حالیہ دنوں میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے باعث نہ صرف عام صارفین بلکہ کاروباری ادارے، طلبہ، فری لانسرز اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ وائی فائی اور موبائل ڈیٹا دونوں متاثر ہوئے ہیں، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹاگرام، ایکس (سابقہ ٹوئٹر)، فیس بک اور واٹس ایپ کے استعمال میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ خاص طور پر آڈیو پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز کی اپلوڈنگ اور ڈاؤن لوڈنگ جیسے کام متاثر ہو رہے ہیں۔ گھروں سے کام کرنے والے افراد اور آن لائن کلاسز لینے والے طلبہ بھی اس صورتحال سے شدید پریشان ہیں۔ انٹرنیٹ کی یہ سست رفتاری نہ صرف روزمرہ کے معمولات کو متاثر کر رہی ہے بلکہ ڈیجیٹل معیشت پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ پاکستان کی آئی ٹی معیشت، جو پہلے ہی کئی چیلنجز کا شکار ہے، مزید دباؤ میں ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر کا یومیہ منافع تقریباً تین ارب روپے ہے، جو انٹرنیٹ کی ناقص کارکردگی کے باعث کم ہو رہا ہے، اور مجموعی معیشت کو یومیہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ مسئلہ محض تکنیکی خرابی تک محدود نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں کچھ دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جن میں ڈیجیٹل دہشت گردی ایک اہم عنصر ہے۔ کچھ سیاسی عناصر اور بیرون ملک موجود ان کے حمایتی سوشل میڈیا کو جھوٹ اور پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مہم نہ صرف ریاستی اداروں کو بدنام کرنے بلکہ عوام میں بےچینی پھیلانے اور صوبائی و لسانی تعصبات کو ہوا دینے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی اور گمراہ کن معلومات، جعلی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے ریاستی اداروں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، تاکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کی جا سکے اور مخصوص سیاسی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔
اگر حکومت انٹرنیٹ کی رفتار کو جان بوجھ کر محدود کر رہی ہے تو اس کا مقصد یقینا ان عناصر کی سرگرمیوں کو روکنا ہو سکتا ہے جو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہ ان کا فرض بھی بنتا ہے۔ تاہم، ان اقدامات کے باعث عام شہریوں اور معیشت کو پہنچنے والا نقصان بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ مخصوص وطن دشمن گروہوں کے لیے پورے ملک کو متاثر نہ کیا جائے بلکہ ایسے عناصر کی مکمل بیخ کنی کی جائے۔ اس کے لیے سائبر کرائمز کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کو روکا جا سکے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ باہمی معاہدے کرتے ہوئے جعلی مواد کو فوری ہٹانے کا مؤثر نظام وضع کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ انٹیلیجنس اداروں کو ڈیجیٹل دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کی شناخت اور ان کو ختم کرنے کے لیے مضبوط بنایا جائے۔ ان عناصر کے خلاف عالمی سطح پر بلا تفریق سخت اقدامات کیے جائیں جو بیرون ملک بیٹھ کر ملک کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، نجی اور سرکاری دفاتر، اور کاروباری مراکز کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بنائے جائیں اور سختی سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کسی بھی ناپسندیدہ سرگرمی کے لیے نہ ہو۔ خلاف ورزی کی صورت میں سخت اقدامات کیے جائیں۔
یہ مسئلہ پورے ملک اور تمام عوام کا ہے، اور اس کے حل میں عوام کا کردار انتہائی اہم ہو سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ صرف حکومت پر تنقید کی جائے، عوام کو خود بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ سب سے پہلے، عوام کو سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی معلومات کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ کسی بھی خبر کو آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تصدیق ضروری ہے، اور اگر کوئی خبر مشکوک لگے تو اس کے ماخذ کو تلاش کرنا چاہیے۔ بغیر تصدیق کے جعلی خبروں اور پروپیگنڈا کو پھیلانے سے گریز کرنا انتہائی اہم ہے۔
ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا اور لوگوں کو جھوٹی معلومات کی شناخت کے قابل بنانا بھی عوامی کردار کا ایک اہم حصہ ہے۔ لوگوں کو یہ شعور دینا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا اور ملک میں افراتفری پھیلانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو صوبائی، لسانی اور سیاسی تقسیم سے گریز کرتے ہوئے قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نفرت اور اختلافات کو ہوا دینے والے عناصر کو مسترد کرنا اور متحد رہنا اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون بھی بہت ضروری ہے۔ اگر کسی کو جعلی پروپیگنڈے یا جھوٹی خبروں کا سامنا ہو تو اس کی اطلاع سائبر کرائمز سیل یا متعلقہ اداروں کو دی جانی چاہیے۔ عوام مثبت مواد تخلیق کرکے اور اس کی ترویج کرکے ملک کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جھوٹ کے مقابلے میں حقیقت پر مبنی اور تعمیری مواد کا پھیلاؤ ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرے گا جو ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
ایسے افراد یا گروپس کو نظر انداز کرنا بھی ضروری ہے جو ملک کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ انہیں جواب دینے کے بجائے بلاک کرنا اور ان کی پوسٹس کو رپورٹ کرنا زیادہ مؤثر طریقہ ہے تاکہ ان کے پروپیگنڈے کو مزید توجہ نہ ملے۔ عوام کو تنقید کرتے وقت تعمیری رویہ اپنانا چاہیے اور مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اداروں پر بے جا تنقید کے بجائے ان کی خامیوں کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز دینا زیادہ سودمند ہوگا۔
کمیونٹی کی سطح پر گروہی طاقت کا استعمال بھی ان مسائل کا حل نکالنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی مہمات چلائی جا سکتی ہیں جو مثبت ہوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا توڑ کریں۔ ایسے گروپس تشکیل دیے جا سکتے ہیں جہاں لوگوں کو تصدیق شدہ اور حقیقی معلومات فراہم کی جائیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا کردار بھی اس معاملے میں اہم ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر ملک کا مثبت امیج پیش کر سکتے ہیں اور جھوٹے مواد کے خلاف حقائق کو اجاگر کر کے عالمی سطح پر منفی پروپیگنڈا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اگر کوئی فرد یا گروپ ملک کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈا پھیلا رہا ہو تو عوام کو چاہیے کہ وہ قانونی راستے اختیار کریں اور اس کے خلاف متعلقہ اداروں سے کارروائی کی درخواست کریں۔ ان اقدامات سے جھوٹ اور پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی، اور ملک کے خلاف سازشوں کا مؤثر توڑ ممکن ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی عوام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مضبوط قوانین اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ یہ مسئلہ جڑ سے ختم ہو سکے۔
یہ وقت پاکستان کے لیے نازک ہے، اور انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی جیسے مسائل کے باوجود ایسے اقدامات ضروری ہیں جو ملک کو ڈیجیٹل دہشت گردی سے محفوظ رکھ سکیں۔ ان اقدامات کو عوامی اور معاشی نقصان کے بغیر نافذ کیا جانا چاہیے، تاکہ پاکستان ڈیجیٹل دور میں ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔ یہ سب عوام کے تعاون اور قوانین کے سخت نفاذ سے ہی ممکن ہے۔