ادارے“خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کے حامیوں سے کتنے خوفزدہ ہےں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے انکار کررہی ہے کہ انہوں نے ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا۔ مضمون میں مزید تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے کہ 26 نومبر کو خان نے اسلام آباد میں مظاہروں کی اپیل کی تھی۔ ان کی اپیل پر ہزاروں پی ٹی آئی کے حامی ملک بھر سے اسلام آباد پہنچے، راستوں میں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے، انٹرنیٹ کی بندش اور آنسو گیس کے گولوں کا سامنا کرتے ہوئے۔ ایک گروپ کی قیادت خان کی اہلیہ بشری بی بی نے کی، جبکہ دوسرے گروپ کی قیادت خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کی۔ مظاہروں کی تیاری کے دوران پاکستانی حکومت نے سوشل میڈیا ایپس جیسے واٹس ایپ کو بند کر دیا اور فوج کو دارالحکومت میں طلب کر لیا، اسے فائر کرنے کا حکم دے دیا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ مظاہرین اسلام آباد نہیں پہنچ سکیں گے۔ لیکن 26 نومبر کی شام تک، وہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں پہنچ چکے تھے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت کا مشن یہ تھا کہ مظاہرین کو ڈی چوک سے پیچھے دھکیل دیا جائے، جو کہ پاکستان کی فوجی حمایت یافتہ حکومت کے دفاع کی آخری لائن تھی۔اس رپورٹ کی خاص اور تشویشناک بات یہ ہے کہ 27نومبر والے آپریشن کو 25نومبر کو ہی سکیورٹی اداروں کی طرف سے فائنلائز کر لیا گیا تھا ،” منصوبے“ کے مطابق، جناح ایونیو، جو ڈی چوک کے سامنے مرکزی سڑک ہے، کو گھیر لیا جانا تھا، اور اس کے راستے میں مال بردار کنٹینرز رکاوٹ کے طور پر استعمال کیے جانے تھے۔ پاکستان آرمی کے اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کے سنائپرز چھتوں پر تعینات تھے، جب کہ نیم فوجی رینجرز جو اسالٹ رائفلز سے لیس تھے، سڑک کے کنارے پولیس کے ہمراہ گشت کر رہے تھے۔آپریشن کو انجام دینے کے لیے، فوج نے ایک کثیر جہتی حکمت عملی اپنائی، ذرائع کے مطابق۔ پہلے مرحلے میں افراتفری اور خوف پھیلانے کا مقصد تھا۔ جناح ایونیو کی روشنیوں کو بجھا دیا گیا، جس سے پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
اس دوران، پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سگنل انٹیلیجنس ٹیموں نے مواصلاتی نیٹ ورکوں کو جام کر دیا، جس سے مظاہرین کا آپس میں اور بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہ بلیک آو¿ٹ، ذرائع کے مطابق، مظاہرین کو الجھانے اور ان کے حوصلے کو توڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ جیسے ہی ہجوم میں ابہام بڑھا، آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا: فوج نے متعدد سمتوں سے آنسو گیس فائر کرنے کا حکم دیا، اور اس کے دھوئیں نے خوفزدہ مظاہرین کو دوڑنے پر مجبور کر دیا۔رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تھا: ایک بھرپور گولیوں کی بوچھاڑ، جس میں بھاری اسالٹ رائفلز سے گولیاں چلائی گئیں، جو بے دریغ طور پر فرار ہونے والے ہجوم پر فائر کی گئیں۔ چھتوں پر تعینات سنائپرز نے ان افراد کو نشانہ بنایا جو ان کے نزدیک دشمن یا خطرے کی علامت سمجھے گئے۔
علیمہ خان، جو عمران خان کی بہن ہیں، اس خونریز آپریشن کی گواہ تھیں اور انہوں نے ایک انٹرویو میں آنسو گیس اور گولیوں کے استعمال کی تفصیل بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ جب مظاہرین اندھیرے میں ڈوب گئے تو قریبی گاڑیاں جلدی سے اپنی روشنی بند کر دیتی تھیں تاکہ وہ نشانہ نہ بنیں، اور سیل فون بھی بند کر دیے جاتے تھے۔ نوجوان مظاہرین نے آنسو گیس کی گولیاں اٹھا کر واپس پھینکنے کی کوشش کی، جبکہ بزرگ مظاہرین پناہ لینے کی کوشش کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج دن بھر پرامن رہا تھا اور کئی مظاہرین اپنے بچوں کے ساتھ آئے تھے، جن کا مقصد تشدد کرنا نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس آپریشن کے دوران چھوٹے ڈرونز جن میں تھرمل امیجنگ کی صلاحیت تھی کو بھی استعمال کیا گیا، آپریشن کے کمانڈ سینٹر کو اصل وقت میں ہونے والے خونریزی کی تصاویر فراہم کر رہے تھے۔ ذرائع کے مطابق، اس سطح کی تکنیکی مہارت نے اس بات کا اشارہ دیا کہ یہ کریک ڈاو¿ن پہلے سے منصوبہ بندی شدہ تھا۔آپریشن کا آخری مرحلہ ایک تیز اور مکمل صفائی کا عمل تھا۔ جیسے ہی فائرنگ رک گئی، آئی ایس آئی کے یونٹس جناح ایونیو پر پہنچے اور تشدد کے تمام شواہد مٹانے کا کام شروع کیا، جن میں لاشیں، گولیوں کے خول اور کوئی بھی ثبوت شامل تھا جو حکومت کے پرامن طریقے سے مظاہرین کے منتشر ہونے کے دعوے کے خلاف جا سکتا تھا۔
مظاہرین کی گواہیاں، جن میں سے کچھ بین الاقوامی میڈیا آو¿ٹ لیٹس جیسے NRK میں شائع ہوئیں، ایک دہشت ناک منظر کی تفصیل دیتی ہیں جس میں سنائپرز ہجوم میں گولیاں چلا رہے تھے اور زندہ گولیاں استعمال کی جا رہی تھیں۔ طبی ماہرین نے، جو بی بی سی اور دی گارڈین سے گمنامی کے تحت بات کر رہے تھے، متعدد گولیوں کے زخموں کا علاج کرنے اور اموات کا مشاہدہ کرنے کی تصدیق کی۔ حکام کے ذریعہ شواہد کو چھپانے کی کوششوں کی تصدیق اس بات سے بھی ہوئی کہ انہوں نے طبی ریکارڈز ضبط کیے اور طبی عملے پر خاموش رہنے کے لیے دباو¿ ڈالا۔پاکستان آرمی کے ایس ایس جی کے سنائپرز کے چھتوں پر تعینات ہونے کی اطلاعات بھی گواہیاں فراہم کرتی ہیں، جن میں ایک ویڈیو شامل ہے جس میں پاکستان آرمی کے اہلکار بڑے سنائپر رائفل کیسوں کے ساتھ موقع پر پہنچتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، اور ایک سنائپر رائفل جو ایک فوجی سے ضبط کی گئی تھی جو پاکستان آرمی کے ایس ایس جی کے ساز و سامان کی طرح لگتی تھی۔وغیر وغیرہ
اب اس رپورٹ کی وجہ سے جہاں بیرون ملک پاکستانیوں سے سوال کیے جا رہے ہیں کہ کیا آپ کے ملک میں خانہ جنگی کی سی صورت حال ہے وہیں ہمارے سفیر بجائے اُس نیوز سائٹ پر مقدمہ کرنے کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اگر لابنگ سیکھنی ہے تو ہمیں بھارت سے سیکھنی چاہیے کہ کس طرح اُس نے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر لابنگ کر کے اُسے کسی حد تک تنہا کر دیا ہے، اُس لابنگ کے ذریعے پاکستان کی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہے، وہ انٹرنیشنل میڈیا پر پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے لیے لابنگ کرتا ہے، اُس کی لابنگ اس قدر تیز ہے کہ اُس نے جیسے تیسے کرکے ہمیں مقبوضہ و جموںکشمیر کے معاملے پر مکمل خاموش کروا دیا ہے۔ لیکن ہماری لابنگ کرنے والے شاید سوئے ہیں یا اُنہیں فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی قدم اُٹھا لیں۔ حالانکہ مذکورہ بالا رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ دیے گئے حقائق کے بارے میں پاکستانی حکومت میں اتنی جرا¿ت نہیں ہے، کہ اُس نیوز سائیٹ کے خلاف مقدمہ دائر کر سکیں۔ یہ تردید بھی نہیں کریں گے۔ لہٰذامیرے خیال میں حکومت کو یا اداروں کو ”ڈراپ سائٹ نیوز“ کے خلاف مقدمہ درج کروانا چاہیے۔ دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کیوں کہ یہ وہ جریدہ ہے جس نے یہ انتشار پھیلایا ہے، جس نے امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، وہ پریشان ہو گئے ہیں کہ ہمارے ادارے کیا کر رہے ہیں ؟
اس لیے میرے خیال میں اگر رپورٹ میں لگائے گئے الزامات سچ ہیں تو پھر ہمیں پراسرار خاموشی اختیار کر لینی چاہیے جیسے ہم کرتے آئے ہیں ، لیکن اگر ان میں حقائق نہیں ہیں تو خدارا اس ملک کو بچائیں، کون ایسے حالات میں پاکستان میں سرمایہ لگانے کا سوچے گا؟ کیا اس حوالے سے پاکستان کو بھی اپنی لابنگ مضبو ط کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ تو یہ لابنگ کس نے کروانی ہے؟ کیا پاکستان کو اپنا کیس مضبوطی سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے؟ تاکہ وہ ذمہ داران جنہوں نے پاکستان کا نام بدنام کرنے کی کوشش کی ہے، اُنہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا ئے۔ اور پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر پاکستان شہہ سرخیوں میں آئے گا کہ دیکھا اُس واقعی کچھ نہیں ہوا تھا، اور اس کا دوسرا بڑا فائدہ ہوگا کہ آئندہ کوئی غیر ملکی جریدہ پاکستان کے خلاف مواد شائع کرنے کے حوالے سے محتاط ہو جائے گا ۔ لیکن اگر ہم نے ماضی کی طرح اس پر بھی خاموشی جاری رکھی تو بس پھر سمجھ لیں کہ واقعی دال میں کچھ کالا ہے!

اپنا تبصرہ لکھیں