پاکستان کیوں ڈوبا؟ ” حکمرانوں کے مالِ مفت دل بے رحم“ رویوں سے !

اس وقت صوبہ پنجاب بری طرح سموگ کی لپیٹ میں ہے، جسے اُس کے حکمرانوں نے لاوارث اور اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ یعنی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے خود تو ”ایمرجنسی چیک اپ “ کے لیے سوئٹزر لینڈ جانا ہی تھا، ساتھ میں وہ وزیر ماحولیات، چیف سیکرٹری پنجاب اور دیگر اہم ترین لوگوں کو ساتھ لے گئیں۔ اور صوبے کے 13کروڑ عوام کو بے آسرا چھوڑ گئی، یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے 2010ءمیں پاکستان میں سیلاب تباہ کاریاں کر رہا تھا تو اُس صدر زرداری بیرون ملک چلے گئے تھے۔ جس پر خاصی لے دے ہوئی تھی۔ اور پھر آپ اندازہ لگائیں کہ مریم صاحبہ ائیرفورس کے خصوصی جہاز پی ایف ایف 3کے ذریعے سوئٹزر لینڈ گئی ہیں۔ اب بتایا جائے کہ یہ ائیر فورس کا جہاز کس کے پیسوں سے چلتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ اس دورے کا بل ہی صرف پبلک کردیں تو وہ ملک میں انقلاب کو دعوت دینے کے لیے کافی ہوگا۔ اور پھر آپ ارب پتی خاتون ہیں، آپ کا خاندان کھرب پتی ہے، تو عوامی شہرت کے لیے کیا آپ ایسا نہیں کرسکتیں کہ اپنا چارٹرڈ طیارہ ہی کروا لیں؟ کیا آپ کے پیسے صرف بیرون ملک ڈالریا یورو اکاﺅنٹس بھرنے کے لیے ہیں؟ کیا انہیں خرچ نہیں کرنے؟
بہرحال ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ صدر زرداری خود لوگوں کو پانی سے نکالنا تھا، یا مریم نواز نے خود سموگ کو ختم کرنا تھا، بلکہ آفت زدہ علاقوں میں لوگوں کو ایک تسلی رہتی ہے کہ ان کے حکمران کم از کم ان کے درمیان موجود ہیں اور ان کی تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ عوام کا دکھ اس بات سے ہی کم ہو جاتا ہے کہ ان کا حکمران اگر مدد نہیں بھی کر پا رہا تو ان کے آنسو تو پونچھ رہا ہے۔ قصہ مختصر کہ حکمرانی ایک ذمہ داری کا نام ہے نہ کہ عیاشی کا۔عیاشیوں سے یاد آیا کہ یہ ملک ڈوبا ہی ان کی عیاشیوں سے ہے۔ ان کے پروٹوکول، غیر ضروری سٹاف، غیر ملکی دورے، غیر ضروری آفسز، غیر ضروری روٹس پر ہی سالانہ کھربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مثلاََ جب ایک ایک وزیر ایک جگہ سے دوسری جگہ صفر کر رہا ہوتا تو اُس کے ساتھ درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ہوتا ہے، اور پھر یہ صورتحال صرف مرکز کی نہیں بلکہ ہر صوبے کی بھی ہے، میں والد صاحب کی برسی پر کھڈیاں (قصور) جارہا تھا، راستے میں ایک صوبائی حکومتی شخصیت جو ہمارے محسن بھی ہیں، اور حلقے کے ایم پی اے بھی ۔ تو موصوف کا پروٹوکول دیکھا تو کم از کم نصف درجن بڑی گاڑیاں اُن کے ساتھ تھیں، جن کے اخراجات بھی سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہ صرف ایک حکومتی وزیر یا عہدیدار ہیں، پورے ملک میں ایسے سینکڑوں پروٹوکول آپ کو دیکھنے کو ملیں گے۔یعنی ہمیں تو پروٹوکول لے کر بیٹھ گیا ہے۔
بہرحال چلیں آپ ایمرجنسی میں چلی گئیں، ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے، لیکن وزراء، چیف سیکرٹری وغیرہ کو یہ باتیں زیب دیتی ہے کہ وہ بھی ہمراہ چلے جائیں؟ اور پھر ایسے وقت میں جب پورا پنجاب سموگ میں ڈوبا ہوا ہے، اور ماہرین کہہ رہے ہیں کہ حالات ابھی مزید خراب ہوں گے! لیکن اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ چیف منسٹر ، چیف سیکرٹری اور سینئر وزراءکے بغیر چل رہا ہے۔ اور ہمارے حکمرانوں کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ پاکستان میں ایک وزیر اعظم محمد خان جونیجو آیا تھا، جس نے ان کی عیاشیاں ختم کرنے کی کوشش کی، اُس کے بعد عمران خان نے کیں، کیوں کہ بانی تحریک انصاف جب امریکا گئے تو وہ وہاں کے سفارتخانے میں ٹھہرے تھے، لیکن ہمارے موجودہ حکمران ایسا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، تحریک انصاف کے دور میں کوئی صحافی غیر ملکی دوروں میں ہمراہ نہیں جاتا تھا، کسی وزیر کا کوئی فیملی ممبر ہمراہ نہیں جاتا تھا۔ جس سے کئی صحافی بھی ناراض ہوئے، کئی وزراءبھی ناراض ہو جاتے۔ آپ اُس دور کے پروٹوکول کے اخراجات اور گاڑیوں کے اخراجات نکال لیں اور آج کے نکال لیں، آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ خرابی کہاں ہے؟ اُس وقت بڑی گاڑیوں کے بجائے چھوٹی گاڑیاں استعمال کی جارہی تھیں۔
جبکہ اس کے برخلاف چارٹرڈ طیارے کروائے جارہے ہیں، پورے پورے خاندان سرکاری خرچے پر بیرون ملک سفر کر رہے ہیں، بلکہ حالیہ دنوں میں امریکا میں نوازشریف جہاں ٹھہرے تھے، اُس کمرے کا صرف کرایہ ہی دس لاکھ روپے تھا۔ لہٰذاان کو کیا لگے، پاکستان ڈوبتا ہے تو ڈوبے، خزانے میں پیسے ہیں یا نہیں، یہ سب کچھ ایک طرف اب تو ان کے پروٹوکول میں بھی لکھ دیا گیا ہے، کہ جب آپ نکلیں گے تو آپ کے ساتھ اتنی گاڑیاں ہوں گی، اتنی Reserveگاڑیاں ہوں گے، اتنا سٹاف ہمراہ ہوگا اور یہ یہ ٹاپ بیوروکریسی کے سٹاف ممبرز ہمراہ ہوں گے۔ مطلب! ہر صوبے کا یہی حال ہے، آپ کے پی کے کو دیکھ لیں وہاں بھی 30،35گاڑیوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ موو کرتے ہیں،جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو اُن کے زیر ااستعمال ہیلی کاپٹر مری سے پنڈی ناشتہ لینے کے لیے آیا کرتا تھا،اور ابھی بھی سوئٹزر لینڈ میں موصوف مکمل سرکاری پروٹول کے ساتھ سیر و تفریح کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔پھر ان کے یہاں روٹس لگتے ہیں، اس کے اخراجات الگ دینے پڑتے ہیں، مثلاََاسمبلی سے لے جاتی عمرہ تک ایک پروٹوکول پر کم از کم 40لاکھ روپے اخراجات آتے ہیں۔اور پھر آصفہ زرداری کی شاہی بلیاں کراچی سے لاہور ہوائی جہاز میں لاہور پہنچیں، ان کی دیکھ بھال کے لیے ڈاکٹرز بھی ہمراہ تھے۔ اور یہی نہیں آپ گورنر ہاﺅسزکے سالانہ اخراجات کو دیکھ لیں،ان کا پروٹوکول دیکھ لیں،ان کا سٹاف دیکھ لیں اور پھر دیکھ لیں کہ انہوں نے پورا سال آخر کیا کیا ہے؟ کیا گورنرز شاہانہ رہائش چھوڑ کر جی او آر شفٹ نہیں ہو سکتے، جہاں ججز، بیوروکریٹس اور وزرائ، وزیر اعلیٰ رہتے ہیں یہ صاحب وہاں پر کیوں نہیں رہ سکتے؟
اور پھر معذرت کے ساتھ یہ اضافی پروٹوکول، دکھاوا تو عمر کے ایک خاص حصے تک اچھا لگتا ہے،اُس کے بعد تو آپ کی شخصیت بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی…. جب ہم جوان ہو رہے تھے، تب کوشش ہوتی تھی کہ ہمارے ہم عصر ہم سے متاثر ہوں۔ لیکن جیسے ہی زندگی میں میچورٹی آتی گئی، وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگیا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کا کمپلیکس ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ عوام کو دکھانے کے لیے ہے؟ تو کیا عوام آپ کو جانتے نہیں ہیں؟ کیا عوام یہ نہیں جانتے کہ کس طرح آپ کے کاروبار میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی اور ساتھ ساتھ اُسی رفتار سے ہی ملک بھی ڈوبتا رہا؟ آپ کو تو اس وقت چاہیے کہ عوام میں جگہ بنانے کے لیے عوامی فیصلے کریں، عوام دوست اقدامات کریں، سرکاری پروٹوکول کم کریں، سٹاف کم کریں، کفایت شعاری مہم چلائیں۔ بیرون ملک دوروں پر کوشش کریں ذاتی اخراجات کریں۔ لیکن مجال ہے ایسا ممکن ہوجائے۔ ایسا اس لیے بھی نہیں ہے کہ دیکھا دیکھی یہ لوگ فطرتاََ ایسے ہو جاتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ جب یہ بیرون ملک قرضہ لینے جاتے ہیں یہ تب بھی بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہتے ہیں، جن میں ایک کمرے کا ایک رات کا کرایہ ہے دس دس لاکھ روپے ہوتا ہے۔ اور یہ ذاتی سٹاف کی پوری فوج وہاں ٹھہراتے ہیں، بلکہ اس بار تو امریکا میں ہمارے وزیر خزانہ سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ آئے تو قرض لینے ہیں، مگر یہ عالیشان ہوٹلوں میں رہائش اور اتنے بڑے وفد کو ساتھ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ تو وہ مسکرا کر آگے نکل گئے۔ مطلب جو قرضہ دینے والے ہیں وہ سستے ہوٹلوں اور قرضہ لینے والے مہنگے اور پرتعیش ہوٹلوں میں ہوتے ہیں۔ ہمارے وزراءکا تو اس حوالے سے مکمل علاج ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ کسی نفسیاتی مسئلے سے کم نہیں ہے۔
یقین مانیں ہمارا وزیر اعظم ہاﺅس وائیٹ ہاﺅس (واشنگٹن) سے دو گنا بڑا ہے، بلکہ آپ اس بات پر بھی حیران ہوں گے کہ ہمارے وزیر اعظم کا پروٹوکول امریکی صدر، روسی یا چینی صدر سے زیادہ ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے کانوائے میں کوئی بھی گاڑی 10کروڑروپے سے کم نہیں ہوگی۔ لہٰذاہمیں تو مروایا ہے، ان پروٹوکولز نے، ان عیاشیوں نے، مہنگی مہنگی گاڑیوں نے، ان گاڑیوں کے سٹاف نے، پھر ان گاڑیوں کی مین ٹیننس نے(درحقیقت اصل عیاشی تو گاڑیاں خریدنے کے بعد شروع ہوتی ہے) جب یہ گاڑیاں ورکشاپس جاتی ہیں، تو وہاں کروڑوں روپے کے بل بنتے ہیں،کمیشن کے فیصلے ہوتے ہیں، پھر پٹرول وغیرہ میں کمیشن کھائے جاتے ہیں۔ مطلب! ہمیں اگر کسی نے ڈبویا ہے تو ان کرپشن سے لتھڑے سیاستدانوں نے، یہ اس ملک کے لیے کینسر بن چکے ہیں، اور اس میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ججز، جرنیل اور بیوروکریسی بھی شامل ہے۔ بقول قاضی حسین احمد مرحوم کے ہمارے اداروں نے تو اپنی کرپشن لیگلائز کر رکھی ہے۔ لہٰذایہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ ملک کیوں ڈوبا، بلکہ ان کی عیاشیوں سے ڈوبا ہے۔ اور خاص طور پر موجودہ حکمرانوں کی عیاشیوں سے! ان پر سے تو اتنا اعتبار اُٹھ چکا ہے کہ ان کے دور میں اگر بظاہر کوئی اچھا کام بھی ہو رہا ہو تو آپ سمجھ جائیں کہ اُس میں شفافیت نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہوں گے، ابھی جو پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ سامنے آیا تھا، آپ دیکھ لیجئے گا جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو کہیں نہ کہیں سے ان کی بے ایمانی سامنے آئے گی، جس میں ان کے ذاتی مفادات پنہاں ہوں گے۔ کیوں کہ یہ لوگ یہ قطعاََ نہیں سوچتے کہ اس سے ملک کو فائدہ ہو گا، بلکہ یہ ہر حال میں کسی نہ کسی طرح اپنے خاندان کے لوگوں، دوستوں وغیرہ کو ملا کر رقم بٹورنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ نہیں یقین تو نجی پاور کمپنیوں کو ہی دیکھ لیں اور چیک کرلیں کہ یہ کس کس کی ہیں۔ اور کس کس ادوار میں انہیں ٹھیکے دیے گئے۔ بلکہ آپ تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ مال مفت دل بے رحم۔
بہرکیف میں یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ ملک غریب نہیں ہے، لیکن یہ کینسر زدہ ضرور ہے، جسے علاج کی سخت ضرورت ہے!اور اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ پھٹ جائے گا، پھر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا!

اپنا تبصرہ لکھیں