آج کل پاک بھارت جنگ پر افسوس کے ساتھ کالم لکھنے پڑ رہے ہیں، کہ دو ایٹمی قوتیں اس وقت آمنے سامنے کھڑی ہیں،،، جبکہ دنیا کے بڑے بڑے ٹھیکیدار جن میں امریکا سرفہرست ہے، کہہ رہے ہیں کہ ہم پاک بھارت مسئلے میں نہیں پڑیں گے، دونوں ملک اپنا مسئلہ خود دیکھیں،،، لیکن اُمید کرتے ہیں کہ ان کے درمیان جوہری جنگ نہیں ہوگی۔ جب بات جوہری جنگ کی ہو تو دوسری جنگ عظیم یاد آجاتی ہے،،، لیکن اگر بات اس سے بھی زیادہ تباہ کاریوں اور خون ریزیوں کی ہو تو پھر پہلی جنگ عظیم یاد آجاتی ہے۔ اگرآپ مذکورہ جنگ کو آج کی پاک بھارت جنگ کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ پہلی جنگ عظیم بھی اسی طرح کے حالات میں شروع ہوئی تھی۔یعنی اُس وقت بھی ایک عالمی سازش کے ذریعے دوقوتوں کو لڑایا گیا،،، اور بڑی قوتوں کو اپنی طاقت دکھانے کا موقع ملا،،، جس کے بعد وہ آج تک خود کو سپر پاور گردانتے ہیں۔ یعنی پہلی جنگ عظیم جب شروع ہوئی تو اُس وقت متحدہ ہندوستان تھا، ہندو مسلمانوں کے تنازعات چلتے رہتے تھے۔ جبکہ مسلمانوں کا جھکاﺅ ترک خلافت کی طرف تھا۔ خیر پہلی عالمی جنگ کو بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ بھی قرار دیا جاتا ہے ، لیکن بنیادی طور پر یہ کسی عالمی تنازعہ سے زیادہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی عالمی سازش تھی جو اگرچہ اگست 1914 میں ہبزبرگ کے ایک شہزادے فرانز فرڈنینڈ کے قتل سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کی بنیاد یورپ کی دو گروپوں میں تقسیم کی صورت میں انیسویں صدی کے اختتام پر رکھی جاچکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں (برطانیہ، فرانس، سربیا اور روس، جاپان، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور امریکہ) کا مقابلہ محوری قوتوں(جرمنی ، آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ) سے تھا۔ خوف اور طاقت کے نشے میں دنیا کے بیشتر ممالک بھی اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے لیکن جنگ کا ابتدائی جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑگیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی ہولناک جنگ کی شکل اختیار کر گئی کیونکہ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں اپنے اتحادیوں کی مدد کیلئے روس کو بالکنز کے علاقے اور بحیرہ روم کو عبور کرکے آگے جانا تھا۔روس کی جانب سے اپنے علاقوں اور سرحدوں کی خلاف ورزی پر سلطنت عثمانیہ کو مجبورااِس جنگ میں کودنا پڑا اور سلطنت عثمانیہ نے اپنے علاقے بچانے کیلئے محوری قوتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا، پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی تو ممکن نہ ہوئی لیکن اس لڑائی کی شدت مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ یہ چونکہ جنگ سے زیادہ ایک سازش تھی، اس لیے جنگ(سازش) آہستہ آہستہ یورپ کے دیگر علاقوں سے سمٹتی ہوئی سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں محدود ہوکر رہ گئی، مغربی محاذ پر بنیادی طور پر پہلی عالمی جنگ 11 نومبر 1918 کو صبح کے 11 بجے ختم ہو گئی۔جب اس جنگ کا خاتمہ ہوا تو بیلجئیم اور فرانس کے دریا کہلانے والے ’اوئیس‘ کے کنارے آباد کومپین، فرانسیسی شہر کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ جنگ عظیم اول کے اختتام کے معاہدے پر یہاں دستخط ہوئے۔آج بھی جنگل نما اس علاقہ کو دیکھ کر پوری تاریخ نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کا فائدہ کس کو ہوا؟ یعنی اس جنگ کے بعد امریکہ کو اپنی طاقت دکھانے کا موقع ملا،،، اور اس کے علاوہ تمام اقوام کی شوکت و امارت کا فلک بوس محل دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ برطانیہ دیوالیہ ہو گیا تھا، فرانس زخم زخم تھا، روس اور جرمنی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے تھے، آسٹریا اور ہنگری کی عظیم سلطنتیں ختم ہو گئی تھیں، خلافتِ عثمانیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی تھی، اٹلی بدحواس اور مضطرب تھا اور یورپ کے باقی سارے ممالک اس جنگ کے طوفانی اور آتشیں تھپیڑوں کی وجہ سے راکھ کا ڈھیر بن رہے تھے۔اس جنگ کا اسلامی دنیا پر اس معاہدہ کا بہت برا اثر پڑا۔چونکہ سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی تھی اس لیے اُسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایااور اِس طرح سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کے مابین قومیت کی بنیاد پر جنگیں شروع ہوگئیں۔ اِن جنگوں میںبہت سے عرب علاقے ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے اور اسی جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کی وحدت کی علامت عظیم خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔اس جنگ تک مسلمان ایک اچھی حیثیت میں تھے، مڈل ایسٹ کو بانٹ دیا گیا۔ انڈیا میں تحریک خلافت چلی جسے دبا کر مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ امریکہ ایک عالمی طاقت بن کر ابھر ا، جسے اس قدر شہہ ملی کے اُس نے دوسری جنگ عظیم میں دنیا کر پرخچے اُڑا کر رکھ دےے۔ جنگ کے نتیجے میں روس میں غربت مزید بڑھ گئی، روس میں صنعتوں کا وجود ختم ہوگیا۔ جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس وقت سازش یہ ہوئی کہ امریکا اپنے جدید ہتھیاروں کو ”ٹیسٹ“ کرکے دنیا پر اپنا رعب و دبدبا بڑھانا چاہتا تھا،،، اس سے پہلے برطانیہ عالمی طاقت ہوا کرتا تھا، جس کی جنوبی ایشیا سمیت 30سے زیادہ ممالک پر حکومت تھی۔ لیکن اس جنگ کے بعد سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک امریکا جاپان پر ایٹمی دھماکے کرکے سپر پاور بن گیا۔
آج بھی جنگ محض پاکستان اور بھارت کی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے عالمی طاقتوں خاص طور پر اسرائیل و امریکا و اُن کے اتحادیوں کی ایک بڑی سازش لگتی ہے،،، کیوں کہ اسرائیل تو پہلے ہی فلسطین میں جدید ہتھیاروں کے استعمال کے بابت دنیا پر اور خاص طور پر لبنان، ایران اور دیگر عرب ممالک پر اپنا سکہ منوا چکا ہے،،، جس کے بعد ایران سمیت یہ ممالک قدرے کمزور ثابت ہوئے ہیں۔ جبکہ چین جو اس وقت جو ہمارے ساتھ کھڑا ہے،،، اگر خدانخواستہ پاک بھارت جنگ بڑھتی ہے تو چین اس جنگ میں پاکستان کا ساتھ دے گا، اُسے جدید ہتھیاروں سے لیس کرے گا، تب امریکا و اسرائیل جو پہلے ہی بھارت کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں،اس کی تازہ مثال آپ حالیہ اسرائیلی ساختہ ڈرونز کی لے سکتے ہیں جو 35ہزار میٹر بلندی پر پرواز کرتے ہوئے پاکستان پہنچ رہے ہیں ، جبکہ اُن کے کم بلندی پر آنے کے بعد ہماری فورسز اُنہیں تباہ کر رہی ہے،، اُنہیں موقع میسر آئے گا کہ وہ بھارت کی مزید مدد کریں،،، تو ایسے میں یہ دونوں ملک بڑی قوتوں کے اسلحہ ”ٹیسٹنگ سنٹر“ بن جائیں گے۔ اور تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔
آپ تاریخ پڑھ لیں کہ پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی، جس میں دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا،یہ پہلی جنگ تھی جو سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ فضا میں بھی لڑی گئی۔جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے کروڑوں افرادجان سے گئے،اوردو کروڑوں افراد ہمیشہ کیلئے معذور یا ناکارہ ہوگئے۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ خاکم بدہن یہاں بھی کچھ ایسا ہو سکتا ہے،،، لیکن اگر دونوں ملک باز نا آئے تو یہ لڑائی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔اس موقع پر 1857ءکے غدر کے بعد دلّی کی لہولہان اور اداس گلیوں میں لکڑی کا سہارا لیتے دھیرے دھیرے زیرلب گنگناتے تنہا چلتے پھرتے غالب یاد آگئے:
ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا
بہرکیف بادی النظر میں ہمیں بڑی طاقتوں کا لقمہ بننے سے بہتر ہے کہ حالات کو نارمل کریں۔ امریکا، اسرائیل یا دیگر ملکوں کا آلہ کار بننے کے بجائے ہوش کے ناخن لیں اور اپنے لوگوں کو دیکھیں۔اگر دونوں ملک یہ سوچ رہے ہیں کہ محدود جنگ شروع کریں گے، یا کسی بڑی جنگ کا سوچ رہے ہیں تو خصوصاً دو ہمسایہ اور ایٹمی طاقتوں کے درمیان مکمل تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا مقصد جنگ کے امکانات کو محدود یا حتمی الامکان ختم کرنا تھا، اور اب بھی ہے‘ مگر دونوں جانب سوچ کے دھارے کچھ مختلف رہے ہیں۔ یہاں امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ اور اس دوران ہتھیاروں کی دوڑ کے ساتھ امریکہ میں ایک تزویراتی سوچ کا ذکر ضروری ہے۔ وہاں کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ سوویت یونین کے خلاف ایٹمی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ ایک وقت تک صدر ریگن سٹار وار‘ یعنی آسمانوں میں دفاعی نظام معلق کرکے سوویت یونین کے جوہری ہتھیاروں‘ میزائلوں اور بمبار طیاروں کو نشانے پر رکھنے کی راہ پر چل پڑے تھے۔ اچھاہوا کہ وہ جلد ہی سمجھ گئے کہ ایک دوسرے کی جوہری طاقت کو تسلیم کرنے اور باہمی امن قائم کرنے کی خاطر لڑائی میں نہ پڑیں تو ہی بہتر ہے کہ کہیں بات ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک نہ پہنچ جائے۔ہمیں بھی بہت جلد واپس آجانا چاہیے اور یہ بات سمجھنی چاہیے کہ واپسی کسی صورت ممکن نہیں ہوگی!میں پھر یہی کہوں گا کہ جنگوں کے گہرے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہتے ہیں۔ پہلی عالمی جنگ بھی ظلم و بربریت کی داستانوں کو بڑھاتی اور برداشت و رواداری کے جذبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔اتحادی اور محوری قوتوں سے شروع ہونے والی اس لڑائی میں آہستہ آہستہ کرکے دنیا کی بیشتر اقوام بھی حصہ بنتی چلی گئیں اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی۔اس لیے خدارا عالمی سازشوں کو سمجھیں اور راکھ کا ڈھیر بننے سے اجتناب برتیں!
