پاک امریکہ تعلقات اور عمران خان!

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاست میں جس کردار کا مظاہرہ کیا، اس کی وجہ سے ان کی طرف سے دنیا کو کسی خیر کی توقع تھی نہ ہے۔ امریکی دستور کے مطابق وہ منتخب ہو چکے تاہم اپنا عہدہ 20جنوری کو سنبھالیں گے، اس سے قبل ان کی طرف سے نامزدگیاں ہوئی ہیں، ان میں بھی انہوں نے اپنے ہی مزاج کے لوگوں کو ترجیح دی، جن میں ایک صاحب رچرڈ گرنیل بھی ہیں، ان کی نامزدگی صدر امریکہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر ہوئی ہے، اس سے یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ وہ جو بات کریں گے وہ بالواسطہ صدر ٹرمپ ہی کی مانی جائے گی۔ رچرڈ گرنیل کے حوالے سے امریکی میڈیا نے جو پروفائل دکھائی ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صاحب کیا گل کھلائیں گے اور یہ اظہار شروع بھی ہو گیا ہے۔ بلاشبہ امریکہ اس وقت اکیلی قوت ہونے کے حوالے سے سپرپاور ہے لیکن ٹرمپ صاحب کا جو انداز گفتگو ہے وہ تو اس سے بھی کچھ آگے کا ہے، وہ اس لہجے میں بول رہے ہیں جیسے ماضی میں خود کو خدا جاننے والے بولا کرتے تھے، ٹرمپ کا پہلا دور بھی کوئی زیادہ اچھا نہیں تھا اور پھر انتخابی معرکہ میں ناکامی کے بعد ان کے پیروکاروں نے جو ردعمل دیا وہ ناخوشگوار تھا اور ایوان نمائندگان پر حملہ اس کا مظہر ہے۔ہمارے (پاکستان) لئے کسی امریکی جماعت سے خیر کی خبر نہیں ملتی اور امریکہ دنیا بھر میں مداخلت کرتا اور اپنے مخالفین کو برباد یا زچ کرنے سے باز نہیں آتا اور طاقت کے نشے میں ہر ایک کے خلاف بولتا ہے۔ امریکی مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہی عرصہ پاک، امریکہ دوستی کا بھی ہے، پاکستان سیٹو، سینٹو میں امریکہ کا حلیف بھی رہا اور پھر امریکہ کے انتخابی عمل میں کئی ”اپ سیٹ“ بھی ہوتے رہے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ بھی ایسے اپ سیٹ کے حامل ہیں اور ان کا انداز جارحانہ ہے جو کسی ایک ملک یا خطے کے نہیں، پورے گلوب کے حوالے سے ہے۔ ان کا انداز گفتگو یہ ہے کہ 20جنوری سے قبل حماس، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دے اگر ان کے عہدہ سنبھالنے سے قبل یہ نہ ہوا تو پھر وہ ہوگا جو کسی نے نہ دیکھا ہو اور حشر کر دیا جائے گا، یوں یہ انسان کے پردے میں نہ معلوم کون بول رہا ہے۔

پاکستان، جو لاکھوں قربانیوں کے عوض حاصل ہوا اول روز ہی سے غیر قدرتی ماحول سے دوچار رہا، 1946ء کے انتخابات میں کامیابی سے جب واضح ہوا کہ پاکستان کا قیام ہو کر رہے گا تو پنجاب میں حاکم یونینسٹ پارٹی نے اپنا کعبہ تبدیل کر لیا اور وزیراعلیٰ خضر حیات نے ہاتھ بڑھایا جو تھام لیا گیا اور یوں یہ کٹر پاکستان مخالف جاگیردار مسلم لیگ میں آگئے اور پھر جوڑ توڑ کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ بدقسمتی سے اس رو میں نواب افتخار حسین ممدوٹ اور میاں ممتاز محمد خان دولتانہ بھی بہہ گئے ان کی حریفانہ چپقلش نے صرف پنجاب ہی نہیں پورے ملک کو نقصان پہنچایا حتیٰ کہ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب اقتدار کی رسہ کشی کے باعث 1953ء میں تحریک ختم نبوت جبر کی زد میں آئی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ تھے۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو زچ کرنا شروع کر دیا اور پھر اسی دور میں لاہور کی سطح پر مارشل لاء لگایا گیا اور یوں ایک اور روش شروع ہو گئی۔ بہرحال بات تو امریکی طرزعمل کی تھی روز اول ہی سے ”پاکستان، امریکہ دوستی“ ہوگئی اور شہید ملت لیاقت علی خان نے امریکہ جانا منظور کیا، اس کے بعد تعلقات بڑھتے رہے جو آج تک اونچ نیچ کا شکار ہیں اس حوالے سے بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں اور لوگ جانتے بھی ہیں کہ امریکی طرز عمل پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ بہتررہا، حتیٰ کہ ایک وہ دور آیا، جب بھارت کو اسلحہ اور ہمیں ”سرکاراما“ کا تماشہ بھیجا گیا۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی امریکی توازن ادھر ہی رہا، ہم بہ امر مجبوری اپنا بلاک بھی تبدیل نہ کر سکے اور نہ ہی امریکہ سے اپنی حیثیت منوا سکے۔ قارئین پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی قوم بہت کچھ جانتی ہے اور عملی مظاہرہ بھی دیکھ چکی۔

اب جو سوال سامنے آ کھڑا ہوا وہ ٹرمپ انتظامیہ کا ہے، 20جنوری سے قبل تو حالیہ شکست خوردہ حکومت نے ہمیں جھٹکا دیا اور ہمارے میزائل پروگرام کے حوالے سے چار سے زیادہ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دیں، یہ بھی کوئی پہلی مرتبہ نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے یہ بھگت چکے، جبکہ محمد نوازشریف نے دھماکے کرنے کے حوالے سے دباؤ برداشت کیا اور یوں یہ بھی روایت ہے کہ ہر بات نہیں مانی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا دستور ہے کہ ایک بیان کے بدلے سرنڈر کر دیا جائے۔ البتہ جنرل پرویز مشرف کی الگ بات ہے کہ انہوں نے ایک فون کال پر بات مان لی، تاہم یہ بھی تاریخ ہے کہ ہر بات نہ مانی گئی اگرچہ اس کے عوض درون خانہ سازشوں کا بھی سامنا ہوا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بھٹو نے اپنے دور میں خط لہرا کر امریکہ کے خلاف الزام لگایا اور عمران خان نے سائفر لہرا کر یہی الزام دہرایا۔

اب حالات میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے اس کے مطابق نامزد ایلچی رچرڈ گرینل خبروں میں ہیں جنہوں نے کھل کر عمران خان کی رہائی پر زور دیا ہے۔ اس سے انصافی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے تاہم اس بات کو نظر انداز کر دیاگیا کہ معاملہ اتنا بھی آسان نہیں کہ اب گرینل نے بیان دیا تو جیلوں کے دروازے کھل گئے ہیں، اس سلسلے میں ہمیں اپنے دفترخارجہ کے ردعمل پر غور کرنا ہوگا کہ وزارت خارجہ کا کیا کہنا ہے مجھے افسوس ہے کہ رانا ثناء اللہ خان جیسے تجربہ کار شخص نے بلا سوچے سمجھے ایک سوال کے جواب میں کہہ دیا کہ امریکہ ڈاکٹر عافیہ کو رہا کر دے تو غور کیاجا سکتا ہے ان کا یہ بیان دفتر خارجہ کے موقف سے لگا نہیں کھاتا ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا جواب ہی دیا جائے۔ یوں بھی خارجہ امور کے حوالے سے بات کرنے کا حق وزارت اور وزیر خارجہ ہی کو ہے، جو خود توکچھ نہیں کہہ رہے البتہ دفتر خارجہ مسلسل موقف بیان کر رہا ہے۔

میرا نظریہ اس حوالے سے ذرا مختلف یوں ہے کہ میں پورے عالم کے مسائل کو ریاست مدینہ کے دور اور حضور اکرمؐ کے فرامین کی روشنی میں دیکھتا ہوں جس کے مطابق صیہونی تو دشمن ہیں لیکن صیہونیوں کے دوست عیسائیوں سے بھی خیر کی توقع نہیں اور امریکہ اس کے سرپرستوں میں سے ایک ہے۔ ٹرمپ کے تو داماد صیہونی ہیں اس لئے ان سے کسی خیر کی توقع نہیں، یہ درست ہے کہ عمران خان اور ان کے کارکن اور ساتھی امریکی رویے سے اب مطمئن اور خوش ہیں لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کھل کر امریکی موقف کی حمائت کریں اس سلسلے میں بیرسٹر گوہر خان کا بیان ہی کافی ہے، لہٰذا ہمیں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرناچاہیے، ویسے بھی قومی خودمختاری کے حوالے سے ہمارا بھی ایک موقف ہے اور یہی درست رویہ بھی ہے، اس لئے میرا موقف یہ ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان جو بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا، اسے قومی نقطہ ء نظر سے انجام پذیر ہونا چاہیے۔

اپنا تبصرہ لکھیں