مریم نواز شریف کیسی وزیر اعلیٰ ہیں؟ اس کا تو ابھی تعین کرنا مشکل ہے، مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باقی نہیں کہ وہ ایک خوش قسمت وزیر اعلیٰ ضرور ہیں،انہیں اقتدار سنبھالتے ہی اپنے تجربہ کار والد کے مشوروں اور ہدایات کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھی بیوروکریٹک ٹیم ملی جو محنتی اور با صلاحیت بھی ہے،اس کے باوجود کہ مریم نواز کو اقتدار کا کوئی تجربہ نہیں تھا مگر چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ انہوں نے اپنے تدبر،محنت اور فہم و فراست سے نہ صرف ایک اچھی ٹیم بنائی بلکہ نتائج بھی دے رہے ہیں۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں،کے مصداق پیپلز پارٹی جو اب تک اقتدار میں خاموشی سے شامل تھی اب وہ شریکے پر اتر آئی ہے اور اپنے گورنر کی تعیناتی کرانے کے بعد، اب کے برس ہم گلشن والو اپنا حصہ پورا لیں گے،کہتی نظر آ رہی ہے،اور زرداری جدوں آوے گا تے لگ پتہ جاوے گا،سانجھے کے اقتدار میں گورننس کی ہنڈیا ہمیشہ متاثر ہوتی ہے، بہرحال اس پر بات پھر کریں گے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے معروف سیاست دان اور فوجی جرنیل نپولین بوناپارٹ نے ایک دفعہ کہا تھا،کہ آپ مجھے پڑھی لکھی ماں دیں،میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو ایک اچھی قوم دوں گا،نپولین کے اس قول کو اگر ہم راج سرکار اقتدار اور حکمرانی کے تناظر میں تھوڑا مولڈ کر لیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی حکومت کو اگر اچھی بیوروکریسی مل جائے تو پھر گڈ گورننس کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ جاتی، میرے خیال میں یہ تحریف کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، میں اس کے جواز کے طور پر مریم نواز حکومت کی سو روز کی کارکردگی کی بات کر سکتا ہوں جو قانون سازوں اور قوانین پر عمل درآمد کرانے والوں دونوں کے درمیان نظم و ضبط کی ایک بہترین مثال ہے، مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بنیں تو ان کے سامنے دو مثالیں تھیں اپنے چچا شہباز شریف اور ماضی قریب میں عبوری دور حکومت کی،ان کے لئے لازم تھا کہ اگر انہیں خود کو کامیاب حکمران ثابت کرنا ہے تو وہ ان دونوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بیوروکریسی کسی بھی حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جدید دور میں حکومتیں دو ایکٹرز کے ذریعے چلتی ہیں، اول قانون ساز جو عوامی ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آتے ہیں اور منتخب ہوتے ہیں،دوئم بیوروکریٹس جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں،ان کو مختلف پوسٹوں پر نامزد کیا جاتا ہے، سیاست اور انتظامیہ کے درمیان شراکت داری وضاحت کرتی ہے کہ قانون کی حکمرانی کیسی ہے اور سیاست کی جانب سے ملک یا عوام کی خدمت یا تحفظ کے لیے جو کچھ کرنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے اس پر کتنا اور کیسے عمل درآمد ہوتا ہے۔ بیوروکریسی کا کام یہ ہے کہ رائے دہندگان کی ضروریات اور خواہشات کو اکٹھا کرے ان کا تجزیہ کرے اور جو نتیجہ نکلے اس کے مطابق ان خواہشات اور تقاضوں کو با معنی پالیسیوں میں ڈھالے۔
گورننس کی بات کی جائے تو اسے اگر ریاست اور حکومت کے معاملات کو موثر طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے منطقی نقطہ نظر کو استعمال کرنے کی مشق قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گورننس کا ارتقا ہو رہا ہے اور کسی بھی ملک میں گڈ گورننس کے اہداف کے حصول میں بیوروکریسی کا ابھرتا ہوا کردار بہت اہم ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بنیادی ضرورت اور پہلی سیڑھی گڈ گورننس ہی ہے، عوامی خدمات کی فراہمی کا جائزہ لے کر حکومت کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں کو کتنا عملی جامہ پہنایا جاتا ہے اس سے بیوروکریسی کی کارکردگی واضع ہوتی ہے۔
مریم نواز کو ایک اچھی انتظامی ٹیم ملی جو ان کی باتوں کو سمجھتی ہے اور ان کے احکامات بجا لاتی ہے، اس میں کلیدی کردار بلا شبہ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان کا ہے جنہوں نے پہلے دن سے ہی وزیر اعلیٰ کو ہر طرح سے اعتماد میں لیا اور انہیں ایسے اقدامات کرنے کے مشورے دیے جو عوامی خواہشات کے عین مطابق ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سیاست دان کی حیثیت سے مریم نواز کے پاس عوام کی خدمت اور صوبے کی تعمیر و ترقی کا اپنا بھی ایجنڈا تھا جس کو وہ اب بروئے کار لا رہی ہیں لیکن اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ان کی بیوروکریسی کی ٹیم کی اہلیت افادیت اور اہمیت نظر انداز نہیں ہو سکتی، چیف سیکرٹری زاہد زمان ایک محنتی مثبت سوچ رکھنے والے افسر ہیں، ان کا ایک کامیاب اور شاندار کیریئر ہے، پنجاب میں (بعض حلقوں کے مطابق) ایک ٹک ٹاکر دورِ حکومت ہے، اس کے باوجود چیف سیکرٹری کوآرڈی نیشن قائم رکھے ہوئے ہیں اور اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیاب جا رہے ہیں۔
اکثر افسر عبوری دور کو ایک عبوری دور کے طور پر ہی گزارتے ہیں لیکن زاہد زمان نگران دور میں فارغ نہیں بیٹھے اور انہوں نے عبوری دور اپنی میجر ٹیم اور افسران کی سلیکشن میں گزارا، انہوں نے اپنے رفقائے کار کے طور پر ایسے افسران کا انتخاب کیا جن کی کارکردگی سے وہ مطمئن تھے، ان کی یہ کاوش رائیگاں نہیں گئی، وہی افسران اب ان کی توقعات کے عین مطابق اچھا کام کر رہے ہیں، ٹیم کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور ٹیم ورک کی اس سے بھی زیادہ، یہ ٹیم ورک ہی ہوتا ہے جو کسی طالع آزما کو کسی جنگ میں فتح دلاتا ہے یا کسی ٹیم کو کسی میچ میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے،پنجاب میں چیف سیکرٹری کی قیادت میں بیوروکریٹک ٹیم ورک تو ہے ہی مگر میاں نواز شریف بھی اپنی بیٹی مریم نواز کی بیک پر ہیں اور یہ وزیر اعلیٰ کے لیے سب سے زیادہ حوصلے کا سبب ہے۔
مریم نواز جتنی متحرک ہیں،انہوں نے اپنی اب تک کی کارکردگی سے عوام کو خاصا مطمئن کیا ہے، مہنگائی کم ہوئی ہے، روٹی آٹا اور گندم سستے ہوئے ہیں، صفائی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے، ابھی چند روز پہلے عید گزری تو سب کو معلوم ہے کہ عیدِ قربان پر جانوروں کی آلائشوں کو گلی محلوں سے اٹھانا اور مناسب جگہ پر ٹھکانے لگانا ایک مشکل کام تھا لیکن یہ کام بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیا گیا،کمشنر لاہور زید بن مقصود اور چیف ایگزیکٹو لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بابر صاحب دین کی ٹیم کے ساتھ ساتھ محکمہ بلدیات نے بھی لاہور اور صوبے کی سطح پر اپنا بھر پور کردار ادا کیا جس کے لئے سیکرٹری محکمہ بلدیات میاں شکیل اور سپیشل سیکرٹری بلدیات آسیہ گل بھی تحسین کی مستحق ہیں، آسیہ گل کو کسی محکمے کی سیکرٹری اور بابر صا حب دین کو کسی بڑے ضلع کا ڈی سی لگایا جائے تو وہ یقینی طور پر اچھے نتائج دیں گے۔وزیر اعلیٰ مریم نے بہتر گورننس کی جانب قدم بڑھانا شروع کر دیے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ بیوروکریسی سے اپنے انٹر ایکشن کو مزید بڑھائیں، بیوروکریسی کو عزت ملے گی تو اس کے کام میں مزید بہتری آئے گی۔