دنیا ہم پر حیران ہے کہ ان کے سیاستدان ایک دوسرے کو ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ عوام سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ نظر آرہی ہے،،، یعنی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے 85فیصد عوام جنگ کو لے کر ”نارمل“ رویہ رکھے ہوئے ہیں،،، جبکہ پاکستان کے 95فیصد عوام کو جنگ کے حوالے سے کوئی ”فکر“ نہیں ہے۔اور دونوں ممالک کے درمیان سرحد جو کم و بیش 3ہزار کلومیٹر ہے کے 90فیصد عوام اپنی روٹین کی زندگی گزار رہے ہیں،،، فصلیں بھی کاٹ رہے ہیں، مویشی بھی چرا رہے ہیں اور گولہ بارود کے درمیان چین کی نیند سو بھی رہے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ دونوں ممالک کسی بڑی جنگ سے ہمیشہ گریز کرتے رہے ہیں کہ ان دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت جنگ کے معاملے میں ان کے ساتھ نہیں ہے،،، اور یہ بات میری آنکھوں دیکھی بھی ہے کہ بھلے وقتوں میں جب کبھی بھی بھارت جانا ہوا، وہاں کے عوام ہماری جس قدر آﺅ بھگت کرتے تھے،،، اتنی تو سسرال میں بھی کبھی نہیں ہوئی! جبکہ اسی طرح اگر وہاں سے کوئی وفد ہمارے ہاں آتا تو ہمارے یہاں بھی بھارتی عوام کو سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ نہ کبھی ہمارے سامنے بھارتی عوام نے کبھی کوئی غلط نعرہ لگایا اور نہ ہی اُن کی آمد پر بھارت مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا۔ لیکن جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے،،، ایسے لگ رہا ہے جیسے ہمارا کبھی آپسی رشتہ رہا ہی نہیں ہے،،، بلکہ اب تو دل کرتا ہے کہ بھارت یعنی مودی سرکار کو ایک بار سبق سکھا ہی دیا جائے۔ کیوں کہ انہوں نے حقیقت میں پاکستان کو معاشی، معاشرتی ، امن و امان، لابنگ اور دیگر معاملات میں رول کر رکھ دیا ہے۔ اور ہماری سرکارہمیشہ مصلحت پسندی سے کام لیتی رہی ہے۔ نہ کہیں بھارتی لابنگ کا جواب دیا گیا، نہ کہیں اُن کے خلاف بین الاقوامی لابنگ کی گئی، نہ اُن کا معاشی مقابلہ کرنے کی جسارت کی گئی، نہ اُنہیں کبھی معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ خیر یہ الگ موضوع ہے ،،، فی الوقت ہم ایٹمی جنگ کی بات کر رہے تھے ۔ کہ دونوں ممالک کے عوام کسی صورت بھی جنگ کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔
لیکن میں یہاں ایک سنجیدہ رپورٹ جو امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کے ماہرین نے جاری کی ہے وہ شیئر کر رہا ہوں جس میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میں پانچ ارب اور اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دو ارب انسان مر جائیں گے۔اوراگر پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے خلاف 100 سے 250 کلو ٹن کے ایٹمی ہتھیار جو ان دونوں ممالک کے پاس موجود ہیں، استعمال کرتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں 12 کروڑ 70 لاکھ لوگ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں لگنے والی آگ اور تابکاری سے فوری طور پر مر جائیں گے۔آسمان پر ایٹمی تابکاری کے جو بادل چھائیں گے اس میں تین کروڑ 70 لاکھ ٹن زہریلا مواد موجود ہو گا جس سے پوری دنیا کا ماحول تباہ ہو جائے گا اور دنیا بھر کا درجہ حرارت پانچ درجہ سیلسیئس بڑھ جائے گا۔اتنا درجہ حرارت گذشتہ برفانی دور کے دوران بڑھا تھا۔ دنیا میں خوراک کی پیداوار کا نظام مفلوج ہو جائے گا۔ اس کی پیداواری صلاحیت اجناس یا مچھلیوں کی صورت میں 42 فیصد تک گر جائے گی۔ دنیا بھر میں قحط پھیل جائے گا جس سے دو ارب لوگ مر جائیں گے۔ ایٹمی تابکاری کے بادلوں میں دھماکے سے جلنے والی لکڑی کی راکھ، تیل، تباہ ہونے والی عمارتوں کی دھول اور آگ کی راکھ اس قدر زیادہ ہو گی کہ یہ سورج کی روشنی کو روک دے گی جس سے دنیا میں ایٹمی سردی شروع ہو جائے گی جس سے زرعی پیداوار سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔
تو جناب! یہ ہیں ایک ایٹمی جنگ کے اثرات ،،، امریکی سائنس دان آئن اسٹائن، جس نے امریکا کے ایٹمی پروگرام پر بہت کام کیا تھا، اس سے دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم کیسی ہو گی؟ تو انہوں نے کہا تھا”تیسری جنگ عظیم کا تو مجھے علم نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی“۔ آئن اسٹائن کے اس جواب میں ایک وضاحت اور بلاغت موجود ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لائے گی اور کچھ نہیں بچے گا، اس کے باوجود اگر انسان کو لڑنا پڑ گیا تو اسے ڈنڈوں سے لڑنا ہو گا۔ لہٰذادونوں اطراف کے سیاستدانوں کو شرم کرنی چاہیے، ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور خاص طور پر بھارتی میڈیا کو جن کے میڈیا ہاﺅسز میں ”وارروم“ بھی بنا دیے گئے ہیں۔ جہاں سے ہر لمحہ کی جھوٹی رپورٹنگ کی جا رہی ہے۔ اُنہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ اگر ایسی صورتحال پیداہوتی ہے تو سبھی کا نقصان ہوگا۔ اور پھر ہمارے وزراءکو بھی خدا کا خوف کرنا چاہیے جو ایٹمی جنگ کی باتیں کررہے ہیں جیسے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ دونوں نے پاک انڈیا ممکنہ ایٹمی جنگ کے بارے میں خبر دارکر رہے ہیں۔ انہیں علم ہونا چاہیے کہ 1965 اور 1971 کی دونوں جنگیں مکمل جنگیں ضرور تھیں لیکن تب تک دونوں ملک ایٹمی طاقت نہیں تھے۔1999 کا کارگل تنازع بھی ایک مخصوص علاقے سے بڑھ نہیں سکا تھا اگرچہ دونوں طرف کی فوجوں کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اور پھر پاکستان کے بارے میں مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اس کے پاس محدود پیمانے پر نقصان پہنچانے والے ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یعنی اس کی سرحد کے اندر انڈین افواج ہزاروں کی تعداد میں گھستی ہیں تو اس کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو لمحوں میں مخالف فوجوں کا ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔
یہی وہ خطرناک منظر نامہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات موجود ہیں۔ 2022 میں انڈیا نے غلطی سے براہموس میزائل پاکستان کی جانب فائر کر دیا تھا ایسا کوئی بھی اتفاق ایٹمی میزائلوں کو حرکت دے سکتا ہے۔اگر ہم ماضی قریب 2019 کے تنازعے کو ذہنوں میں رکھیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بالا کوٹ حملے کے اگلے دن پاکستان ایئر فورس کی جوابی کارروائی میں ایک انڈین طیارے کو مار گرانے کے بعد دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور قریب تھا کا کسی بھی وقت طبلِ جنگ بج جائے، تاہم اس وقت یہ جنگ امریکہ اور مغربی ممالک کے دباﺅ کی وجہ سے ٹل گئی تھی۔تب بھی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر تھے اور آج بھی وہی صدر ہیں۔ لیکن اس بار انہوں نے ایک ایسا بیان دیا ہے جو بہت مبہم ہے یعنی کہ دونوں ملک خود ہی کوئی راستہ نکال لیں گے۔
خیر موجودہ تنازع اس حوالے سے مختلف ہے کہ اس میں ایٹمی جنگ کو خارج از امکان قرا ر نہیں دیا جا رہا۔ لیکن اس بار سندھ طاس معاہدے کو ختم کرکے بھارت نے جہاں پاکستان کا پانی بند کر دیا ہے وہیں ہمارا سب کچھ داﺅ پر بھی لگا دیا ہے۔ اور بھارت پانی بند کرنے کے حوالے سے پہلے سے ہی تاک میں بیٹھا تھا کہ اُس نے حالیہ فالس فلیگ آپریشن کے لیے پہلگام کا چناﺅ کیا۔ جس کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کو ایک غیرذمہ دار اوردہشت گرد رِیاست کے طور پر پیش کر کے سندھ طاس معاہدے سے باہر آ جانا اور پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی گراﺅ نڈ تیار کرنا ہے۔ اِس کام کیلئے اُس دن کا انتخاب کیا گیا جب امریکی نائب صدر چار روزہ دَورے پر بھارت آئے ہوئے تھے اور نریندرمودی سعودی عرب کے دورے پر تھا۔ اُسے اپنا دورہ مختصر کر کے واپس نئی دہلی آنا پڑا۔ اِس پوری کارروائی کا مقصد سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان پر یہ واضح کرنا تھا کہ پاکستان پورے خطے میں دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہے اور اِسے سختی سے روکنا ازبس ضروری ہو گیا ہے۔جبکہ امریکا کو بھی یہی کچھ دکھانا مقصود تھا۔
بہرحال اس بار ایٹمی جنگ کے خطرات ماضی سے 52فیصدزیادہ لگ رہے ہیں لیکن ہمیں اس حوالے سے بھی مطمئن رہنا چاہیے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1988 میں ایک ایٹمی معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ 1991 میں اس معاہدے میں رد و بدل کرتے ہوئے دونوں ممالک پر ایک دوسرے سے اپنی ایٹمی تنصیبات کے مقامات بھی ظاہر کیے گئے۔اس کے بعد سے دونوں ممالک تواتر کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے ایٹمی مقامات کی معلومات کا تبادلہ کرتے آئے ہیں۔ انڈیا کا ایٹمی ڈاکٹرائن واضح طور پر پہل نہ کرنے پر استوار ہے تاہم اگر اس پر کیمیکل یا بائیولاجیکل ہتھیاروں سے حملہ ہوتا ہے تو پھر وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔اور پھر دونوں ممالک نے خاصی بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ اس وقت انڈیا کے پاس 172 اور پاکستان کے پاس 170 نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ کئی خطروں کی نشاندہی کرتا ہے۔
بہرکیف اس بار مودی سرکار نے جو منصوبہ بندی کی، وہ حددرجہ ناقص ثابت ہوئی۔ عالمی رائے عامہ نے بھارت کا ساتھ دینے کے بجائے پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور اِس کے دوست بھی تاخیر کے بغیر جنگی سازوسامان پہنچانے لگے۔ چین، روس، سعودی عرب، قطر، امارات اور ترکیہ نے پاکستان کے حق میں بیان دیے اور اِیران نے اپنے آپ کو ثالثی کیلئے پیش کر دیا۔ اِن جملہ معاملات میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کیلئے سب سے اہم ہے جسے بھارت نے فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔یہ یقینا بھارت کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جو بھارت ہی کو لے ڈوبے گا ، کیوں کہ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے کسی تیسرے ملک نے ثالث کا کردار ادا کر دیا تو وہ یقینا دونوں ممالک کی سرحد کے دورے کریں گے تو ایسے میں اس بات کی کہیں گنجائش نہیں رہے گی کہ پاکستان کی طرف سے کوئی دہشت گرد آئے ہوں گے۔ لہٰذامیں پھر یہی کہوں گا کہ ہمیں خدانخواستہ ایٹمی جنگ سے پہلے اعصاب کی جنگ جیتنے کی ضرورت ہے،،، جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
