پرائی دیگ کے دعوے دار

عامر بن علی برسوں سے ایک ادبی ماہنامہ “ارڑنگ” چھاپ رہے ہیں۔وہ خود جاپان میں ہوتے ہیں۔اس لیے انہوں نے اس ماہنامے کی ترتیب، طباعت و اشاعت اور ترسیل کی ذمہ داری برادرم حسن عباسی کے دوش پر ڈال رکھی ہے۔ظاہر ہے کہ وہ ایک کمرشل پبلشر ہیں۔یہ ذمہ داری انہوں نے مفت میں تو ہرگز نہیں اٹھائی ہو گی۔عامر بن علی “ارڑنگ” کے ہر شمارے کے لیے کسی ادیب کا مفصل انٹرویو کرتے ہیں جو رنگین تصویروں کے ساتھ چھپتا ہے۔ان انٹرویوز کی تعداد 100 ہو گئی تو ان کے دل میں خیال آیا کہ جب تمام انٹرویوز کی کمپوزنگ ہو چکی ہے تو کیوں نہ انہیں “100 تخلیق کار” کے نام سے کتابی صورت میں چھاپ دیا جائے۔

ادارہ “ارڑنگ” نے کتاب کی طباعت و اشاعت کی خبر سرورق کے سا تھ فیس بک پر لگائی تو کچھ احباب نے ان کی خوب خبر لی۔کسی نے اعتراض کیا کہ بہت سے اہم نام رہ گئے۔کسی نے کہا کہ اس میں بہت سے غیر اہم ادیب بھی شامل کر لیے گئے ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عامر بن علی ایک مرنجاں مرنج قسم کے آدمی ہیں۔ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرتے ہیں۔وہ وطن عزیز سے ہزاروں کلومیٹر دور رہ کر بھی اردو ادبی دنیا سے ناطہ رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان آنے سے پہلے وہ اپنے بہت سے دوستوں کو فون پر اپنے آنے کی اطلاع دیتے ہیں۔ان سے ملنے کے لیے وقت طے کرتے ہیں۔کچھ دوستوں سے “ارڑنگ” کے لیے تخلیقات حاصل کرتے ہیں اور ایک آدھ شخصیت کا انٹرویو کرتے ہیں جو رنگین تصویروں کے ساتھ “ارڑنگ” میں چھپتا ہے۔اب یہ تمام انٹرویوز کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں اور کتاب جلد مارکیٹ میں ہو گی لیکن اس کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی ہمارے ادیب دوستوں نے متنازع بنا دی ہے۔ویسے اس کا سارا فائدہ عامر بن علی اور ان کے پبلشر ہی کو ہو گا۔کتاب خوب بکے گی۔(اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔)

ہمارے دوستوں کے قربان جائیے کہ دوسرے کی پکی پکائی دیگ پر اپنا حق جتاتے ایک لمحہ نہیں لگاتے۔آپ کوئی مشاعرہ کیجیے۔اپنے چند شاعر دوستوں کو بلائیے۔پھر دیکھیے شاعر دوستوں کی گل افشانیء گفتار۔ہر شخص آپ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرے گا کہ جن شاعروں کو مدعو کیا گیا ہے وہ کم درجے کے ہیں اس لیے انہیں مت بلائیے۔آپ کے یہ مہربان آپ کو شاعروں کی ایک فہرست بھی بنا کر بھیج دیں گے اور کہیں گے کہ مجھے بلائیے یا نہ بلائیے، انہیں اپنے مشاعرے میں ضرور مدعو کیجیے۔حالانکہ بین السطور یہی سوچ ہوتی ہے کہ آپ انہیں اس مشاعرے میں نہ بلا کر بہت بڑی غلطی کرنے جا رہے ہیں۔بھئی اگر مشاعرے میں مدعو نہ کئے گئے شاعروں کو نظرانداز کئے جانے کا اتنا ہی دکھ ہے تو ان کے لیے آپ اپنا مال حلال خرچ کر کے کوئی مشاعرہ برپا کر دیجیے۔چلیے کسی سرکاری ادارے کا مشاعرہ ہو تو آپ اعتراض کیجیے کہ سرکار پر ہر آدمی کا حق ہے لیکن کسی کی ذاتی کاوش کو تو متنازع نہ بنائیے۔

بالکل یہی سلوک عامر بن علی کی کتاب”100 تخلیق کار” کے ساتھ کیا گیا ہے۔لوگ اس عہد کے بہت سے بڑے ادیبوں کے نام لکھ کر صرف اس لیے اپنے دل کا ساڑ نکال رہے ہیں کہ وہ اس کتاب میں شامل نہیں کیے گئے۔ اگر عامر بن علی اپنی اس کتاب کے لیے “ارڑنگ” میں چھپنے والے 100 انٹرویوز میں سے 50 منتخب کرتے تو باقی رہ جانے والوں کا اعتراض بجا ہوتا۔لیکن انہوں نے کسی جھگڑے سے بچنے کے لیے تمام لوگوں کے انٹرویوز شامل کئے اور یار لوگوں نے پھر بھی بات کا بتنگڑ بنا دیا۔اگر اس کے باوجود یہ احباب سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ بہت اہم ہیں تو ان کے لیے خود کوئی کتاب مرتب کر کے کیوں نہیں چھپوا دیتے؟ مگر یہ کام وہ کیوں کرنے لگے؟ اس کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔محنت کرنا پڑے گی اور رقم الگ خرچ ہو گی۔ایک بات یہ ہے کہ عامر بن علی نے کوئی ادبی تاریخ مرتب نہیں کی۔اگر یہ ادبی تاریخ ہوتی تو ظاہر ہے کہ پھر وہ کسی کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔کرتے تو ہم سب گرفت کرتے۔ان کی توجہ ان لوگوں کی طرف دلاتے جو ان کی ادبی تاریخ میں نظرانداز ہوتے۔میں خود بھی ان کے ناقدین میں سر فہرست ہوتا۔اگر ان کی کتاب کا عنوان “اس عہد کے 100 بڑے تخلیق کار” ہوتا تو بھی ان پر اعتراض کیا جا سکتا تھا۔

یہ بات میں یقین سے کہتا ہوں کہ اب عامر بن علی یقیناً ان ادیبوں کے ناموں کی فہرست اپنے پاس ضرور محفوظ کر چکے ہوں گے جن کی نشان دہی ان کے ناقدین نے کی ہے۔اب وہ ان کے انٹرویوز کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں